سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنی تجاویز جمع کرا دیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ ازخود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ ابھی نہیں ملا، حکومت کا جواب داخل کرنے کے لیے حکم نامہ وزیرِ اعظم کو دکھانا ضروری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عملے سے سوال کیا کہ کیا حکم نامے پر دستخط ہو گئے، اگر نہیں تو کیوں نہیں ہوئے؟ کھلی عدالت میں حکم نامہ لکھوایا تھا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آج حکم نامہ مل جائے تو حکومت کل تک اپنا جواب داخل کر دے گی۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ میں مختلف بارز کے وکلاء بھی پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سپریم کورٹ میں تجاویز جمع کرا دیں۔
سپریم کورٹ بار نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی، عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں، ججز کی ذمے داریوں اور تحفظ سے متعلق مکمل کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس توہینِ عدالت کا اختیار موجود ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کو کسی قسم کی مداخلت پر توہینِ عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے تھی، ہائی کورٹ کی جانب سے توہینِ عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط میں گزشتہ سال کے واقعات کا ذکر کیا، ججز کا خط میڈیا کو لیک کرنا بھی سوالات کو جنم دیتا ہے، کسی بھی جج کو کوئی شکایت ہو تو اپنے چیف جسٹس کو آگاہ کرے، اگر متعلقہ چیف جسٹس کارروائی نہ کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اسلام آباد بار اور کراچی بار ایسوسی ایشن کتنا وقت لیں گی، کوئی اور تنظیم ہے جو یہاں موجود ہے، جو انفرادی طور پر آئے ہیں وہ بھی اپنا بتا دیں، اٹارنی جنرل! آپ یہ آرڈر پڑھ لیں، ان کو اصل آرڈر دے دیں۔
عدالت کی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں حکم نامہ پڑھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرڈر پر 3 دستخط ابھی بھی نہیں ہوئے۔
کمرۂ عدالت میں ججز کو آرڈر کاپی دستخط کرنے کے لیے دے دی گئی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سول کیا کہ آپ کو وقت چاہیے ہو گا؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے استدعا کی کہ مجھے کل تک وقت دے دیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آج کون دلائل دینا چاہے گا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ ہم 45 منٹ لیں گے، اس دوران اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔
اعتزاز احسن کی جانب سے خواجہ احمد حسین پیش ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم پہلے وکلاء تنظیموں کو سنیں گے، یہ کیس تو بہت ہی لمبا چل رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے آرڈر کا وہ حصہ پڑھا جس کے تحت وفاقی حکومت نے جواب دینا تھا۔
انہوں نے عدلیہ میں انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت پر وفاقی حکومت کے جواب دینے کا آرڈر کا حصہ پڑھا۔
لاہور، بلوچستان ہائی کورٹ بار اور بلوچستان بار کونسل کے وکیل حامد خان بھی عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے دلائل کے لیے 1 گھنٹے کا وقت مانگ لیا۔
سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے بھی دلائل کے لیے آدھا گھنٹہ مانگ لیا۔
ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بار شہباز کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ذاتی حیثیت میں الگ درخواست دائر کی ہے، ایگزیکٹیو کمیٹی کی کل رات میٹنگ ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کہا کہ پتہ نہیں کیوں اپنی تشہیر چاہتے ہیں؟
ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بار شہباز کھوسہ نے کہا کہ میں کوئی تشہیر نہیں چاہتا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تعجب ہو رہا ہے کہ اتنے وکیل ہیں لیکن ایک پیج پر نہیں آسکتے، تعجب ہے کہ وکیل عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی ایک پیج پر نہیں آ سکتے، پاکستان بار کونسل سے شروع کرتے ہیں، ہر شخص کہہ رہاہے کہ اپنی بات کرنی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں نے یہ تجویز نہیں کیا کہ انفرادی طور پر یہ کریں، میں یہ تجویز کر رہا تھا کہ ایک باڈی کی میٹنگ کر لیتے، جمہوری ادارے پارلیمنٹ میں اپوزیشن اہم حصہ ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک معزز جج نے اضافی نوٹ لکھا وہ بھی پڑھ لیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اضافی نوٹ لکھا تھا، انہوں نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں، میری لکھائی اچھی نہیں ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جی واقعی لکھائی اچھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سابق صدر عابد زبیری سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم کسی پرائیوٹ شخص کو فریق نہیں بنائیں گے، وکلاء بتائیں دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا، میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار بڑی تنظیمیں ہیں، جب ہدف ایک ہے تو کہیں ایک ہیں، بسم اللّٰہ کریں ہم سنتے ہیں۔
پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے دلائل شروع کرتے ہوئے ججز کے خط کو پڑھا اور کہا کہ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی مانگی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کو سنا جائے، میں نے ترجیح آرگنائزیشنز کو دی ہے، پاکستان بار کونسل کو پہلے موقع دیا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو پھر سنیں گے، ہدف ایک ہے، کوئی تنازع نہیں، آزاد عدلیہ سب کا مقصد ہے۔
پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے کہا کہ ججز نے بہت سنگین الزامات لگائے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نوٹ میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ مطمئن کرے، مداخلت نہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ یہ بات اصل آرڈر کے پیراگراف 5 میں بھی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اس پیراگراف میں صرف تجاویز مانگنے کی بات تھی۔
پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے کہا کہ پاکستان بار کونسل سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنائے، ججز کے خط میں سنگیں الزمات عائد کیے گئے ہیں، تمام سنگیں الزامات کی تحقیقات ہونا چاہئیے، الزامات کی تحقیقات کے لیے حاضر سروس جج یا ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ تحقیقات خود نہیں کر سکتی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ 6 ججز نے خط میں لکھا ہے کہ مداخلت کا عمل جاری ہے، سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہو رہی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مداخلت تو ہو رہی ہے لیکن حکومت کچھ نہیں کر رہی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ساری ہائی کورٹس نے اپنی رپورٹس میں سیاسی مقدمات پر سنگین باتوں کو اجاگر کیا ہے، اس وقت پاکستان بار کونسل کی رپورٹ آ چکی تھی، ایک ہائی کورٹ نے تو یہ کہا کہ یہ آئین کو سبوتاژ کیا گیا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے کہا کہ توہینِ عدالت کے تحت توہین، مداخلت اور جج کواسکینڈلائز کرنے پر کارروائی ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک الگ ادارہ ہے، میں سپریم جوڈیشل کونسل کا چیئرمین ہوں لیکن میں بطور خود سپریم جوڈیشل کونسل نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل میں دیگر ممبران بھی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایک ہائی کورٹ نے تو یہ کہا کہ یہ آئین کو سبوتاژ کرنے جیسا ہے، یہ 6 ججوں کا خط نہیں، یہ ایک عمل ہے جو نہ دھرنا فیصلے سے ختم ہوا، نہ کسی اور اقدام سے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2018ء میں بھی ایسا ہوا، یہ محض 6 ججوں کا خط نہیں انہوں نے نشاندہی کی ہے، یہ ایک رجحان کی عکاسی کرتا ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ چیزیں ہوتی ہیں، یہ رجحان دھرنا فیصلے اور دیگر فیصلے سے ختم نہیں ہوا، ہم نے 76 سال جھوٹ بولا ہے، سچ چھپایا ہے، کیا ڈیٹرنس بنایا جائے کہ یہ رکے؟ آپ ہائی کورٹ کے ججوں سے یہ توقع کر رہے ہیں ہم سب ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہو یا نہ ہو؟ مجھے بار بار کہنا پڑ رہا ہے کہ آگے بڑھتے ہیں کیونکہ دیگر افراد بھی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ امید کرتے ہیں کہ ایک جج وہ کام کرے جو سپریم کورٹ نہیں کر سکتی، حقیقت بہت مختلف ہے، ہم سب جانتے ہیں حقیقت کیا ہے، ہائی کورٹ کے ججز ہیں، غلط نہیں کہہ سکتے، پاکستان بار نے ہائی کورٹ کے ججوں کی تجاویز دیکھ کر اپنی سفارشات مرتب نہیں کیں، 2018/19 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کا مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا، ہائی کورٹ کے 2017ء اور 2018ء کے آزاد ججوں کا چیلنج سپریم کورٹ کی ملی بھگت سے ہو رہا تھا، سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہوتی ہے، اس کا علاج بتا دیں جو ہائی کورٹ کے ججوں نے کہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم وکیل کے وقت سے ججوں کا کیا گیا وقت منہا کریں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمیں وہ عمل بتایا جائے کہ ہم مداخلت روکنے میں کسی کے محتاج نہ ہوں۔
احسن بھون نے کہا کہ ایسا تو پھر 77 سال سے ہو رہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لیکن اب بس بہت ہو گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ توہینِ عدالت اور مداخلت سے زیادہ برا عمل قتل ہوتا ہے، قتل کرنا کب سے منع ہے، کیا وہ رک گیا ہے؟ معاشرے ہوتے ہیں، لوگ ہوتے ہیں، یہ چیزیں چلتی رہتی ہیں، آج حکم دیں کہ قتل ہونا بند کر دیا جائے، یہ رکے گا تو نہیں چلتا رہے گا، بات یہ کہ ہم اسے کیسے ڈیل کرتے ہیں، سزا و جزا کا عمل ہے جو چلتا رہے گا، ایک ڈیٹرنس تو یہ ہو سکتا ہے کہ سزائے موت دیکھ کر دوسرے کہیں قتل نہیں کرنا چاہیے، دوسرا یہ کہ کچھ نہ ہو، سزا نہ ہو تو وہ کہیں گے کہ ہم بھی کر لیتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ عدلیہ میں مداخلت ہو رہی ہے، حکومت اس مداخلت کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی، سوال یہ ہے کہ اس مداخلت کو ختم کیسے کیا جائے؟ مداخلت کا معاملہ اب 6 ججز کے خط سے آگے بڑھ چکا ہے۔
پاکستان بار کے وکیل نے کہا کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی، عدلیہ کو خود ایکشن لینا ہو گا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عوام کو سچ جاننے کا پورا حق ہے، عوام کو سب جواب دہ ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وائس چیئرمین صاحب! ہم آپ سے بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، آپ کو سننا چاہتے ہیں، سب لوگوں نے لمبا وقت لیا، کب تک مکمل کریں گے؟
پاکستان بار کے وکیل نے کہا کہ ججوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے کہ ان کے پاس جو قانون موجود ہے اسے استعمال کریں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ 3 چیزیں کہہ رہے ہیں، ایک تو تحقیق ہو، دوسرا فوجداری قوانین کو جج استعمال کریں، تیسرا یہ کہ توہینِ عدالت کی کارروائی ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پاکستان بار کو یہ بھی تجویز دینا چاہیے تھی کہ وکلاء کی جانب سے مداخلت کو کیسے روکیں؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ ملک کے وکلاء کی نمائندگی کر رہے ہیں، ججز کو تنقید سے ڈرنا نہیں چاہیے چاہے جتنا ہی سخت کیوں نہ ہو، چیف جسٹس کافی مشکل وقت سے بھی گزرے، 2018ء سے آج تک میری دیانتداری پر سوال اٹھا، لیکن کچھ فرق پڑا؟ ججز کو تنقید سے فرق نہیں پڑنا چاہیے، عوام کا ججز پر اعتماد ہونا چاہیے، ملک میں جوڈیشل تاریخ میں سب سے بڑی توہینِ عدالت کیا تھی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم سب کو ماننا چاہیے، انڈر ٹیکنگ دیں کہ وکلاء کی مداخلت بھی روکی جائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں پر ایک کمشنر تھے، انہوں نے جھوٹ بولا، اس کمشنر کے جھوٹ کو سب میڈیا نے چلایا، کسی نے کمشنر کے جھوٹ سے متعلق نہیں پوچھا، جزا و سزا کو چھوڑیں، سچ بولنا شروع کریں، یہ لائیو سماعت ہو رہی ہے، کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا کو کیپچر کر رکھا ہے، اس لیے لائیو سماعت کر رہے ہیں کہ سب دیکھ لیں۔
احسن بھون نے کہا کہ لاہور اور پشاور ہائی کورٹ سے جو ردِ عمل آیا ہم نے وہ عدلیہ پر چھوڑا ہے، کوئی دوسری رائے نہیں کہ ڈیٹرنس ہونا چاہیے، انتہائی خطرناک بات ہے کہ جج کے بیڈروم سے کیمرا نکلے، کسی شخص کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ یہ کیسے روکا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے واقعات کی تفتیش ہو یا نہ ہو؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں نے جو بذاتِ خود ٹھیک سمجھا وہی کہا ہے، میری رائے ہے کہ دنیا بھر میں سماعتوں میں مداخلت ہوتی ہے، 3 نومبر کو سپریم کورٹ کے 8 ممبر بینچ نے عدلیہ بحال کی، کیسے ہائی کورٹ یا ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز توہینِ عدالت کی کارروائی کر سکتے ہیں؟ ابھی تک معاملہ زیرِ التواء ہے، آپ توہینِ عدالت کی درخواست لائیں، اب تو سب ریٹائرڈ ہو چکے، یہی تو المیہ ہے۔
احسن بھون نے کہا کہ اسی لیے کہا ہے کہ تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔
ریاضت علی خان نے کہا کہ عدلیہ کو آزاد کرنے کے لیے ایگزیکٹیو کی ایک فورس عدلیہ کے ماتحت ہونا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا ایگزیکٹیو اب عدلیہ کے ماتحت نہیں ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہم خوفزدہ کیوں ہیں؟ سچ کیوں نہیں بولتے؟ ہمیں عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا، میں بالکل واضح کہنا چاہتا ہوں، اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے، کوئی ایسا کہے تو اسے یہاں بیٹھنے کے بجائے گھر چلے جانا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں نہیں کہہ رہا، یہ بات اٹارنی جنرل صاحب نے بھی کہی ہے، میں صرف توہینِ عدالت پر فوکس کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آگے بڑھیں، کیونکہ ایسے باتیں ختم نہیں ہوں گی، بیوروکریٹ کے پاس تو کوئی توہینِ عدالت کا اختیار نہیں، عدالت کے پاس تو توہینِ عدالت کا اختیار ہوتا ہے، تنقید اور جھوٹ میں بہت فرق ہوتا ہے، ایک کمشنر نے جھوٹ بولا، میڈیا نے جھوٹ چلایا، دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ان سے پوچھا کہ آپ توقع کرتے ہیں کہ ماتحت عدلیہ کا جج وہ کام کرے جو سپریم کورٹ کے جج نہیں کر سکتے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کام کرنا ہمارا فرض ہے، ہمارے کندھوں کی بات نہ کریں، یہ ہمارا فرض ہے، آپ نے حلف نہیں لیا میں نے حلف لیا ہے، بہت سارے پریشر ہو سکتے ہیں لیکن یہ میرا فرض ہے، ہم اپنے ہیروز کو کیوں نہیں سراہ رہے ہیں؟ جابر آئے، ہمارے ہیروز کو کہا کہ پی سی او کے تحت حلف لیں، ان ہیروز نے کہا کہ اچھا خدا حافظ، انہوں نے پریشر نہیں لیا، میں اس لیے کہتا ہوں کہ جو غلطی ہو اس کی نشاندہی کرو، باہر ملکوں میں ہتکِ عزت پر جیبیں خالی ہو جاتی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ 6 ججز نے ایک ایشو اٹھایا، جس کی ساری ہائی کورٹس نے توثیق کی، ساری ہائی کورٹس نے کہا کہ ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے، اگر کوئی نشاندہی کرے گا تو اس کے ساتھ ایسا ہو گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسی ڈیٹرنس ہونی چاہیے کہ جو ایسا کرے اس کو بھگتنا پڑے، میرے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر کہا گیا کہ جج کمپرومائز ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت سے کیا عدلیہ کا اعتماد مجروح ہوتا ہے، ایسا نہ کہیں کہ سب برابر ہے، ہر معاشرے میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں، کہیں کہ کچھ اچھے نکلے اور کچھ برے نکلے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ صدر صاحب! ہم کس کو جوابدہ ہیں، ہم نے 76 سال جھوٹ بولا ہے؟
صدر سپریم کورٹ بار نے جواب دیا کہ ہم اللّٰہ کو جوابدہ ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پچھلے 50 سال میں کیا ہوا، میں آپ سے ہمدردی کر سکتا ہوں، بدل نہیں سکتا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ بتائیں کہ ایسی صورتِ حال میں کیا کیا جائے جس پر ہائی کورٹس بھی روشنی ڈال رہی ہیں؟
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ اگر یہ پیغام جائے گا کہ آپ ججز ملے ہوئے ہیں تو کیا پیغام جائے گا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ دلائل دیں ورنہ ہم آپس میں لگے رہیں گے، لائٹر نوٹ پر بتاؤں مجھے کسی نے کہا تھا کہ جج کو سنیں اور وکیل کو بولنے دیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کیسے یقین دہانی کی جائے کہ مداخلت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا؟
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ سچ کہیں اور اسے نظر آنا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سوری مجھے یہاں مداخلت کرنا پڑے گی۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ آپ یہ کہہ کر قبول کر رہے ہیں کہ آپ ملے ہوئے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو پھر آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ آپ کو یہاں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں، سوری میں بہت بلنٹ بات کر رہا ہوں کہ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپ کو نہیں بیٹھنا چاہیے، ہائی کورٹ کے ججوں کا خط باہمی خفیہ ادارہ جاتی خط و کتابت تھی جو میڈیا میں آئی۔
’’6 ججوں نے مداخلت کرنیوالوں پر توہینِ عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی؟‘‘
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ ججز کا خط لیک ہونے کی انکوائری ہونی چاہیے، خط کوئی شکایت نہیں ہے اور یہ عوام کے لیے خط و کتابت نہیں تھی، جسٹس بابر ستار نے یہ کہا ہے جو کہ خط پر دستخط کنندہ ہیں، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، عدلیہ بغیر کسی دباؤ کے اپنے فیصلے کرے، عدالتی معاملات میں مداخلت کرنے والوں کو سزا دی جانی چاہیے، سپریم کورٹ بار ازخود نوٹس کی کارروائی کو خوش آمدید کہتی ہے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد مجروح ہوا ہے، ہائی کورٹ مداخلت روکنے کا خود طریقہ کار بنا سکتی ہے، جج کا حلف ہے کہ وہ بلا خوف و رعایت انصاف کرے گا، آرٹیکل 202 اور 203 میں طریقہ کار وضع کرنے کا اختیار موجود ہے، سپریم کورٹ بار اعلیٰ آئینی اصولوں کی حمایت کرتی ہے، 6 ججوں کا خط ایک آنکھ کھولنے کے لیے ہے، 6 ججوں کے خط میں واقعات کی تحقیقات ہونی چاہئیں، 6 ججوں نے سیاسی مقدمات میں مداخلت کرنے والوں پر توہینِ عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی؟ ریاست کے دیگر اداروں کو عدلیہ میں مداخلت سے روکنے کے لیے ٹھوس پیغام جانا چاہیے، ماتحت عدلیہ ہائی کورٹ کے زیرِ نگرانی ہے، ان کے تحفظ کا طریقہ کار بنایا جائے، ججوں کے پاس توہینِ عدالت کا آئینی اختیار موجود ہے، اسلام آباد کی ماتحت عدلیہ اور 6 ججوں کا خط واضح ہے کہ جج فری ایجنٹ نہیں ہے، پبلک سماعت اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے، جج اپنے سوشل دائرہ کار کو محدود کریں، ساتھی جج یا کولیگ سے دباؤ ہو تو اس کی شکایت چیف جسٹس کو کی جائے، چیف جسٹس شکایت دور نہ کر سکیں تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل میں جائیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ سوشل میڈیا کے چیلنج کی بات کی، اس پر کیا عدلیہ توہینِ عدالت کی کارروائی کرے؟
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ کسی بھی جج کی ٹرولنگ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ اس ملک کے وکلاء کی نمائندگی کر رہے ہیں، ہمیں کسی بھی قسم کی تنقید سے بطور جج نہیں گھبرانا چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ تنقید اور توہین میں فرق ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ تنقید سے کسی جج کی انٹیگریٹی متاثر نہیں ہوتی، اس ملک کی تاریخ میں سب سے سنگین عدالتی توہین کب ہوئی؟ 3 نومبر 2007ء کو 7 ججوں نے حکم جاری کیا، عدلیہ عوامی طاقت سے بحال ہوئی، یہ عدالت اس معاملے میں توہینِ عدالت تک جاری نہ کر سکی، 7 رکنی بینچ کے حکم کی ناصرف خلاف ورزی ہوئی بلکہ ججوں کو قید کر دیا گیا، یہ صورتِ حال ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر طریقے سے پریشر آ سکتا ہے، ایسا بھی پریشر آ سکتا ہے کہ ہم ایک ہی چیز پر فوکس کر رہے ہیں، یہ بھی ایک بڑا پریشر بن گیا ہے کہ ہم بے لگام ہیں، ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ جو بات آپ نے کی اس کا مجھے جواب دینے دیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ساری دنیامیں چلنگ ایفیکٹ ہوتا ہے، دنیا میں کہیں بھی اظہارِ رائے سے متعلق کوئی کرمنل کارروائی نہیں ہوتی، 3 نومبر کا 7 رکنی بینچ عوامی حمایت سے بحال ہوا، وہ توہینِ عدالت کی کارروائی نہ کر سکا، آپ ماتحت عدلیہ سے یہ توقع کرتے ہیں، وہ معاملہ ابھی تک سپریم کورٹ میں پڑا ہے، آپ کوئی درخواست لائے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آمر کی سزا کے خلاف ساری حکومت دفاع میں پریس کانفرنس کے لیے آ گئی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزادیٔ اظہار اچھی بات ہے، لوگ سنتے اور انہیں اہمیت دیتے ہیں، عوام کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے، سارے مضبوط نہیں ہوتے، میرے جیسے بھی ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سادہ سی بات ہے آپ کو اپنا لوہا منوانا پڑتا ہے، یہ بتا دیں باربار ہم اپنی باتیں کر رہے ہیں، بیوروکریٹ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا، تنقید اور جھوٹ میں بہت فرق ہوتا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ فیئر کمنٹس اور غلط رپورٹنگ میں فرق ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیئر کمنٹس ضرور کریں۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ آرٹیکل 19 قانون کے تحت آزادیٔ اظہار کیا بات کرتا ہے؟ معاشرے میں قانون پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر قبضہ کیا ہوا ہے، لائیو عدالتی کارروائی ہمارا ردِ عمل ہے کہ خود دیکھ لو عدالتی کارروائی کیسے چلتی ہے۔
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے استدعا کی کہ 6 ججوں کے خط کی تحقیقات کی جائیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل سے سوال کیا کہ انکوائری کیسے اور کس کے ذریعے کی جائے؟
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے کہا کہ اسلام آباد بار کی درخواست ہے کہ عدالت تمام مداخلتوں پر توجہ دے، عدلیہ کی اپنے اندر سے بھی مداخلت ہوتی ہے، سوشل میڈیا سے بھی عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل 6 ججز کے خط پر خاموش ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جوڈیشل کونسل ایک الگ آئینی ادارہ ہے، اس میں یہ بھی کہ کیا ججز کو انٹیلی جنس آپریٹو کی رسائی میں ہونا چاہیے، یہ جوڈیشل کونسل سے ججز کنڈکٹ کی وضاحت کا معاملہ ہے۔
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے کہا کہ انکوائری سپریم کورٹ کے رولز کے تحت ہو یا کمیشن آف انکوائری کے تحت ہو، کریں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے اہم بات ایسے ہی کر دی، سپریم کورٹ رولز والا کمیشن وہ کمیشن نہیں ہے، آپ نے اتنی اہم بات کی ہے، اس پر اپنی دلیل کی وضاحت کریں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ حسن آپ بتا دیں کہ اس عدالت کے لارجر بینچوں نے کمیشن بنائے ہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر اعتزاز احسن نے بہت اچھی بات کی، انہوں نے کہا کہ ہمیں آزاد عدلیہ چاہیے، آئین سے آزاد عدلیہ نہیں چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے ججوں کی طرف سے متفقہ طور پر بات آئی ہے، جج متفقہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ مداخلت کا رجحان موجود ہے، آپ ہائی کورٹ کے ججوں کی بات پر شبہ کر رہے ہیں، کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ ذمے داری وفاقی حکومت پر آ کر رکتی ہے، کوئی وفاقی حکومت سے نہیں پوچھ رہا کہ کسی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی ہے؟ اگر آئین کے تحت مہذب معاشرہ ہوتا تو اب تک نجانے کیا کچھ ہو چکا ہوتا، کوئی بھی وفاقی حکومت سے کچھ نہیں پوچھ رہا، یہ اس کی ذمے داری تھی۔
وکیل احمد حسن شاہ نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا تو اب انکوائری تو ہونا ہے۔
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ کوئی الزام لگائے دوسرا انکار کر دے تو انکوائری ہو گی، تو پھر اگلا سوال اور مرحلہ کیا ہے؟ انکوائری ہی ہے، انکوائری عدالت خود کرے یا کسی سے کرائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئی شکایت کرے باپ سے کہ بیٹے نے شیشہ توڑا ہے، باپ کہے نہیں توڑا، میں مبرا ہوں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پتہ نہیں باپ کون ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیا کہ ادارے کا سربراہ، چیف ایگزیکٹیو، وزیرِ اعظم کو بلانے کا مقصد کیا تھا، وہ کوئی شخص نہیں، وزیرِاعظم ہیں، وزیرِ اعظم کو بطور ادارے کے سربراہ پوچھنا چاہیے کہ کیوں خلاف ورزی ہو رہی ہے، جیسے فاضل جج اطہر من اللّٰہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا فیڈرل گورنمنٹ نے اپنے بچوں سے پوچھا؟
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے کہا کہ آج کی تاریخ میں وفاقی حکومت کی پوزیشن یہی ہے کہ ہمارا لیناد ینا نہیں، ہم نے کچھ نہیں کیا، سپریم کورٹ ہی کے وضع کردہ قانون کے تحت پھر اگلا مرحلہ کیا ہے؟ اگلا مرحلہ تو یہی ہے کہ اس معاملے کی تحقیق ہو۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسلام آباد بار کا کہنا ہے کہ معاملے کی تحقیقات ہوں، اب آپ مزید آگے بڑھیں۔
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے کہا کہ تحقیقات کے بغیر ذمے داری کا تعین نہیں ہو گا، سنتے آئے ہیں کہ ملزم قانون کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے، ہم یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ قانون طاقت ور کے لیے بھی تبدیل نہیں ہوتا، اگر جج دوسری طرف ہیں تو ان کے لیے قانون تبدیل نہیں ہونا چاہیے، ججوں کے لیے بھی طریقہ اور قانون عام آدمی والا ہو گا تبھی عدلیہ کا وقار بلند ہو گا، پھر عدلیہ پر میرا اعتماد بحال ہو گا، پھر میں بلند آواز کہہ سکوں گا کہ ہاں میں عدلیہ کی آزادی کے لیے کاوش کرتا رہا ہوں، عدالت ذہن میں رکھے کہ عدلیہ نےصرف قانون کو سامنے رکھنا ہے، عدالت یہ بھی ذہن میں رکھےکہ عدلیہ نے پاپولر ازم سے بھی بچنا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ہمیں اس بات سے اتفاق ہے۔
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے کہا کہ عدالت برہم ہو سکتی ہے، اسے تشویش ہو سکتی ہے لیکن پاپولر مائنڈ سیٹ کو فیڈ نہیں کر سکتی، ایسا ہونے پر صرف ٹی وی پر بیٹھا شخص یہ دیکھتے ہوئے آپ کی عزت نہیں کرے گا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اس معاملے کا پاپولرٹی سے کوئی تعلق نہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ حسن اس وقت 6 ججوں کو بھول جائیں، کیا لاہور ہائی کورٹ کے ججوں سے بھی تحقیق کریں کہ کیوں لکھا ہے، کیا پشاور ہائی کورٹ کے ججوں سے بھی پوچھ گچھ کریں؟ آپ کی یہ تجویز ہے؟
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے کہا کہ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کہ میں یہاں کسی جج یا اس کی آزادی کی بات نہ کروں میرے لیے یہ ممکن ہی نہیں، یہ میرے فہم ہی میں نہیں ہے، البتہ عدلیہ کے پاس اختیار ہے کہ وہ جب جج کو سمجھے کہ وہ جج نہیں رہے، اس سے پہلے ہر جج ہمارے لیے معزز ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی تمام عدالتوں کے ججوں سے آپ تفتیش کریں؟ ججوں سے آپ تفتیش کریں کہ انہوں نے جو کہا ہے وہ سچ کہا ہے؟
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے کہا کہ معزز جج صاحب! ججوں نے جس طرف نشاندہی کی اس طرف پوچھ گچھ ہو گی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ان واقعات کی تحقیق کی جائے جو خط میں لکھے گئے ہیں؟ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان واقعات کی تحقیق لازم ہے جن کا خط میں ذکر ہے؟ پھر آپ کہہ رہے ہیں کہ ایسی تحقیق کے لیے آپ کے پاس کوئی میکنزم نہیں، یہاں آپ کنفیوژ ہیں، دوسرا آپ کہہ رہے ہیں کہ ججوں کا کہنا سچ نہ مانا جائے، تیسرا آپ کہہ رہے ہیں کہ ججز کو بھی ڈیو پراسس آف لاء میں رکھیں؟
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے جواب دیا کہ میں خدانخواستہ ججز کو انڈر مائن نہیں کرنا چاہتا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل پر وہ بوجھ نہ ڈالیں جو اس کی ذمے داری نہیں، آئین کا آرٹیکل 209 پڑھ لیجیے، بار بار آپ ہمیں جوڈیشل کونسل کی طرف دھکیل رہے ہیں، آپ ہمیں جوڈیشل کونسل کی طرف دھکیل رہے ہیں تو کیا ہم ججز کے خلاف چلے جائیں؟ سپریم جوڈیشل کونسل البتہ کوڈ آف کنڈکٹ کو بدل سکتی ہے، آپ سپریم جوڈیشل کونسل کو اچھا سا خط لکھ دیجیے، آپ کا خط جوڈیشل کونسل کو اچھا لگے تو وہ اس کو قبول کر لیں گے یا نہیں۔
اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے وکیل احمد حسن شاہ نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام آباد بار کے وکلاء پر ججوں نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ استعمال کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ وہ بات نہ ہی کریں تو بہتر ہے، آخر وہاں کیا ہوا تھا؟