تھر کے بچّوں کا جرم اتنا سا ہے کہ وہ تھر میں پیدا ہوگئے۔ ان کی یہی خطا انہیں موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔ ان کا یہی قصور خوراک اور ادویہ کو ان سے دور رکھتا ہے۔ چیزوں کی عدم دستیابی ان بچّوں کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو تیز آندھیاں صحرا کے کیکروں کے ساتھ کرتی ہیں۔ کبھی کالی آندھیاں اور کبھی سرخ آندھیاں، کبھی بے رحمانہ طوفان اور کبھی کڑکتی تیز دھوپ، تھر کے باسیوں کا یہی مقدر ہے۔ صحرائے تھر میں زمین، پانی کو ترس رہی ہے، بچّے خوراک کو اور جانور چارے کو، خشک سالی اور قحط صحرائے تھر کا مقدر ہے۔ پانی، خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کی کالی دیوی 193؍بچّوں کو نگل چکی ہے۔ بچّے موت کے منہ میں چلے گئے مگر دوائی نہ جاسکی۔ تھر میں بھوک اور افلاس کا بسیرا ہے۔ افسوس موت زندگیوں سے کھیل رہی تھی اور ہمارے حکمران اپنی رعایا سے بے خبر تھے بلکہ وہ لاہور اور کراچی میں فیسٹول منارہے تھے۔ لاشوں کے اوپر گیت گائے جا رہے تھے۔ کروڑوں روپیہ فضائوں میں اڑایا جارہا تھا۔ افسوس لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ لوگوں پر خرچ نہ ہوسکا۔ تھر میں صورتحال افسوسناک ہے، پورے پاکستان میں ابتر ہے۔ نہ زندگی محفوظ نہ مال محفوظ، پتہ نہیں حکومتیں کس لئے ہیں؟ ان حکومتوں کا کیا کام ہے؟ حکمران اپنے اپنے آئی فون پر گیمز کھیل رہے ہوتے ہیں، لوگ لٹ رہے ہیں، مررہے ہیں اور حکمران ’’عوام‘‘ کی خدمت کررہے ہیں۔ حکمران شاید ٹس سے مس نہ ہوتے اگر میڈیا انگڑائی نہ لیتا۔ میڈیا کی انگڑائی کے بعد حکمرانوں کو ہوش آیا۔ ہوش آنے کے بعد پتہ چلا کہ گندم کی 60؍ہزار بوریاں سیاسی نمائندوں اور انتظامیہ کی کھینچاتانی کی نذر ہو کر گل سڑ گئی ہیں۔ جس خوراک کو مرنے والے بچّوں کے منہ میں جانا تھا اسے گوداموں میں ’’آگ‘‘ لگ گئی۔ اختلافات پل گئے مگر بچّے چلے گئے۔ ادویات پتہ نہیں کون ہڑپ کرگیا؟ پتہ نہیں کیوں حکمران تھر کو ہڑپہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کچھ کو موہن جو داڑو کی یاد ستاتی ہے۔ حیرت ہے تھر کی اس خشک سالی میں آنسوئوں کی برسات ہے، زندہ لوگ رو رہے ہیں، مرنے والے بھی روتے ہوئے مر گئے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ بڑھاپے میں بھی کاری گری سے باز نہیں آتے۔ انہوں نے اپنی حاکمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سول اسپتال مٹھی کے سرجن کو تبدیل کردیا ہے۔ دوسرے کارنامے کے طور پر ایک ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو اسٹاک کو معطل کردیا ہے۔ ان کی نگاہیں اپنے داماد کو نہیں دیکھ سکیں جو خیر سے سندھ کے سیکرٹری صحت ہیں۔ بڑے روایت پسند آدمی ہیں۔ انہیں بہت دید لحاظ ہے اسی لئے انہوں نے تھرکے ڈپٹی کمشنر کو ہٹانے کا فیصلہ تاخیر سے کیا جو ایک اہم سیاسی شخصیت کے صاحبزادے ہیں۔ ان کی کراچی پر عدم توجہی کا سب سے زیادہ نقصان شرمیلا فاروقی کو ہوا ہے۔ شرمیلا جی کی گاڑی چھن گئی ہے۔ اس گاڑی کا الزام پتہ نہیں کس پر لگتا ہے۔ فی الحال تحریک طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
صوبائی حکومت کی ہلکی سی آنکھ کھلی ہے۔ وفاقی حکومت کو بھی سوچنا چاہئے کہ تھرپارکر پاکستان کا ہی حصّہ ہے۔ مٹھی، چھاچھرو، ڈیپلو، اسلام گڑھ اور ننگرپارکر کے بچّوں کیلئے بحریہ ٹائون کے ملک ریاض حسین نے بیس کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بقول جہاز خوراک اور ادویہ سمیت روانہ کر دیئے گئے ہیں۔ ملک ریاض حسین حکمران نہیں ہیں، ان کی یہ ذمہ داری نہیں ہے، انہوں نے یہ سب کچھ انسانیت کی فلاح کے لئے کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی کیا ذمہ داری ہے؟ آخر وہ کس بات کے حکمران ہیں؟ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے شہریوں کو جان و مال کا تحفظ بھی فراہم کرتی ہیں اور زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی مہیا کرتی ہیں۔ حکومتیں عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرتی ہیں مگر یہاں کا باوا آدم نرالا ہے۔ یہاں موت کا انتظار کیا جاتا ہے کہ وہ کب زندگی کو کھا جاتی ہے۔ تھر کی خشک سالی کب ہریالی کو نگل جاتی ہے؟ کب لاشوں پر مائوں کے رونے کی آواز آتی ہے؟ کب میڈیا آواز بلند کرتا ہے؟
صاحبو! بڑے لوگ میڈیا سے بھی ناخوش رہتے ہیں۔ یہ بڑے لوگ، یہ حکمران اپنی نجی محافل میں میڈیا کو خوب ہدف تنقید بناتے ہیں۔ میڈیا کو لگام ڈالنے کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ تھر دکھانے والوں کو ہڑپ کر جائیں، تھر دکھانے والوں کو تھر میں بسادیں۔ اللہ بھلا کرے سپریم کورٹ کا کہ اس نے تھر پر نوٹس لے لیا ہے۔
چند سال پہلے پرویز رشید خادم اعلیٰ پنجاب کے مشیر تھے، وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، پنجاب میں ن لیگ کا تخت سجا ہوا تھا۔ ایک روز میں کلب روڈ پر پرویز رشید کے پاس بیٹھا تھا کہ انہیں کسی کا فون آیا۔ اس پر پرویز رشید اس شخص کو کہنے لگے کہ … پچھلے 32؍برسوں میں جب بھی اقتدار آتا ہے، آپ پتہ نہیں کہاں سے میرا نمبر پیدا کر لیتے ہیں؟ اپوزیشن کے دنوں میں آپ نے مجھے کبھی فون نہیں کیا، کیا آپ صرف اقتدار کے دنوں میں فون کرتے ہیں…؟‘‘
بات ختم ہوئی تو پرویز رشید اس آدمی کے بارے میں بتانے لگے۔ میرے ذہن کے کسی خانے میں یہ بات رہ گئی تھی، میں نے مئی 2013ء کے بعد پرویز رشید کو نہ کوئی فون کیا اور نہ ہی کوئی میسج کیا۔ میں ان کی اس بات کی نفی کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب تشدد کے باعث پرویز رشید کی قمیض خون سے بھر جائے تو اس پر کالم لکھتے ہیں۔ آج تھر میں بہت سے پرویز رشیدوں کی زندگیاں موت کی بانہوں میں آخری ہچکیاں لے رہی ہیں تو ایسے میں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی حکومت کی توجّہ بلکتے ہوئے انسانوں کی طرف دلوائیں۔ حکمرانوں کی اپنی مرضیاں ہوتی ہیں مگر وہ اتنا کام تو کر سکتے ہیں کہ کم از کم توجّہ تو دلوا سکتے ہیں۔ مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کو مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کا خیال کرنا چاہئے کہ آخر سب کا انجام مٹی ہے۔ تخت بھی مٹی، دولت بھی مٹی، زندگی کا آخری نصیب مٹی ہے۔ بہ قول غالب:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
اس بے حسی کے موسم میں سوچ کا دیا روشن ہے، ابھی بہت سے لوگ ہیں جو انسانوں کے دکھوں کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میڈیا پر لاکھ تنقید کریں مگر یہ تو سچ ہے کہ میڈیا کسی نہ کسی طرح بہت سی باتوں کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ سوچ سلامت رہے ورنہ ڈاکٹر صغریٰ صدف کا شعر ہے مگر پنجابی میں کہ :
سوچ دی سولی اتے ٹنگے
ہوش ای کھوز لے ربا سچیا