کچھ مہینے پہلے ایک ٹی وی ٹاک شو میں مجھ سے سوال پوچھا گیا کہ طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئے یا نہیں۔ لائیو شو تھا، میرے ذہن میں ایک جملہ آیا اور میں نے کہہ دیا۔ وہ جملہ تھا کہ مذاکرات حکومت اور اس سسٹم کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوں گے۔ چند دن بعد اس ٹی وی چینل نے یہ جملہ اپنے اس ٹاک شو کے پرومو یعنی اشتہار میں ڈال دیا اور ہر ہفتے کئی مرتبہ وہ نشر ہونے لگا۔ جب بھی وہ نشر ہوتا کم از کم ایک یا زیادہ فون یا ای میل ضرور آجاتے کہ آپ کا کیا مطلب ہے کس کی زندگی اور موت کی بات کررہے ہیں کیونکہ پرومو میں حکومت اور سسٹم کے الفاظ استعمال نہیں ہورہے تھے بلکہ صرف یہ جملہ چلتا تھا کہ یہ ایک لائف اینڈ ڈیتھ کا مسئلہ ہے۔ خیر جتنا ممکن ہوسکتا تھا میں پوچھنے والوں کو بتانے کی کوشش کرتا تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیوں کہہ رہا ہوں۔ خلاصہ یہ ہوتا کہ مذاکرات کرنا کوئی معمولی بات نہیں اور ایک کمزورطرز پر قائم سیاسی پارٹی کیلئے یہ آسان نہیں ہوگا کہ جو قوتیں ملک اور اس کے عوام کے خلاف بے دریغ دہشت گردی اور ظلم اور بربریت کا ارتکاب کررہی ہوں ان کو میز پر برابری کی بنیاد پر نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ ان کے جائز اور ناجائز مطالبات بھی مانے جائیں۔ اگر سیاسی ضرورتوں کے دبائو کے تحت سیاسی حکومت ایسا کرنے کی کوشش بھی کرے گی تو ریاست کے دوسرے ادارے ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ساری باتیں میں کچھ مہینے پہلے کی بتارہا تھا۔ پھر جو ہوا وہ اب سامنے ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دن فوجی کور کمانڈروں نے واضح کردیا کہ فوج ایسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھ کر مذاکرات نہیں کرسکتی جن کے ہاتھوں پر بے گناہ فوجی اور عام شہریوں کے خون کے داغ ہوں۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ طالبان کے پاس سوائے اپنے آپ کو نیست و نابود ہونے سے بچانے کے علاوہ اور کوئی ایجنڈا ہے ہی نہیں کیونکہ نہ یہ لوگ کسی نظریے کی پیداوار ہیں اور نہ یہ کوئی سیاسی پارٹی ہیں ان کی جنگ صرف اپنے آپ کو زندہ رکھنے اور چھوٹے چھوٹے علاقوں پر قبضہ کرنے اور وہاں مال کمانے کے علاوہ اور کچھ نہیں رہی ہے۔ جب امریکہ ان لوگوں کے پیچھے آیا تو ان لوگوں نے پاکستان میں پناہ لی اور کیونکہ پاکستان والے پوری طرح تیار نہیں تھے یہ لوگ قبائلی علاقوں میں آکر جم گئے۔ پھر انہوں نے اپنا کمبل پھیلانا شروع کیا ہر طرح کے جرائم پیشہ لوگوں کو پناہ دینا اور سرپرستی کرنا، خود اغوا کرنا اور کروانا، اسلحہ اور ہیروئن کی تجارت کرنا اور لوگوں کو بے دریغ بے قصور ہلاک کرنا بڑھتا گیا۔ قبائلی علاقوں سے شہروں کا رخ کیا اور دوسری تنظیموں سے روابط بنائے تاکہ مل کر لوٹ مار کی جائے۔ تو یہ سب سوائے جرائم پیشہ افراد کے جتھوں کے اور کچھ نہیں۔ یہ ریاست اور حکومتوں کی کمزوری اور کوتاہی تھی کہ یہ لوگ پھیلتے گئے۔ چور سیاست دان جب حکومت میں ہوں تو ان کو کون پکڑتا۔ پھر یہ سب مل کر ریاست اور حکومت دونوں کیلئے خطرہ بنتے گئے اور آج وہ اتنے پھیل گئے ہیں کہ فوج اور حکومت کے ساتھ برابری کا دعویٰ کررہے ہیں۔ یہ حکومت اور سیاسی پارٹیوں کی کمزوری ہے کہ ان لوگوں کو اتنی اہمیت دینے سے پہلے یہ نہیں پوچھا گیا کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ عمران خان صاحب نے اس مسئلے کو انتہائی سادہ بنادیا اور اتنا دبائو بڑھایا کہ مذاکرات کئے جائیں مگر یہ نہیں پوچھا کہ مقصد کیا ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں کی اہمیت اور ان کی طاقت ہے ہی دہشت پھیلانے اور لوگوں کے قتل عام کی وجہ سے تو وہ اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور جاری رکھیں گے کیونکہ نہ وہ متحد ہیں نہ ہی کسی ایک تنظیم کے تحت ان کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے اس لئے 50 سے زیادہ گروہوں اور جتھوں کو کون ڈسپلن میں لائے گا۔ کیونکہ ان کے علاقوں میں نہ پولیس ہے نہ فوج اور نہ ہی کوئی عدالتی نظام تو ہر علاقے کا اپنا امیر ہے۔ چند کچھ پڑھے لکھے لوگوں کی بات میں آکر ان لوگوں نے ایک چھتری اپنے لئے گھڑلی ہے جسے وہ تحریک طالبان کہتے ہیں مگر حقیقت میں اس تنظیم کا کوئی نہ اثر ہے نہ کوئی امیر کسی دوسرے کی بات سنتا ہے اگر اپنے مال پانی پر آنچ آتی ہے تو فوراً بغاوت ہوجاتی ہے۔ شریعت کا لبادہ تو مجبوراً اوڑھنا پڑا کہ کوئی دوسرا نعرہ تھا ہی نہیں۔ حکومت نے ان کے ساتھ مذاکرات شروع کرکے اور انہیں اپنے برابر لاکھڑا کرکے پاکستان اور لوگوں کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے۔ اگر بات چیت کرنی بھی تھی تو خاموشی سے ان سے پوچھا جاتا کہ کیا چاہتے ہیں اور اگر کوئی معقول بات کرتا تو غور کیا جاتا۔ مگر اس TV کے سرکس کو جسے لکی ایرانی سرکس تو شاید نہ کہا جاسکے مگر اس سے کم بھی نہیں شروع کرکے اور غیر سنجیدہ طریقے سے بے اثر اور متروک شدہ علماء کو بیچ میں بٹھا کر ایک مذاق ہی بنادیا گیا اور اوپر سے یہ مطالبہ کہ فوج کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔
اب فوج نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اس سرکس کا حصہ بننے کو تیار نہیں اور جو بات کرنی ہے حکومت کرے مگر جو باتیں کسی بھی صورت میں منظور نہیں وہ صاف صاف بتادی گئی ہیں یعنی یہ بات احمقانہ ہے کہ فوج قبائلی علاقوں یا وزیرستان سے نکل جائے۔ نکل کر کہاں جائے، افغانستان؟ یا سارے دہشت گرد قیدی چھوڑ دیئے جائیں۔ کیوں؟ سب گھر چلے گئے اور پھر کسی امیر کو یاد آگیا کہ امریکہ نے فلاں دن جو ڈرون مارا تھا وہ ان کے بہنوئی کو لگا تھا اس لئے جنگ بندی ختم تو کیا ہوگا۔ یا پھر یہ مطالبہ کہ جتنے طالبان مرے ہیں ان کو معاوضہ دیا جائے۔ کس بات کا؟ کیا کسی نے کرائے کے ٹٹو ٹھیکے پر لئے تھے کہ ان کو کرایہ نہیں ملا۔ اور پھر جو ہزاروں عام لوگ مارے گئے ان کا حساب کس طرح ہوگا۔
اصلی مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کو پاکستانی علاقوں سے صاف کرنا آسان ہے مگر کیونکہ افغانستان کا بارڈر کھلا ہے اور وہاں ان کو پناہ دینے کیلئے کئی ادارے اور لوگ بیٹھے ہیں جیسے ہی کوئی آپریشن شروع ہوگا تمام امیر اور نائب امیر افغانستان پہنچ جائیں گے اور پھر وہاں سے خودکش بھیجتے رہیں گے تو جنگ اور دہشت گردی تو ختم نہیں ہوگی مگر کیونکہ حکومت کے پاس نہ ہمت ہے اور نہ اتنی دوررس سوچ کہ اصلی مسئلے کو حل کرے وہ اس گمان میں ہے کہ شاید کچھ لے دے کر یعنی مک مکا کرکے یہ مسئلہ حل کرلیا جائے۔ اب ایسا تو ہوگا نہیں اور جو نئی پالیسی چوہدری نثار صاحب نے قوم کے سامنے رکھی ہے وہ تو اتنا بڑا پہاڑ ہے کہ اس بیچاری چیونٹی جیسی حکومت کے نہ صرف بس سے باہر ہے بلکہ نہ ان کے پاس اتنا وقت ہے اور نہ تجربہ۔ اور جیسا کہ خواجہ آصف نے کہا جنگ تو آخر فوج نے ہی لڑنی ہے تو پھر یہ سارا ناٹک کب تک چلے گا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ امریکہ، افغانستان اور پاکستان بیٹھ کر فیصلہ کرتے کہ کیا وہ سب اس طالبان کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے اکٹھے چل سکتے ہیں۔ امریکہ بھی پریشان ہے اور اگر ایسی پریشانی کی حالت میں بھاگ کھڑا ہوا تو جیسا سرتاج عزیز نے کہا ہے افغانستان میں خانہ جنگی ہوگی اور پاکستانی طالبان کی دوبارہ ضرورت پڑے گی تاکہ پورے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوسکے۔ پاکستانی طالبان کیلئے ایک اور جنگی محاذ کھلنے لگا ہے اس لئے ان کو زیادہ فکر نہیں۔ وہ جتنا وقت ہوسکے گا ضائع کریں گے اور اس سے اچھی کیا بات ہے کہ حکومت اور فوج کی برابری کے ساتھ TV پر موجود ہوں اور لوگوں پر خودکش حملے بھی جاری رہیں اور مذاکرات بھی۔ یہ لکی افغانی سرکس اب بند ہونا ضروری ہے اور حکومت کو لازم ہے کہ ایک تاریخ دے کب یہ میلہ ختم ہوگا۔ شاید خواجہ آصف نے تاریخ دے ہی دی ہے۔