12یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ مولانا جلال الدین رومی (1207-1273) ایک عظیم روحانی شخصیت، مذہبی سکالر، فلاسفر اور شاعر تھے اور علامہ اقبال ؒ انہیں اپنے مرشد کا درجہ دیتے ہیں۔ مولانا رومی کی مثنوی ایک ایسی زندہ کتاب ہے جو قیامت تک باقی رہے گی اور یہی وجہ ہے کہ بعض سکالرز مولانا رومی کی مثنوی کو ’’پہلوی قران‘‘ کےنام سے یاد کرتے ہیں۔
مثنوی مولوی معنوی ہست قران در زبانِ پہلوی
مولانا رومی نے مثنوی میں ایک نہایت دلچسپ کہانی بیان کی ہے جو گزشتہ کچھ عرصے سے مجھے کبھی کبھی یاد آتی ہے اگرچہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اب ان کہانیوں کے سنانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ باتیں جن کو سمجھنی چاہئے ان تک نہ ہی ہمارا پیغام پہنچتاہے اور نہ ہی ان پر ہماری فریاد اثر کرتی ہے۔ بہرحال مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ’’ایک گائوں کی مسجد میں ایک موذن تھاجس کی آواز بہت بھدی تھی۔ چنانچہ وہ بڑے کرخت اور بھونڈے انداز سے اذان دیا کرتا تھا۔ گائوں کے لوگ اس کی بھونڈی اذان سے بہت تنگ تھے لیکن اسے کچھ کہنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ گائوں کےسیانوں اور بزرگوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس موذن سے خلاصی حاصل کرنے کاایک ہی مہذب طریقہ ہے کہ اسے حج پر بھیج دیا جائے۔ اس زمانے میںلوگ پیدل یا گھوڑوں، اونٹوں پرقافلوں کےساتھ حج کیا کرتے تھے اور آنے جانے میں طویل عرصہ لگ جاتا تھا۔ گائوں کے لوگوں نے چندہ جمع کرکے زاد ِ راہ اکٹھا کیا اور موذن کو معقول رقم دے کر کہا کہ آپ حج کر آئیں۔ موذن بہت خوش ہوا کہ ’’اسے آیا ہے بلاوا دربار ِ نبیؐ سے‘‘ چنانچہ اس نے جلدی جلدی اپنے گھریلو معاملات نپٹائے اور حج کے لئے رخصت ہو گیا۔ طویل سفر کے دوران دریائوں ندیوں کو عبور کرکے کئی آبادیوں سے ہوتا ہوا وہ ایک شام ایک گائوں میں پہنچا اور اس زمانے کی روایت کے مطابق مسجد میں قیام پذیر ہوا۔ نماز کا وقت ہوا تو اس نے مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر اذان دی۔ اتنے میں امام صاحب بھی تشریف لے آئے اور نمازی بھی اکٹھے ہوگئے۔ حسب ِ روایت گائوں کے لوگوں نے اس کی مہمان نوازی کی۔ نماز کے بعد بہت سے نمازی رخصت ہوگئے لیکن ابھی امام مسجداور چند ایک نمازی مسجد میں موجود تھے کہ اس گائوں کا ایک رئیس شخص مسجد میں داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئےکیونکہ اس کا تعلق زرتشت مذہب سے تھا۔ وہ شخص آگے بڑھا اور موذن کا پرجوش استقبال کرکے اپنا بیگ کھولا۔ اس نے بیگ میں سے انتہائی قیمتی تحائف نکالے اور مہمان موذن کی خدمت میں پیش کردیئے۔ امام مسجد اور نمازی یہ دیکھ کر حیرت میں گم ہوگئے کہ ایک زرتشی ایک مسلمان موذن کو اتنے قیمتی تحائف پیش کر رہا ہے آخر کیوں؟ چنانچہ وہ اس سے پوچھے بغیر نہ رہ سکےکہ آپ اس شخص پر اتنے مہربان کیوں ہوگئے ہیں۔ اس نے جواباً کہا کہ میری بیٹی اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہونا چاہتی تھی۔ ایک عرصے سے ہمارے گھر میں جھگڑا جاری تھااور نہ ہی صرف میں بلکہ میرا سارا خاندان اس پر دبائو ڈال رہے تھے اور سمجھا رہے تھے لیکن وہ اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرنے پر بضد تھی۔ وہ اذان کو ہر روز بڑے غور اور جذبے سے سنا کرتی تھی۔ آج اس شخص کی اذان سن کر اس نے فیصلہ بدل لیا ہے اور وہ ہمارے مذہب میں واپس آگئی ہے۔ اس لئے ہم اس کے نہایت احسان مند ہیںاور اس کے احسان کا قرض چکانے کے لئے قیمتی تحائف لے کرحاضر ہوئے ہیں۔ ‘‘ذرا غورکیجئے کہ اس کہانی کے ذریعے کتنا گہرا، ہمہ جہت اور سبق آموز پیغام دیا گیا ہے۔
اب آپ پوچھیں گے کہ مجھے آج کل مولانا رومی کا بیان کردہ یہ قصہ اور سدابہار سچائی کیوں یاد آرہی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں جب بھی پاکستان میں مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں پرخودکش حملے اوربم دھماکوں کی تفصیلات پڑھتا ہوں تو مجھے مولانا رومی کی حکمت کے شہ پارے یادآتے ہیں۔ پھر میں ہاتھ اٹھا کر دل ہی دل میں اپنے خالق حقیقی سے پوچھنے لگتا ہوں خدایا! میرے ملک کو کیا ہوگیا ہے؟ اس پر کس کا منحوس سایہ پڑ گیا ہے۔ یہ دنیا کا محفوظ ترین ملک اب کیوں اتنا غیرمحفوظ ہو گیا ہے۔ خدایا! میرے ملک کے مسلمان اسلام سے محبت کرتے ہیں۔ کیا دہشت گردوںکو معلوم نہیں کہ وہ بم دھماکوں اورقتل و غارت سے غیرمسلموںکو اسلام سے دور کر رہے ہیں اور تیرے دین سے لوگوں کو بدظن کر رے ہیں.......!!!!
مغربی ممالک میں چھپنے والی کتابوں اورسروے رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ 9/11کے واقعے کے بعد اگرچہ امریکی اوریورپی میڈیا نے اسلام کے خلاف نفرت سے زہرآلود مہم کا آغاز کردیا تھا لیکن اس کے باوجود عام لوگوں کی اسلام میں دلچسپی بہت بڑھی۔ 9/11کے واقعے کے بعد امریکہ میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن حکیم تھی اور ایک سروے رپورٹ کے مطابق اس واقعے کے بعد صرف امریکہ میں 34ہزار غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا۔ یہی صورت دوسرے یورپی ممالک میں ہے۔ چند روز قبل میری ایک مسلمان دانشور سے بات ہو رہی تھی جو گزشتہ دو دہائیوں سے یورپ میںآباد ہیں۔ اس نے بڑے دکھ اورافسوس سے کہا کہ ’’جب سے اسلامی دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہواہے امریکی اوریورپی اسلام کو شدت پسندی اور دہشت گردی کا مذہب سمجھنے لگے ہیں اور اسی طرح اسلام سے دور ہو رہے ہیں جس طرح مولانارومی کے قصے میں زرتشت مذہب سے تعلق رکھنے والی ایک موذن کی بھونڈی اذان سن کر اسلام سے دور ہوگئی تھی۔ ‘‘اس کا کہنا تھا کہ مظلوم فلسطینیوں کے یہودیوں پرخودکش حملے تو لوگوں کے لئے قابل فہم تھے لیکن پاکستان میں مسلمانوں کے مسلمانوں پر خودکش حملوں سے مغرب میں اسلام کے حوالے سے بدگمانیاں جنم لے رہی ہیں۔ہندوستان کے 20ہزار مسلمان سکالروں نے دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیراسلامی قرار دیا تھااور یہی موقف سعودی عرب سےلے کر پاکستان تک سبھی علما کا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ خدارا خودکش حملے اور بم دھماکے کرنے والوں کو سمجھائو کہ تم اپنے اعما ل سے اللہ کے امن پسند دین کے بارے میں غیرمسلمان دنیا اور عام لوگوں کو بدظن اور گمراہ کر رہے ہو۔ معصوم بچوں، عورتوں اور مسلمانوں کے قاتل جنتی نہیں ہوسکتے۔ یہ کون سی جنت کی تلاش میں خودکش حملے ا ور بم دھماکے کر رہے ہو؟
اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ میں انہیں کیسے سمجھائوں؟