• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیدر تقی صاحب کے جانے پر مجھے سارے سینئر صحافی یاد آنے لگے، جن کے ساتھ تہذیبی، سماجی اور صحافتی رشتے تھے۔ ان سب کو یاد کرتے ہوئے مجھے تقی صاحب کی محبت اور بار بار یہ کہنے پر اصرار ’’آپ لکھتی رہیں‘‘۔اب پورے پاکستان میں ایک بھی ایسا صحافی نہیں جوپشت در پشت، فلسفے اور ادب کی گود میں پلا بڑھا، لکھنے کا ہنر سیکھا ۔وہ کالم نویسوں کی سینیارٹی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے کالم، جنگ کے کالمی صفحے پر ترتیب دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے ظہیر بابر، امروز کیلئے، فرہاد زیدی حریت کیلئے، عنایت اللہ صاحب مشرق کیلئے، کالم نویسوں کا انتخاب کرتے تھے۔ بالکل اس طرح اخبار خواتین کے لیے عنایت اللہ صاحب اور اخبارجہاں کیلئے محمود شام کالم منتخب کرتے تھے۔یوں تو ہر شخص کو خواہش ہوتی تھی کہ ان کا کالم تقی صاحب اس جگہ شائع کریں جہاں نذیر ناجی کا کالم ہوتا تھا، مجھ جیسے لوگوں نے اگر ایک دن بھی تاخیر سے کالم بھیجا تو پریشان ہوکر یاد دہانی نہیں کراتے تھے بلکہ یہ پوچھتے تھے آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔ اس لیے انہوں نے مجھ سے ہسپتال سے بھی کالم لکھوائے اور اگر بیرون ملک تھی تو ان کا تقاضہ پورا کرنا لازمی ہوتا تھا۔ سنا ہے کہ سہیل وڑائچ اور تقی صاحب، بہت سے لکھنے والوں کے مضامین کی موجودہ سیاست سے متعلق کالموں میں کتر بیونت کیا کرتے تھے۔ میرے کالموں میں چونکہ ادب اور معاشرت کے موضوعات ہوتے تھے۔ یہ دونوں استاد مجھے استاد کہہ کر معاف کردیتے تھے۔

تقی صاحب نے پچھلے ہفتے مجھے کہا..... آپ نے اکنامکس میں ماسٹر زکیا تھا، اب جو نجکاری ہورہی ہے، اس پر اپنے انداز سے کچھ لکھیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ مجھے یاد آیا کہ میں1977ء میں نے ایک لاکھ روپے کا قرض ہائوس بلڈنگ والوں سے لیا۔ یہ قرض تقریباً دگنا ہوکر قسطوں میں ختم ہوا اب بھی سوچتی ہوں تو کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اور موجودہ حکومتوں نے پہلے ہی بہت سے ادارے گروی رکھے ہوئے ہیں، ہر بار یہ کہا گیا کہ اتنی آمدنی ہوگی۔ قوم خوش حال ہوگی۔ ان ہی دعوئوں کو وسعت دیتے ہوئے پی آئی اے اور اسٹیل مل کی فروخت کے منصوبوں کے ساتھ وہی دعوے ’خوشحالی آئے گی‘۔ کچھ ماہرین معیشت مجھ جیسے، معاشیات پر نظر دوڑاتے ہوئے یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ لوگ اوپر اوپر سے یہ بلڈنگیں فروخت کردیں گے، چلو لوگوں کی نوکری کی نہیں، کم از کم ہزاروں ایکڑ زمین جو ان دوا داروں کے قابو میں ہے، علاوہ ازیں وہ تمام ورکشاپس، وہ تمام کچے لوہے کے کنویں جو سارے سندھ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ تمام بلڈنگیں، دفاتر جو پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں، اس کی قیمت کون لگائے گا کہ اب سے پہلے پی آئی اے کو مفت کھانے والے، پارلیمنٹ کے ممبران اور وزیروں کی قطار، ریٹائرڈ اسٹاف یہ سب نہ رہے تو ویسے ہی دونوں اداروں کو چلانے والے ایمان دار ہوں تو اتنی بڑی سلطنت کوڑیوں کے بھائو مت بیچیں۔ ہمارے ملک میں تو بنگالیوں کے بنائے ہوئے گھروں کو سرکاری افسروں کو فالتو سمجھ کر الاٹ کردیا گیا۔ میں کس کس شعبہ کی نشاندہی کروں۔

آج کل تاجر طبقہ بار بار کہہ رہا ہے کہ انڈیا کے ساتھ تجارت باقاعدہ شروع کریں۔ ہر چند دبئی کے راستے سے سب ساڑھیاں اور دیگر اشیاء پاکستان میں آ رہی ہیں۔ براہ راست تجارت، خاص کر اس زمانے میں جبکہ انڈیا میں4جون تک جاری رہنے والے الیکشن ہورہے ہیں۔ ان کے سابقہ تجارت کے معاشی پہلو بھی دیکھیں۔ اول تو انڈیا اور پاکستان میں ڈالر کے ریٹ میں بڑا فرق ہے، اس طرح پاکستان اور انڈیا کی کرنسی میں بھی بہت بڑا فرق ہے۔ تو ہمیں اس ماحول میں انڈیا کے ساتھ تجارت میں بزنس کے لوگوں کو تو فائدہ ہوسکتا ہے، عام شخص کیلئے جب آم یا سیب آئیں گے تو عوام کی قوت خرید سے باہر ہوں گے۔ میں نے بہت سے ریڈی میڈ کپڑوں اورانڈیا کی تمام چیزوں کو، جس میں خاص کر آرٹیفیشل جیولری شامل ہے، پاکستانی کہہ کر فروخت ہوتے دیکھا ہے۔ خاموش اس لیے رہی کہ خریدنے والے منہ مانگی قیمت یہ سن کر دینے کو تیار تھے کہ یہ انڈیا سے آئی ہیں۔

ہماری قوم کو باہر کے ملکوں کی ہر قسم کی مصنوعات خریدنے کا شوق اس لیے ہے کہ ان کے پاس پیسہ (آپ کو معلوم ہے) کہاں اور کیسے آتا ہے۔ ورنہ ہم جیسے تو شکر، جو کا دلیہ اور مقامی سبزیاں جو کلو کے لحاظ سے خریدتے تھے، اب آدھا کلو بھی مشکل سے لیتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلو م ہے کہ انڈیا والے بھی ایسی ہی حرکتیں کرتے ہیں۔ وہ ہمارا باسمتی چاول تھوک کے حساب سے خریدکر انڈیا کی مہر لگاکر عالمی سطح پر فروخت کرتے رہے ہیں۔ اب تو باقاعدہ قانونی لڑائی کے بعد، یہ حرکتیں کم ہوئی ہیں۔ پھر بھی ہماری نفسیات جب تک نہیں بدلتی، ہمارے غیر ممالک سے آنے والے سوٹ کیسوں میں وہی چیزیں ملیں گی جو تمام دکانوں پر موجود ہیں۔

ان موضوعات نے میرے ذہن پر ایسا گھیرا ڈالا ہے کہ اصل اور اہم موضوع فلسطین بیک گرائونڈ میں چلا گیا ۔ معافی کہ اب ساری سلامتی کونسل نے منظور کیا ہے کہ فلسطین ایک علیحدہ ملک ہے، ہر چند قبضہ گیر یہودیوں نے فلسطینیوں کے علاقوں میں اپنی بستیاں بنانی شروع کردی ہیں۔ برباد آبادیوں میں بچے کھچے فلسطینی جب کھنڈر گھروں کی جانب پلٹتے ہیں تو سینکڑوں لوگوں کی اجتماعی قبریں دیکھ کر غم سے نڈھال ہوتے ہوئے بھی ان شہیدوں کواسلامی طریقے سے دفنا رہے ہیں۔زندہ باد فلسطین اور فلسطینی۔

تازہ ترین