• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں اپنا ہفتہ وار کالم تحریر کرنے کیلئے میں اہم قومی و عالمی واقعات پر نظر ڈال رہا تھا تو دو بڑی اہم خبروں نے میری توجہ اپنی جانب مرکوز کرالی، سب سے پہلے میں پاکستان میں بسنے والی محب وطن ہندو اقلیتی کمیونٹی کے بہادر سپوت کمل ناتھ شرماکو مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا جو اپنی محنت، لگن اور قابلیت کی بنا پر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں عسکری تربیتی کورس مکمل کر کے پاک فوج میں بطور افسر شامل ہو گئے ہیں،شرما کی کامیابی نے ثابت کردیا ہے کہ دفاعِ وطن کیلئے چوکس افواج پاکستان کے دروازے تمام پاکستانی شہریوں کیلئے بلاتفریق کْھلے ہیں، مجھے یاد ہے کہ آج سے اٹھارہ برس پہلے جنرل مشرف کے دور اقتدار میں پاکستان کے پہلے ہندو فوجی دانش ولد بھیرو مل کی پاک فوج میں بھرتی نے قومی اور عالمی سطح پر میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی۔دوسری اہم خبر سرحد پار سے موصول ہوئی ہے جس نے میرا خدمتِ انسانیت پر ایمان تازہ کردیا، میڈیا اطلاعات کے مطابق مہلک عارضہِ دل میں مبتلاایک پاکستانی لڑکی عائشہ روشن کو درکار طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بھارت لے جایا گیا جہاں اسے ایک بھارتی شہری کا دل عطیہ کیا گیاہے، ہارٹ ٹرانسپلاٹ آپریشن کی کْل لاگت ایک کروڑ پاکستانی روپے کے لگ بھگ تھی لیکن بھارتی ڈاکٹرز، سول سوسائٹی اور انسانیت کا درد رکھنے والوں نے پاکستانی والدین کا کوئی خرچہ نہ ہونے دیا، میڈیکل سائنس کا مشکل ترین آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوا اور اس طرح ہمارے پڑوسی ملک کے باسی پاکستان کی بیٹی کی زندگی بچانے کا وسیلہ ثابت ہوئے۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت دنیا کے نقشے پر دو ایسے منفرد ممالک ہیں جنکی نہ صرف ہزاروں سالہ ماضی کی تاریخ مشترکہ ہے بلکہ حال اور مستقبل بھی ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں، دونوں اطراف کے باشندوں نے باہمی حسن سلوک ، عزت و احترام کے ساتھ بہت سی صدیاں ایک ساتھ گزار دیں،ایک طویل عرصے تک خوشیاں غم سب کے سانجھے سمجھے، ایک ساتھ عید، دیوالی، ہولی اور کرسمس منائی لیکن پھرہندوستان میں سات سمندر پار سے انگریز سامراج آگیا، تقسیم کرو اور حکومت کرو کی نفرت انگیزپالیسی کو پروان چڑھایا گیا ،مختلف مذاہب کے مابین اختلافات کو بڑھاوا دیا گیا اورآخرکار برصغیر دو خودمختار ممالک میں تقسیم ہوگیا۔ قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں تحریک پاکستان دنیا کی تاریخ کی سب سے پرامن کامیاب تحریک ِ آزادی ہے جسکو کامیاب بنانے کیلئے مسلمانوںکے شانہ بشانہ جوگندرناتھ منڈل جیسے بے شمار غیرمسلم اکابر کا بھی اہم کردار ہے جو دِل و جان سے مانتے تھے کہ مسلمان اکثریتی ملک پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو اقلیت اکثریت کی تفریق سے بالاتر ہوکر ترقی کے یکساں مواقع میسر ہونگے۔ پاک فوج میں اقلیتی نوجوانوں کی شمولیت میرے اس موقف کو تقویت پہنچاتی ہے کہ پاکستان کی محب وطن ہندو اقلیتی کمیونٹی کی نظر میں پاک سرزمین دھرتی ماتا ہے جسکے تحفظ کیلئے وہ ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ سیاسی محاذ پر یہ کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی کو جاتا ہےجسکے دور اقتدارمیں 2008ء میںغیرمسلم اقلیتی کمیونٹی کیلئے سرکاری اداروں میں ملازمت کیلئے پانچ فیصد کوٹہ مختص کیا گیا جسکی بنا پرآج صوبائی اور وفاق کے مختلف سرکاری اداروں میں غیر مسلم برادری کے لوگ خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے انیس جون 2014ء کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے بھی اپنے تاریخی فیصلے میں غیرمسلم اقلیتوں کیلئے جاب کوٹہ کے احکامات صادر فرمائے۔ پاکستانی لڑکی کے انڈیا میں کامیاب آپریشن نے ثابت کردیا ہےکہ انسانیت کی خدمت سرحدوں کی محتاج نہیں ہواکرتی ، مصیبت زدہ کی مدد کرنا ایک آفاقی جذبہ ہے، مالک نے ہر انسان کے اندر قدرتی طور پر محبت کا جذبہ رکھا ہے جبکہ نفرت کرنا اسے معاشرہ سِکھاتا ہے۔یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام امن پسند ہیں اور وہ تلخی ، نفرت یا منفی رویوں پر مبنی تعلق نہیں چاہتے،سرحدپارسے موصولہ قومی الیکشن کے حوالوں سے خبروں سے بھی یہی اندازہ ہورہا ہے کہ نریندرمودی نے اپنے دورِحکومت میں انڈیا کو بڑی معاشی قوت ضرور بنایا لیکن سیکولرانڈیا کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی کوششوں کو عوام میں پذیرائی نہیں مل سکی ہے، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نریندرمودی کیلئے عوام میں 2014 ء والا جوش و خروش نظر نہیں آرہا، ووٹنگ کی شرح میں واضح کمی عوام کی مودی کی شدت پسندانہ سیاست میں عدم دلچسپی کی عکاسی کرتی ہے اور بی جے پی کا الیکشن میں چارسو نشستیں جیتنے کا خواب چکناچورہوجائے گا۔ سرحد پارنفرتوں کا ایجنڈا پروان چڑھانے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں لاکھوں کروڑوں انسان آئے اور چلے گئے لیکن لوگوں کے دِلوں پرراج صرف ان لوگوںنے ہی کیا جنہوں نے خدا کی دھرتی پرپیار، محبت، رحم دلی اوراحترام کا رویہ اپنایا، دنیا کی تاریخ میں کبھی بھی، کہیں بھی، کوئی بھی منفی جذبہ ، منفی قوت اور منفی طاقت زیادہ عرصہ پنپ نہیں سکی اور آخرکار شکست سے دوچار ہوگئی۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ خطے میں شدت پسندی، دشمنی اور منفی رویوںکوہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دیا جائے،آج اکیسویں صدی میں لوگ باشعور ہوچکے ہیں، وہ نفرت کی سیاست اور سرحدی کشیدگی سے تنگ آچکے ہیں،وہ ہیلتھ کیئر، ٹیکنالوجی اور ٹریڈ کے شعبےمیں ایک دوسرے سے تعاون چاہتے ہیں، وہ یورپی یونین کی مانند سرحد کے دونوں پار مذہبی ہم آہنگی، ہر مذہب کا احترام اور سیاحت و تجارت کا فروغ چاہتے ہیں۔میری نظر میں اگرپڑوسی ملک کے امن پسند حلقے وہاں کے ڈاکٹرز کی طرح انسانیت کا پیغام عام کریں تو دونوں ممالک کے شدت پسند عناصرکسی صورت اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے نفرت اور تلخی کو پروان نہیں چڑھاسکیں گے اور وہاں کی کسی سیاسی پارٹی کو الیکشن جیتنے کیلئے پاکستان مخالف بیانات اور اقلیتی مسلمانوں کونشانہ بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔افواج پاکستان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمارے تمام ملکی اداروں کوقائداعظم کے وژن اور آئین ِ پاکستان کے تحت محب وطن اقلیتوں کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ ائےدیں00923004647998)

تازہ ترین