آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: ہمارا میڈیکل اسٹور ہے، اس کے لیے ہم مختلف لوگوں سے ادویات لیتے ہیں، اسی طرح ایک شخص ہے جو ایک ہسپتال میں کام کرتا ہے، وہ ہمیں بہت سستی ادویات دیتا ہے، ہمارے خیال میں وہ ادویات صحیح طریقے سے حاصل نہیں کرتا، مثلاً: چوری کرتا ہے یا قریب المرگ مریض کے لیے زائد ادویات منگوانا، تاکہ مریض کی وفات کے بعد ان ادویات کو فروخت کر دے، اسی طرح اور بھی کئی حیلے ہیں اور اسی طرح کسی ایسے شخص سے لینا جو اسے علاج کے لیے مفت ملی ہو۔
نوٹ: ہمیں یقین نہیں ہے کہ وہ چوری کرتا ہے یا صحیح ذرائع سے حاصل کرتا ہے اور ہم پوچھ بھی نہیں سکتے ان مسائل کا کیا حکم ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں اگر پہلے سے معلوم ہے کہ یہ ادویات چوری کی ہیں یا قرائن سے غالب گمان یہ ہے کہ یہ چوری کی ہیں یا وہ کسی دوسرے مشتبہ طریقے سے حاصل کی گئی ہوں تو شرعاً ایسی ادویات خریدنا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص کے ساتھ کاروباری معاملات رکھنا بھی شرعًا جائز نہیں ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جس نے چوری کی چیز خریدی اور وہ جانتا ہے کہ یہ چوری کی چیز ہے تو وہ اس کے عیب اور گناہ میں شریک ہوگیا۔ (السنن الکبریٰ، کتاب البيوع، باب كراھيۃ مبايعۃ من أکثر مالہ من الربا أو ثمن المحرم، ج:5، ص:547، ط:دار الکتب العلميۃ، بيروت - ردّ المحتار علیٰ الدر المختار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:98، ط:ایچ ایم سعید )