گجرات کی مٹی محبت کی امین ہے، دنیا بدلی، زمانے کے تیور بدلے مگر گجرات کی فضاؤںنے اپنی روش نہ بدلی ،یہ عاشقوں کی سرزمین ہے، عشق جدوجہد اور حرکت کی علامت ہے جو انسان کو ناممکن منزلیں سر کرنے پر اُکساتا ہے ۔سوہنی نے ثابت کیا کہ عشق عورت کے نازک سراپے کو اندھیرے اور طوفانی لہروںکے خوف سے بے نیازکر دیتا ہے ۔چناب کا والہانہ پن اور ظرف رکھنے والوں نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں سے عظمت کی ایسی مثالیں قائم کیں جو پوری دنیا میں گجرات کی نیک نامی کا باعث بنیں۔گجرات کے لوگوں کی جداگانہ صلاحیتوں کے باعث اسے پاکستان کا یونان کہا گیا۔چیلنج قبول کرکے مشکلات پر قابو پانے اور حالات کو ہمنوا بنانے کی خوبی رکھنا گجرات کی مٹی کی سرشت میں ہے، صدیوں سے یہاں علم و فن، ادب و ثقافت اور سیاست و صحافت کے میدانوں میں قد آور ہستیاں جنم لیتی رہیں اور اپنے وجود کی شعاعوں سے دنیا میں علم کی روشنی اور فنون کی چاشنی بانٹتی رہیں، ایسی ہستیوں کا تاریخ میں تذکرہ بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ نئی نسل نہ صرف اپنے عظیم ورثے سے آگاہ ہو کر خیر کے سفر کو آگے بڑھائے بلکہ اپنی امیرانہ وراثت کے خزانے دیکھ کر خود پر فخر کرے، اُن کا مورال بلند ہو، وہ اس وراثت کا بھرم قائم رکھنے کے لئے درست سمت سفر آغاز کرے۔
گجرات میں محبت کی کہانیاں جنم لیتی رہیں ہیں ۔شیخ عبدالرشید آج کے گجرات کی محبت بھری داستان کا ایک سنہرا کردار ہے، یہ داستان تھوڑی مختلف ہے، اس کی ذات محبت، اخلاص اور حلیمی کا امتزاج ہے جس کے لئے محبت سے دئیے گئے حکم پر سرِ تسلیم خم کرنا اعزاز ہے مگر داداگیری برداشت نہیں، وہ ہر لمحہ متحرک رہنے میں خوشی محسوس کرتا ہے لیکن کبھی کبھی جبر کے موسم میں نازل ہونے والے آفت صفت کردار اسے کام سے دور کرکے اس کی سوچ اور شخصیت کو مفلوج کرنے کی سعی کرتے ہیں تو وہ ٹوٹنے لگتا ہے کہ فارغ بیٹھنا اسے سزا کی طرح محسوس ہوتا ہے، تاہم شیخ عبدالرشید کی کہانی صرف دو رومانی کرداروں کے گرد نہیں گھومتی بلکہ گجرات کو جگمگانے والے سینکڑوں کرداروں پر مشتمل ہے۔گجرات سے شیخ عبدالرشید کی محبت اب عشق کا روپ دھار چکی ہے، وہ ہر سانس کے ساتھ اس محبت کی تجدید کرتا ہوا دوسرے کردار تلاش کرتا ہے، ان سے بات چیت کو رقم کر کے کتابی شکل دیتا ہے ۔ہر انسان کا خمیر دھرتی کے اس خاص حصے سے خاص جڑت رکھتا ہے جسے قدرت اس کے لئے منتخب کر کے اس کی پناہ گاہ بناتی ہے ۔اس میں کچھ خاص پنہاں ہوتا ہے ۔اس کے بزرگوں کی خوشبو آنے والی نسلوں کا رستہ سنوارتی اُن کے لئے دعائیہ حصار بنائے رکھتی ہے ۔اس لئے دوسرے شہروں میں جا بسنے والوں کو بھی کبھی کبھی ان فضاؤں میں سانس لے کر دھرتی سے ہم کلامی کرنی چاہیے، جہاں ان کے بزرگ زندگیاں گزار چکے ہیں ۔زمین سے محبت نہ کی جائے تو وہ بھی اجنبی ہو جاتی ہے، روٹھ جائے تو زندگی دوبھر ہو جاتی ہے اس لئے بڑے لوگ زمین سے جڑت کو کمزور نہیں ہو نے دیتے ۔گجرات شیخ عبدالرشید کا محبوب ہے ۔ وہ اس کے تمام اُجلے رنگ اور خوبصورتیاں دنیا کے سامنے لا کر سب کو اس کی مدح میں شریک کرنا چاہتا ہے، اس سلسلے میں اس نے بہت اعلیٰ پائے کا تحقیقی کام شروع کر رکھا ہے، گزشتہ دنوں گجرات نگاری کے حوالے سے اس کی دو کتب مرقع گجرات اور گجرات میں عربی ادب کی روایت کی رونمائی کے سلسلے میں کافی دیر بعد گجرات یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا، اس یونیورسٹی کے ساتھ ایک دلی انسیت ہے، ہمیشہ اس کی ترقی کے لئے دعا کرتی ہوں۔ پہلے وی سی ڈاکٹر نظام کی عمدہ کاوشوں کے بعد اسے جدید یونیورسٹی بنانے میں ڈاکٹر ضیاالقیوم کا عرصہ سنہری دور کہا جا سکتا ہے جس میں ہر دن عروج کی طرف سفر جاری رہا ،ہر دور میں شیخ صاحب اپنی صلاحیتوں کے سبب انتظامیہ کے پسندیدہ رہے ۔موجودہ وی سی ڈاکٹر مشاہد انور بھی شیخ صاحب کی کاوشوں سے مطمئن نظر آئے۔ گجرات نگاری کی تعارفی تقریب میںراقم کے علاوہ اسی دھرتی کا لائق بیٹا کاشف منظور، ضیاالحق نقشبندی، ڈاکٹرامجد طفیل ، پروفیسر کلیم احسان بٹ، عتیق انور راجہ اورگگن شاہد خراج تحسین کے لئے حاضر ہوئے ۔علم، ادب،تاریخ، سیاست،روحانیت ،صحافت، اداکاری، گلوکاری کے شعبوں میں عالمگیر شہرت رکھنے والی شخصیات کے بارے میں معلومات پڑھ کر بہت اچھا لگا ۔ظاہر ہے ایک کتاب میں تمام ہستیوں کا تذکرہ ممکن نہیں تھا اس لئے اس سلسلے کی کئی کتابیں زیر تحریر ہیں جن کی اشاعت جلد متوقع ہے ، فارسی اور عربی دنیا کی بڑی زبانیں ?ہیں اور کبھی گجرات میں ان زبانوں کی حکمرانی تھی گجرات میںعربی اور فارسی میں لکھنے والوںکی تحریریں اور ان کی زندگی کے حالات یکجا کرنا آسان کام نہیں تھا، ایسے کام کے لئے پورے شعبے درکار ہوتے ہیں، شیخ عبدالرشید نے نہ صرف تنہا یہ کام سرانجام ہے بلکہ شائع بھی خود ہی کیا ہے ۔ابھی گجرات کے حوالے سے بہت کچھ شیخ عبدالرشید کی فائلوں میں لکھا رکھا ہے جو گجرات کی تاریخ کو اور اُجلا بنائے گا ۔صلے میں ہم ان کو کیا ایوارڈ دے رہے ہیں سوچنا یہ ہے؟