• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق کا خواب ہر دور کے مسلمان مفکرین اور مصلحین نے دیکھا اور اسے عملی شکل دینے کے لئے قابل قدر علمی و فکری کاوشیں کیں لیکن زمانہ حال میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد و یک جہتی کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس کی گئی چنانچہ دنیا بھر کے اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے عالم اسلام میں باہمی تعاون بڑھانے اور ایک دوسرے کا دکھ درد بٹانےکے لئے اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی)کی بنیاد رکھی اس کے علاوہ عرب لیگ، افریقن اسلامک یونٹی، گلف تعاون کونسل اور گلف کونسل آف عرب اکنامک یونٹی بھی کام کر رہی ہیں مگر بدقسمتی سے ان تنظیموں کی فعالیت کے فقدان کی بدولت آج اسلامی ملکوں میں اتفاق کم اور نفاق کے مظاہر زیادہ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ بعض ممالک کے درمیان اقتصادی سیاسی اور دفاعی مصلحتوں کی بنا پر دوریاں پیدا ہو رہی ہیں تو بعض ممالک کچھ اور وجوہ سے ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین واقعہ 5 مارچ کو قطر سے سعودی عرب، عرب امارات اور بحرین کا اپنے اپنے سفیر واپس بلانا ہے ان ممالک نے قطر پر باہمی سکیورٹی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مصر اور دوسرے عرب ملکوں میں باغیوں کی مدد کرنے کا الزام لگایا ہے قطر نے جوابی اقدام کے طور پر لندن کے ہیر وڈز اسٹور میں ان ممالک کے شہریوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے لندن کا یہ مہنگا ترین سٹور قطر کی سرمایہ کاری سے چل رہا ہے اور عرب امراء اپنی دولت کی نمائش کرنے یہاں آتے ہیں ہیروڈز میں داخلے پر پابندی سے ان کی انا کو ٹھیس پہنچے گی قطر بحیرہ عرب کے کنارے ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی کل آبادی 18 لاکھ ہے ان میں سےبھی صرف ڈھائی لاکھ اس کے اپنے شہری ہیں باقی سب غیر ملکی ہیں جو یہاں کام کر رہے ہیں لیکن اس کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ دنیا میں تیل اور گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے اور اس کے شہریوں کی فی کس آمدنی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اپنے پڑوسی ملکوں سے قطر کے اختلافات کو عالمی اسلام کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو امن و استحکام اور اتحاد و اتفاق کے حوالے سے نہایت افسوسناک تصویرسامنے آتی ہے پاکستان سمیت دنیا کا تقریباً ہر اسلامی ملک اس وقت داخلی خلفشار، اقتصادی بدحالی اور دہشت گردی کا شکار ہے اور امت مسلمہ بدترین بحرانی دور سے گزر رہی ہے کچھ اپنوں کی غلطیوں اور کچھ غیروں کی سازشوں کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہو گیا انڈونیشیا مشرقی تیمور سے محروم ہو گیا اور سوڈان اپنا جنوبی حصہ کھو بیٹھا عراق، لیبیا، شام اور افغانستان میں لاکھوں بے گناہ مسلمان مارے گئے اسلامی ممالک افرادی قوت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود مسائل و مشکلات کا شکار ہیں اپنی توانائیاں معاشی ترقی، تعلیم، صحت اور دوسرے سماجی شعبوں میں صرف کرنے کی بجائے آپس کی لڑائیوں اور داخلی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں قطر سے سعودی عرب، بحرین اور عرب امارات نیز سعودی عرب سے شام، ایران اور ترکی کےاختلافات پاکستان اور اس کے عوام کے لئے بھی تکلیف دہ ہیں پاکستان کے تمام اسلامی ملکوں سے تعلقات دوستی اور خیر سگالی کے جذبات پر مبنی ہیں لیکن ان ملکوں کے باہمی اختلافات ہمارے لئے بھی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں پاکستان ایران سے گیس اور قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کا خواہاں ہے سعودی عرب سرمایہ کاری کے علاوہ بھی ہر ضرورت کے وقت پاکستان کی مدد کرتا ہے جبکہ قطر یہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے ایران سے بھی ہمارے تعلقات خصوصی نوعیت کے ہیں پاکستان ان میں سے کسی کو ناراض نہیں کر سکتا۔ پاکستان شروع ہی سے دوسرے ملکوں خصوصاً اسلامی ممالک کے باہمی جھگڑوں سے دور رہنے اور افہام و تفہیم کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اسے خود دہشت گردی اور توانائی کے بحران جیسے بہت سے مسائل کا سامنا ہے قطر کے معاملے میں اس کی خواہش یہی ہونی چاہئے کہ فریقین میں اتفاق رائے سے معاملات طے ہو جائیں اس سلسلے میں اسلامی ملکوں کی تنظیم کو بیچ بچائو کے لئے آگے آنا چاہئے اور پاکستان کو بھی اس طرح کی کوشش میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔
تجارت کے لئے پسندیدہ !
ایک اطلاع کے مطابق اس ماہ کے آخر تک بھارت کو پسندیدہ ترین ملک (ایم ایف این) کا درجہ دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اسکے بدلے میں بھارت نان ٹیرف بیریرزدور کرنے کے ضمن میں پاکستانی تاجروں کیلئے 300اشیا پر ڈیوٹی میں کمی پر آمادہ ہو گیا ہے۔ اعلیٰ حکام کے مطابق اگر دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تو پاکستان کا بھارت سے تجارت کا 35کروڑ ڈالر سالانہ کا حجم بڑ ھ کر 2ارب ڈالر ہوسکتا ہے۔ معاہدے کے بعد دونوں ممالک آٹھ ہزار مصنوعات کی تجارت کریں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت کو فروغ دینے کیلئے عالمی بنک واہگہ سرحد کے دونوں اطراف انفراسٹرکچر کے قیام کے لئے مدد دے گا۔ دوطرفہ تجارت میں اضافے کے باعث نہ صرف دونوں ممالک ایک دوسرے سے ارزاں قیمتوں پراشیا خرید سکیں گے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید خوشگوار بنانے میں مدد ملےگی۔ پسندیدہ ترین قوم (ایم ایف این) قرار دینے کے بعد ٹیرف میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ باہمی تعاون و مشاورت سے کئی اشیا پر ڈیوٹی برائے نام رہ جائے گی جس سے بعض ضروری اشیا کی مارکیٹ میں قیمتوں میں خاصی کمی بھی ہوگی اور سب سے اہم یہ کہ بعض ایسی اشیا جو دوردراز ممالک سے منگوانا پڑتی ہیں تو مال برداری کی بھاری قیمت بھی دینا پڑتی ہے جس سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بھارت سے وہی چیز منگوانے میں ٹرانسپورٹیشن میں کمی ہوگی اور آسانی سے سرحد کے اس پار سے سامان پاکستان لایا جاسکے گا اور اسی طرح پاکستان سے بھارت بھیجا جاسکے گا۔ ظاہر ہے کہ جب تجارت بڑھے گی تو دونوں ملکوں کے درمیان آمد و رفت میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس حوالے سےتاجروں کے لئے ویزا میں نرمی کا اعلان پہلے ہی کیاجاچکا ہے۔ آزاد تجارت کے فروغ کے بعد تجارت کی سرگرمیوں میںاور تیزی آئے گی۔ اس طرح دونوں ممالک میں جو تنازعات موجود ہیں ان کو حل کرنے میں بھی مدد ملےگی۔ صنعت و تجارت کی تنظیموں اورتاجر برادری نے اس حکومتی فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے اور اس بات پر زور دیاہے کہ اس تجارتی معاہدہ کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔

تھر :امدادی سرگرمیاں تیز کریں
تھر میں قحط اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماریوں سے صورت حال کے نہایت سنگین ہوجانے کے بعد تین دن پہلے وزیر اعلیٰ سندھ نے اس معاملے میں انتظامیہ کی جانب سے مجرمانہ غفلت کے اعتراف اور حالات کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا تو یہ توقع پیدا ہوئی کہ اب فوری امدادی کارروائی شروع ہوگی اور متاثرین کو جلد از جلد خوراک اور طبی امداد فراہم کرکے حالات پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ حکومت سندھ یہ کام تن تنہا کرنے کے لئے اس حد تک پر عزم تھی کہ اس کی جانب سے حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت کی تعاون کی پیش کشوں کو بھی قبول نہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔لیکن یہ امر نہایت تشویش ناک ہے کہ تھر میں امدادی کارروائیاں اب تک بہت محدود ہیں ،2400دیہات میں کوئی امدادی کارروائی شروع نہیں ہوسکی ہے،سرکاری گوداموں میں گندم کی 47ہزار بوریوں کی موجودگی کے باوجود بمشکل 9سو بوریاں ضرورت مندوں میں تقسیم کی گئی ہیں جبکہ قحط سے متاثرہ خاندانوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ڈھائی تین ہزار مزید مریض اسپتالوں میں پہنچ چکے ہیں اورمزید چھ بچے بھوک اور بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ اسپتالوں میں عملے اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ دیہی مراکز صحت میں بچوں کے ڈاکٹروں کو نہیں بھیجا جاسکا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے دیہات کے لوگ بڑے پیمانے پر شہری علاقوں کا رخ کررہے ہیں۔ ریگستانی علاقے میں 16اگست تک ضرورت کے مطابق بارشیں نہ ہونے پر طے شدہ طریق کار کے مطابق 2ستمبر سے تھر کو آفت زدہ قرار دیا جانا چاہئے تھا جس میں تاخیر کے باعث مسائل گمبھیر ہوئے ۔اس صورتحال میں پورے اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ امدادی کارروائیاں ضروری ہیں۔ وفاقی حکومت کی طرف سے تھر کے مصیبت زدگان کیلئے امداد کا اعلان خوش آئند ہے۔ حکومت سندھ کو خوش دلی کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہئے اور تھر کے انسانی مسئلے کو انسانی اور قومی ہمدردی کے جذبے سے حل کرنے کیلئے نتیجہ خیز پیش رفت کرنی چاہئے۔
تازہ ترین