• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎(گزشتہ سے پیوستہ)‎

واقعی ہمیں دوسرے ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھانے چاہئیں مگر ہمارے پاس دوسروں کو بیچنے کیلئےہے کیا؟ محض کھیلوں کے سامان اور کاٹن کے کپڑوں سے ہم کتنا زرمبادلہ کماسکتے ہیں؟ ہماری پلاننگ کا یہ حال ہے کہ چند ماہ قبل ہماری کیئرٹیکر حکومت نے مہنگے داموں اتنی گندم منگوالی کہ آج ہمارا اپنا کسان رل رہا ہے، حکومت نے گندم کے حوالے سے اسے بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ بدقسمتی سے خود ایران پر مزیدعالمی پابندیاںلگنے جارہی ہیں امریکیوں نے ہمیں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا، واشنگٹن گزشتہ بیس برس سے پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے پاکستان کی برآمدات بھی سب سے زیادہ امریکا اور یورپ میںجاتی ہیں ہم تو تجارت ہی نہیں ایف 16سے لیکر اپنےزیا دہ تر اسلحے کے حوالے سے بھی امریکا سے رجوع کرتے ہیں اور انہی دنوں امریکا نے ہمیں بیلسٹک میزائل پروگرام میں تعاون فراہم کرنے والی چار کمپنیوں پر پابندی عائد کردی ہے ان میں سے تین چینی اور ایک بیلاروس کی کمپنی ہے۔ بہر کیف اگر ہم ایران اور افغانستان کی طرف سے بد اعتمادی اور سمگلنگ ایسی باہمی آویزش سے باہر نکل آئیں تو بڑی بات ہوگی ۔‎ایرانی صدر نے بہت اچھا کیا کہ کشمیر کے بارے میں کوئی بات نہ کی اور خواہ مخواہ بھارت کی نظروں میں خود کو مشکوک بنانے سے احتراز کیا ۔ ایران سے بلاشبہ ہم اچھی ہمسائیگی کے برادرانہ تعلقات کے خواستگار ہیں لیکن اتنے ہی ہم سعودی عرب کی دوستی کے بھی خواہاں ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کنگڈم آف سعودی عریبیہ سے ہماری معاشی مجبوریاں اور قریبی تعلقات کی خواہش ایران سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی اس خواہش کے باوجود کہ وہ پاکستانی عوام سے براہِ راست مخاطب ہوں یا ہماری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں ، معذرت کی اور ایسا موقع پیدا نہیں ہونے دیا بلکہ ہمارے دفترِ خارجہ اور فارن منسٹر نے صاف کہا ہے کہ ایرانی صدر کا یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا، اس کا موجودہ تلخ حالات سے کچھ لینا دینا نہیں۔

ایران نے حالیہ دنوں گلف سے اسرائیلی تجارتی جہاز کو جس طرح اغوا کیا اس میں کچھ پاکستانی انڈین اور دیگر ممالک کے شہری بھی سوار تھے پاکستان نے اس ایرانی اقدام کی حمایت میں کوئی ایک لفظ نہیں کہا بلکہ یہ کہا ہے کہ ہمارے یرغمالیوں کو فوری رہا کیاجائے۔‎7اکتوبر کو یومِ کپور کے موقع پر حماس نے اسرائیل کے اندر گھس کر جس طرح 1400 کے قریب اسرائیلیوں کو قتل کیا اور دو سو کے قریب اسرائیلی اور دیگر اقوام کے شہریوں کو اغوا کیا تھا اس اقدام کے ردِ عمل میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی لقمۂ اجل بنے ہیں تو یہ سب کچھ کس قدر دردناک اور افسوسناک ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا حماس کی اس حرکت سے اسرائیل ٹوٹ گیا ہے؟ دنیا بھر کے یہودی غریب بیماراور کمزور ہوگئے ہیں یا مغرب کی ان کیلئے حمایت ختم ہوگئی ہے؟ کیا فلسطینی ریاست کی ہموار ہوگئی ہے؟ کیا ردِ عمل میں اصل بربادی عام بے گناہ فلسطینی بھائیوں کی نہیں ہوئی ہے؟ الگ فلسطینی ریاست کیلئے مغرب بالخصوص امریکا میں جیسی تیسی جو حمایت پائی جاتی تھی آج وہ بھی بڑی حد تک ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ اس نے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی ایسی ہر قرارداد دھڑلے سے ویٹو کردی ہے بلکہ اسرائیل کی حفاظت یا اس کے وجود کی سلامتی کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے امریکی کانگرس نے 29ارب ڈالر کی خطیر رقم بخوشی منظور کی ہے۔

اہلِ مغرب کا یہ احساس مزید مضبوط ہوا ہے کہ اسرائیل بدترین دشمنوں میں گھری ہوئی یہود کی دنیا میں واحد قومی ریاست ہے جس کے تحفظ اور بقا کی ذمہ داری پوری کرنے میں ہمیں کوئی کوتاہی نہیں دکھانی۔‎خوداسرائیل کے اندر فلسطینیوں کیلئے جو اچھی خاصی مضبوط معتدل آواز تھی 7اکتوبر کے نتیجے میں یہود کی وہ معتدل آواز اتنی نحیف ہوگئی ہے کہ اسرائیل کے اندر آئندہ کوئی اس پر اعتبار نہیں کرے گا ۔کوئی مانے نہ مانے اسرائیل بہرحال ایک جدید جمہوری مملکت ہے یہود کی جمہوریت ایران یا پاکستان سے زیادہ شفاف اور مضبوط ہے کئی حکومتی بے اعتدالیوں کے باوجود اسرائیل نے اپنے شہریوں کے حوالے سے کبھی بنیاد پرست جنونیوں والا ہمارے جیسا لیبل بھی خود پر نہیں لگایا نہ اپنی قومی و جمہوری ریاست میں کبھی شریعت موسوی کو لاگو کرنے اور تورات و زبور کے احکامات نافذ کرنے کی کوشش کی ہے ،جیسی جنونی حرکتوں کے ہم رسیا ہیں بلکہ دیگر سب اختلافی سوچوں یا مذہبی فرقوں کا ہم لوگوں نے اپنے ممالک میں جینا حرام کیا ہوا ہے، ہمارے عام لوگوں کو تو شاید یہ تک معلوم نہیں ہے کہ اسرائیل کے اندر ان کی آبادی کا پانچواں حصہ کوئی بیس لاکھ سے زائد فلسطینی عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے جو اسرائیلی ریاست کے اسی طرح شہری ہیں جس طرح دیگر یہود۔ یروشلم، حیفہ، تل ابیب سمیت کونسا اسرائیلی شہر یا قصبہ ہے جہاں ان مسلمان عربوں کی مساجد نہیں ہیں یا جہاں انہیں اپنی عبادات نماز، روزوں اجتماعات یا وعظ کی آزادیاں نہیں ہیں صرف اس شرط کے ساتھ کہ وہ ریاست کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکائیں۔ ہمارے جیسے بنیاد پرست ممالک کو ریاست اسرائیل سے بھڑنے کی بجائے اس سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم دوسروں کو انسانی حقوق کے طعنے دینے سے پہلے حال ہی میں ہیومن رائٹس کے حوالے سے جو امریکی رپورٹ سامنے آئی ہے اس کی اسٹڈی کرلیں اگر امریکی رپورٹ پر شک ہے تو خود اپنی حقیقی صورتحال کا غیر جانبدارانہ تحقیقی جائزہ لے لیں۔

تازہ ترین