بھارت اور ایران کے درمیان چاہ بہار بندرگاہ معاہدے پر امریکہ کی نئی دہلی کو تجارتی پابندیوں کی دھمکی خطے کی موجودہ صورت حال میں یقینا بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ روز شکوہ کیا تھا کہ ’’امریکہ ایران بھارت بندرگاہ معاہد ے پر خاموش رہتا اور پاک ایران گیس پائپ لائن پر پابندیاں لگاتا ہے تو یہ دوستوں والی بات نہیں ہوگی۔ پاکستان کو گوادر سے جو فائدے ہوسکتے ہیں چاہ بہار معاہدے سے وہ ضرور متاثر ہوں گے جبکہ گوادر پورٹ کامیاب ہوجائے تو دیگر فوائد کے علاوہ بلوچستان کے لوگوں کو بڑے پیمانے پر روزگار ملے گا اور علیحدگی پسندی کے رجحانات کا خاتمہ ہوسکے گا۔‘‘تاہم گزشتہ روز ہی امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان نے بھارت ایران معاہدے پرواضح کیا کہ ہم اس معاملے سے آگاہ ہیں،ایران پر امریکی پابندیاں برقرار ہیں اور ہم ان کا نفاذ جاری رکھیں گے۔جب پوچھا گیا کہ کیا اس میں بھارتی کمپنیوں کے خلاف پابندیاں بھی شامل ہیں، تو ان کا جواب تھا کہ کوئی بھی ادارہ کوئی بھی شخص جو ایران کے ساتھ کاروباری معاملات پر غور کر رہا ہے اس میں شامل ہے۔بھارت ایران کاروباری تعلقات پر درگزر پر مبنی امریکہ کے عمومی رویے کے تناظر میں یہ گمان بے بنیاد نہیں ہوگا کہ بھارت کے خلاف چاہ بہار کے حوالے سے یہ ردعمل عین ممکن ہے کہ محض توازن قائم رکھنے کی ایک تدبیر ہو کیونکہ اگر یہ معاہدہ امریکہ کی مرضی کے خلاف تھا تو اس کے عمل میں آنے سے پہلے ہی اسے روکنے کیلئے کوئی مؤثر کارروائی کی جانی چاہیے تھی۔تاہم امریکہ اگر ایران سے کاروباری اور اقتصادی روابط کے معاملے میں کسی کے ساتھ بھی رعایت نہ کرنے کے مؤقف پر قائم رہتا ہے تو اس سے اس کی اصول پسندی ثابت ہوگی جبکہ پاکستان کے جائز مفادات کا تحفظ بھی ہوسکے گا لیکن بھارت کے ساتھ چشم پوشی اور پاکستان کیساتھ سخت گیری کی روش اختیار کی گئی تو یہ طرز عمل قطعی غیرمنصفانہ ہوگا۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998