• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس طرح ہمارے پورے ملک میں ہر ادارہ تنزلی کی طرف گامزن ہے، اسی طرح اس کا شکار گورنمنٹ کالج لاہور بھی ہے، اس کا اندازہ مجھے 27 اپریل کی شام اس وقت ہوا جب میں اولڈ راوینز یونین کے منعقدہ سالانہ عشائیہ میں پہنچا، راوینز کے اس ڈنر میں تقریروں، کھانوں اور میوزک کا اعلیٰ معیار ہوا کرتا تھا مگر اس مرتبہ پروگرام کے شروع سے لے کر آخر تک کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہ تھا جس نے دکھ میں اضافہ نہ کیا ہو۔ مثلاً جو سٹیج سیکرٹری صاحب تھے،ان کی گفتگو کے آغاز ہی سے ایسے لگا جیسے کوئی یونین کونسل کا ناظم بول رہا ہو۔ میں نے تبصرہ کیا تو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک سینئر بیوروکریٹ نے برجستہ کہا کہ’’نہیں سر! یونین کونسل کا ناظم نہیں بلکہ یونین کونسل کا سیکرٹری بول رہا ہے‘‘۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں خوش الحان قِرْأَت کرنیوالے موجود ہیں، پتہ نہیں آج قاری صاحب کہاں سے ادھار لائے گئے تھے؟ اس کے بعد سٹیج پر جتنی تقریریں ہوئیں، وہ ایک دوسرے کی تعریفوں سے بھری پڑی تھیں، ایسے لگ رہا تھا جیسے سٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگ صرف ایک دوسرے کی تعریفیں کرنے آئے ہیں، کسی نے کوئی ڈھنگ کی بات نہ کی، سٹیج سیکرٹری صاحب تو لوگوں کے نام بھی درست نہیں لے رہے تھے، ایک صاحب اس طرح اردو بول رہے تھے جیسے مرحوم ڈاکٹر شیر افگن نیازی انگریزی بولا کرتے تھے۔ پہلے ویٹرز شاندار انداز میں اعلیٰ کھانے ٹیبل پر سرو کیا کرتے تھے، اس بار وہ مزہ بھی کرکرا رہا، ہماری ٹیبل پر یونین کے ایک ممبر پتہ نہیں کہاں سے کھانا ٹرے میں لے آئے۔ میوزک کا بھی برا حال تھا، ہمارے کالج کے شفقت امانت علی، حدیقہ کیانی، وارث بیگ یا جواد احمد کو بلایا جا سکتا تھا مگر انتظامات کرنے والوں کو کون سمجھائے؟

میرے خیال میں جب سے گورنمنٹ کالج لاہور کا نام جی سی یو رکھا گیا ہے، وہ آسیب کے سائے کا شکار ہے، ہماری مادر علمی کو ہمارا اپنا نام گورنمنٹ کالج لاہور چاہیے تاکہ یہاں سے جنات اور بھوت بھاگ جائیں اور گورنمنٹ کالج لاہور اپنا کھویا ہوا معیار حاصل کر سکے۔ دنیا میں بہت سے ادارے یونیورسٹیوں کا کام کر رہے ہیں مگر ان کے نام ابھی تک وہی ہیں جو پہلے تھے، جیسے لندن سکول آف اکنامکس۔ پچھلا کالم میں نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے لکھا تھا، جس پر بہت سے محب وطن حلقے نہ صرف خوش ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے اپنے انداز میں دلچسپ تبصرے بھی کیے، پتہ چلا ہے کہ نجکاری کرنے والوں نے پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، پی آئی اے ہولڈنگ اور پی آئی اے کمرشل یعنی جس کا تعلق ایوی ایشن سے ہے، دونوں کے قرضوں میں ہیر پھیر کرکے پی آئی اے کا قرضہ دونوں پر مرضی سے تقسیم کر دیا گیا ہے، سنا ہے ساڑھے چھ سو ارب ایک حصے کو عطا کر دیا ہے اور باقی 56 ارب پی آئی اے کمرشل کے ذمے ڈال دیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پی آئی اے صرف 88 ارب کا پی ایس او کا مقروض ہے، قرضے کا یہ 88 ارب بھی شامل کر لیں مگر اس پر جو لطیفے سامنے آ رہے ہیں وہ عجیب و غریب ہیں، بولی دینے والوں میں ایک صاحب شامل ہیں، وہ 60 ارب کی بولی دے رہے ہیں، سنا ہے وہ بڑا سیاسی اثرو رسوخ رکھتے ہیں، یہ تو چلو 60 ارب کی بولی دے رہے ہیں، مبینہ طور پر پتہ چلا ہے کہ سیاسی قیادت کے بھائی کے ایک چہیتے دوست جو بڑے بزنس مین ہیں، وہ کہتے ہیں’’مجھ سے 15 ارب لے لو اور بات ختم کرو‘‘۔ انہوں نے پہلے بھی نجکاری کی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے پھر سننے میں آیا تھا کہ پنجاب پولیس کی وردی بھی انہی کی خواہش پر تبدیل کی گئی تھی کیونکہ ٹھیکہ ہی انہیں دیا گیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ مبینہ طور پر ایک اور مضبوط سویلین شخصیت نے نجکاری کے وزیر سے کہا ہے کہ’’کاکا! ساڈا وی خیال کرنا‘‘۔ اس شخصیت کا تعلق اگرچہ سندھ سے ہے مگر انہوں نے کہا پنجابی میں ہے۔ اداروں کو ایک اور شخصیت کا جائزہ لینا چاہیے جو سرمایہ کاری کے خواہش مند افراد کے ساتھ ہر میٹنگ میں اپنے بیٹے کو ساتھ بٹھاتے ہیں۔ پاکستان میں سلسلہ چشتیہ کے سب سے بڑے بزرگ بابا فرید الدین گنج شکر رحمت اللہ پاکپتن والے ہیں لہٰذاہمارے ہاں جس قوال کو وہاں مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے پھر وہ ہر جگہ مقبول ہو جاتا ہے۔ دو روز پہلے ہمدمِ دیرینہ برادرم سہیل وڑائچ نے اپنے گھر پہ قوالی کا اہتمام کیا تھا، اس محفل میں انہوں نے پاکپتن سے مقبولیت حاصل کرنے والے شیر میاں داد قوال کو مدعو کیا، یہ قوالی ایک عشائیے کے موقع پر تھی، یہ عشائیہ طاہر چوہدری کی قیادت میں برطانیہ سے آئے ہوئے صحافیوں کی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں تھا، محفل میں شہر کے معززین کی اچھی خاصی تعداد شریک ہوئی۔ احمد فراز یاد آ گئے کہ

زندگی یوں تھی کہ جینے کا بہانہ تو تھا

ہم فقط زیب حکایت تھے،فسانہ تو تھا

ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں، وہ لوگ

آتے جاتے ہوئے موسم تھے، زمانہ تو تھا

تازہ ترین