(گزشتہ سے پیوستہ)
18 اپریل کو شائع ہونے والے کالم ہذا کی پہلی قسط پر احباب کی طرف سے اعتراض وصول ہواکہ ”ایران کی طرف سے اسرائیل پر داغے جانیوالے تین سو ڈرونز اور میزائلوں سے بچاؤ میں امریکا اور کچھ یورپی ممالک نے اسرائیل کی معاونت نہیں کی۔“ یہ بات حقائق اور واقعات کے خلاف ہے۔ جواب عرض ہے کہ درویش کی اصل تحریر میں یہ بات اس طرح نہیں تھی محض سہوِکتربیونت سے یہ صورتحال پیدا ہوئی۔
اب ہم آتےہیں اپنے اصل موضوع پر ایران کا اسرائیل پر حملہ کیا امریکا و اسرائیل کو اعتماد میں لے کر فیس سیونگ کیلئے ایران کا پری پلانڈ عمل تھا؟ ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے سے نہ تو یہود کا کوئی جانی نقصان ہوا ہے اور نہ ہی انفراسٹرکچر کو کوئی گزند پہنچی ہے۔ اس لیے موجودہ عالمی حالات اور اپنی رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے اسرائیل کو اس کا بدلہ نہیں لینا چاہیے، ایرانی نیوکلیئر پلانٹس کے قریب اصفہان کے غیر آباد و ویران علاقے میں اسرائیل کی طرف سے جو رسمی سی جتنی کارروائی ڈالی گئی ہے وارننگ کے لیے اتنی کافی ہے، کیونکہ ایرانی حملے کو روکنے پر ہونے والے خرچ کے باوجود اسرائیل کو اس حملے کا یہ فائدہ بہرحال پہنچا ہے کہ غزہ میں وسیع تر انسانی ہلاکتوں کے باعث اسرائیل کا عالمی امیج جس بری طرح خراب ہوا تھا بے ضرر ایرانی حملوں نے اسرائیل کی ختم ہوتی ہمدردی کو ازسرِ نو اگر پوری طرح بحال نہیں کیا تو بھی اس کا گراف کسی حدتک بہتر کردیا ہے بالخصوص اسرائیل کے ہمدرد ویسٹرن ممالک میں یہ تاثر مزید واضح ہوا ہے کہ اسرائیل اپنے وجود کے بدترین دشمنوں کے بیچ میں رہ رہا ہے جسے ہمہ وقت تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل ایران کے خلاف بڑا محاذ کسی صورت بھی کھولنا نہیں چاہے گا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسرائیل اپنے اوپر ہونے والے ایرانی حملے کو معاف یا نظرانداز کرنے کا رویہ اپنائے گا ،ہمارے اندازے میں بالآخر ایران اور اسرائیل میں گھمسان کا رَن پڑے گا لیکن فوری نہیں وقت آنے پر، ممکن ہے امریکی انتخابات کا مرحلہ گزرنے کے بعد کیونکہ موجودہ حالات میں امریکی انتظامیہ بھی کسی بڑے امتحان میں پڑنے سے گریز کرے گی ۔ری پبلکن جیتیں یا ڈیموکریٹ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ درمیانی عرصے کو امریکا اور اسکے اتحادی دیگر حوالوں سے صورتحال کو اسرائیل کے حق میں ہموار کرنے کیلئے استعمال کریں گے ۔مغربی رائے عامہ کے ساتھ ساتھ سیاسی و عسکری حوالے سے بھی مرئی یا غیر مرئی کولیشن تشکیل پائے گی، یو این کے ذریعے ایران پر مزید پابندیاں لاگو کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ایران پہلے ہی عالمی پابندیوں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے ایرانی سماج میں معاشی بدحالی اور بھوک ننگ زوروں پر ہے، مذہبی شدت پسندی اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہے ایرانی عوام میں اپنی ولایت فقیہہ کے خلاف ایک شدید نوعیت کا اضطراب ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ موجودہ ایرانی سوسائٹی مذہبی جبر کے شکنجے میںبلک رہی ہے۔ ایرانی قیادت نے اسرائیل اور یہود کے خلاف پروپیگنڈے کے زور سے جو منافرت پھیلارکھی ہے اس کے باعث اسلامی انقلاب کے حمایتی بلاشبہ ایسے حملے پر جشن مناتے بھی دکھائی دیے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایران نے جو حملہ اپنے سات بندوں کے مرنے پر کیا، ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کی اموات پر کیوں نہیں کیا؟ جس کی شروعات ایران نے اپنی پراکسی حماس کے ذریعے 7اکتوبر کو کروائی تھی؟ اسرائیل کیلئے اس وقت اصل ایشو ایران سے بڑھ کر وہ ایرانی پراکسیاں ہیں جو اردگرد اس کو گھیرےہوئے ہیں۔ اسرائیل کیلئے وہ زیادہ پیچیدہ ایشو ہیں۔حماس کو کچلنے کیلئے وہاں اسرائیل کے پاس کوئی واضح لائحہء عمل یا ٹارگٹ نہیں اور دہشت گرد جب عوام اور گنجان آبادیوں میں اس طرح گھسے بیٹھے ہوں کہ عام آدمی اور دہشت گرد میں تمیز کرنا ممکن نہ ہو تو یہ زیادہ خطرناک صورتحال ہوتی ہے ۔ کھلے دشمن سے چھپا دشمن زیادہ مہیب ہوتا ہے جو سایوں کی طرح چلتا ہے اور گھات لگا کر یا چھپ کر وار کرتا ہے۔ اس لیے یہ امر تو واضح ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملہ غزہ حملوں جیسا ہرگز نہیں ہوگا یہ حملہ پوری تیاری اور پلاننگ کے ساتھ بھرپور آخری معرکے جیسا ہوگا۔ یوں غیر آباد علاقوں میں رسمی راکٹس یا میزائل نہیں پھینکے جائیں گے یہ حملہ واضح ٹارگٹس پر ہوگا جس میں اولین ہدف ایران کی جیسی تیسی نیوکلیئر صلاحیت کو دبوچنا یا کلی طور پر ختم کرنا ٹھہرے گا۔ جس طرح پاسدارانِ انقلاب یا ولایت فقیہہ کے ہمنوا اس امر کےخواہاں ہیں کہ جیسے تیسے اسرائیلی ریاست کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے اسی طرح اسرائیلی بھی چاہیں گے کہ ایران جس طرح اسلامی انقلاب سے پہلے شاہِ ایران کے دور میں تھا پھر اسی نوع کا لبرل و معتدل ہوجائے۔