• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا محمد الیاس عطار قادری

’’حجاج و معتمرین‘‘ ان میں سے موقع کی مناسبت سے وہ نیتیں کر لیں جن پر عمل کرنے کا واقعی ذہن ہو۔

1۔ صرف رِضائے الٰہی پانے کے لیے حج کروں گا۔ قبولیت کےلیے اخلاص شرط ہے اور اخلاص حاصل کرنے میں یہ بات بہت معاون ہے کہ جب ریاکاری اور شہرت کے تمام اسباب ترک کر دیئے جائیں۔ فرمانِ مصطفیﷺ ہے: ’’لوگوں پر ایسا زمانہ آئےگا کہ میری اُمت کے اغنیاء (یعنی مالدار) سیر و تفریح کےلیے اور درمیانے دَرَجے کے لوگ تجارت کے لیے اور قراء ( یعنی قاری) دِکھانے اور سنانے کے لیے اور فقراء مانگنے کے لیے حج کریں گے۔ (تاریخ بغداد ج10، ص 295)

2۔ اِس آیت مبارکہ پر عمل کروں گا : ’’وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہ‘‘… ترجمہ کنزالایمان : ’’حج اورعمرہ اللہ کے لیے پورا کرو‘‘۔(سورۃ البقرہ:196)۔

3۔ (یہ نیت صرف فرض حج کرنے والا کرے) اللہ عزوجل کی اطاعت کی نیت سے اِس حکم قرآنی: ’’وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً‘‘… ترجمہ کنزالایمان: ’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے‘‘ پرعمل کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔(سورۂ آل عمران:97)

4۔ حضور نبی کریم ﷺ کی پیروی میں حج کروں گا۔

5۔ ماں باپ کی رِضا مندی لے لوں گا۔ (بیوی شوہر کو رِضامند کرے، مقروض جو ابھی قرض ادانہیں کر سکتا تو اُس ( قرض خواہ) سے بھی اجازت لے، اگر حج فرض ہوچکا ہے تو اِجازت نہ بھی ہو تب بھی جانا ہوگا۔ (ملخص ازبہارِ شریعت ج1، ص1051)، ہاں عمرہ یا نفلی حج کے لیے والدین سے اِجازت لئے بغیر سفرنہ کریں۔ (یہ بات غلط مشہورہے کہ جب تک والدین نے حج نہیں کیا اولاد بھی حج نہیں کرسکتی)

6۔ مالِ حلال سے حج کروں گا۔ ( ورنہ حج قبول ہونے کی اُمید نہیں، اگرچِہ فرض اُتر جائےگا، اگر اپنے مال میں کچھ شبہ ہو تو قرض لےکر حج کو جائے اور وہ قرض اپنے (اُسی مشکوک) مال سے ادا کر دے۔(ایضاً)

حدیث شریف میں ہے: ’’جو مالِ حرام لےکر حج کو جاتا ہے، جب لبیک کہتا ہے، ہاتف غیب سے جواب دیتا ہے: ’’نہ تیری لبیک قبول، نہ خدمت پذیر (یعنی منظور) اور تیرا حج تیرے منہ پر مردود ہے، یہاں تک کہ جو یہ مالِ حرام کہ تیرے قبضے میں ہے اُس کے مستحقوں کو واپس کردے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ ج23، ص 541)

7۔ سفر حج کی خریداریوں میں بھائو کم کروانے سے بچوں گا۔ امام احمد رضاخان ؒفرماتے ہیں: ’’بھاؤ (میں کمی) کے لیے حجت ( یعنی بحث و تکرار) کرنا بہتر ہے بلکہ سنت، سوا اُس چیز کے جو سفر حج کے لیے خریدی جائے، اِس (یعنی سفر حج کی خریداریوں) میں بہتر یہ ہے کہ جو مانگے دےدے۔ (فتاویٰ رضویہ ج17، ص128)

8۔ چلتے وقت گھروالوں، رشتے داروں اور دوستوں سے قصور معاف کرواؤں گا، ان سے دُعا کروائوں گا۔ دوسروں سے دُعا کروانے سے برکت حاصل ہوتی ہے، اپنے حق میں دوسرے کی دُعا قبول ہونے کی زیادہ اُمید ہوتی ہے۔

9۔ حاجت سے زائد توشہ (اَخراجات) رکھ کر رفقاء پر خرچ اور فقرا پر تصدق (یعنی خیرات) کر کے ثواب کماؤں گا۔ (ایسا کرنا حج مبرور کی نشانی ہے) مبرور اُس حج اور عمرہ کو کہتے ہیں جس میں خیر اور بھلائی ہو، کوئی گناہ نہ ہو، دِکھاواسنانا نہ ہو، لوگوں کےساتھ اِحسان کرنا، کھانا کھلانا، نرم کلام کرنا، سلام پھیلانا، خوش خلقی سے پیش آنا، یہ سب چیزیں ہیں جو حج کو مبرور بناتی ہیں جبکہ کھاناکھلانا بھی حج مبرور میں داخل ہے تو حاجت سے زیادہ توشہ ساتھ لو، تاکہ رفیقوں کی مدد اور فقیروں پر تصدق بھی کرتے چلو۔ اصل میں مبرور ’’بر‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی اُس اطاعت اور اِحسان کے ہیں جس سے خدا کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ (کتاب الحج، ص98)

10۔ زبان اور آنکھ وغیرہ کی حفاظت کروں گا۔ (۱)حدیث پاک ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے: ’’اے ابن آدم! تیرا دِین اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک تیری زبان سیدھی نہ ہو اور تیری زبان تب تک سیدھی نہیں ہو سکتی جب تک تو اپنے رب عزوجل سے حیا نہ کرے۔ (۲) جس نے میری حرام کردہ چیزوں سے اپنی آنکھوں کو جھکا لیا (یعنی انہیں دیکھنے سے بچا) میں اسے جہنم سے امان (یعنی پناہ) عطاکر دوں گا۔

11۔ دَورانِ سفر ذِکر و درود سے دل بہلاؤں گا۔ (اس سے فرشتہ ساتھ رہیگا! گانے باجے اور لغویات کا سلسلہ رکھا تو شیطان ساتھ رہے گا)۔

12۔ اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لیے دُعا کرتا رہوں گا۔ مسافر کی دُعا قبول ہوتی ہے، نیز ’’فضائلِ دُعا‘‘ صفحہ 220پر ہے: ’’مسلمان کہ مسلمان کے لیے اُس کی غیرموجودگی میں (جو) دُعا مانگے (وہ قبول ہوتی ہے)‘‘۔ حدیث شریف میں ہے: یہ (یعنی غیرموجودگی والی) دُعا نہایت جلد قبول ہوتی ہے۔ فرشتے کہتے ہیں: اُس کے حق میں تیری دُعا قبول اور تجھے بھی اِسی طرح کی نعمت حصول۔

12۔ سب کے ساتھ اچھی گفتگو کروں گا اور حسب حیثیت مسلمانوں کو کھانا کھلاؤں گا۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: ’’مبرور حج کا بدلہ جنت ہے‘‘۔ عرض کی گئی: یارسول اللہ ﷺ! حج کی مبروریت کس چیزکےساتھ ہے؟ فرمایا: ’’اچھی گفتگو اور کھانا کھلانا‘‘۔ (شعب الایمان ج3، ص479، حدیث4119)

14۔ پریشانیاں آئیں گی تو صبر کروں گا۔ حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ فرماتے ہیں: مال یا بدن میں کوئی نقصان یا مصیبت پہنچے تو اُسے خوش دلی سے قبول کرے، کیونکہ یہ اِس کے حج مبرور کی علامت ہے۔ (اِحیاء العلوم، ج1، ص 354)

اقراء سے مزید