• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جب بھی انسان دکھ اور ذلت کا سامنا کرتا ہے، میں نے قسم کھائی ہے کہ خاموش نہیں رہوں گا۔ ہمیں ضرور کسی نہ کسی فریق کا ساتھ دینا ہے۔ غیر جانبداری مظلوم کی مدد نہیں کرتی، جارح کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔ خاموشی ظالم کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، نہ ستم زدہ کی۔‘‘ ایلی ویزل(Elie Wiesel)

یہ سب کچھ 30 اپریل کو کمرہ عدالت میں اس وقت شروع ہوا جب سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے ارسال کردہ خط کے ساتھ ساتھ اصل مواصلات کے مواد کے بارے میں صوبائی ہائی کورٹس سے موصول ہونے والی تجاویز پر بحث شروع کی۔ بینچ کے جج اس بات پر متفق نظر آئے کہ عدالتوں کے معاملات میں درحقیقت باہر سے مداخلت ہوتی رہی ہے اور اسے روکنے کیلئے کوئی طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ناگہانی حالات نے ان سب کو بے چین کردیا تھا۔

لاہور، کوئٹہ، پشاور اور کراچی کی ہائی کورٹس سے موصول ہونے والے فیڈ بیک نے اس طرح کی مداخلتوں کو معمول کا معاملہ قرار دیا۔ انھوں نے چیف جسٹس پر زور دیا کہ وہ اس خرابی کا تدارک کرنے کیلئے اقدامات کریں۔ لیکن چیف جسٹس کی رائے ایسے تبصروں کے برعکس دکھائی دی۔ وہ اصرار کرتے رہے کہ سربراہ کی حیثیت سے ان کے دور میں کوئی مداخلت نہیں ہوئی تھی۔ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے لکھے گئے خط کے مندرجات کے برعکس رائے تھی، جس کی وجہ سے بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ خط میں بیان کردہ ایک اور حقیقت کو بھی نظر انداز کیا گیا کہ سابق چیف جسٹس کے ساتھ ملاقات کے دوران موجودہ چیف جسٹس جو اس وقت سینئر جج تھے، بھی موجود تھے اور اس وقت وہ اس صورتحال سے پوری طرح واقف تھے۔

ججوں کے جذبات ایک خاموش انقلاب کی عکاسی کرتے ہیں جو عدلیہ کے اندر برپا ہو رہا ہے۔ اس ادارے نے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے شانہ بشانہ جو کردار ادا کیا ہے، عسکری قوانین کو آسان بنانےکیلئے سیاسی معاملات میں بلا روک ٹوک مداخلت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجود تناظر میں یہ تبدیلی کسی کرشمے سے کم نظر نہیں آتی۔

آٹھ فروری کو رونما ہونیوالے دوسرے خاموش انقلاب کے بعد، جب تحریک انصاف کیلئے کوئی سیاسی جگہ نہ ہونے اور اسکی پوری سینئر قیادت جیلوں میں یا زیر زمین ہونے کے باوجود، لوگوں نے اسے مرکز، پنجاب اور کے پی کے صوبوں میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیا۔ اگرچہ رات کی تاریکی میں مینڈیٹ کو چوری کر لیا گیا لیکن لوگوں نے واضح طور پر عمران خان اور انکی پارٹی کی حمایت کی تھی۔

یہ جڑواں انقلاب گہری ہوتی گھٹن کے ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔ ہم ایک بار پھر عمران خان کے مرہون منت ہیں جنھوں نے برسوں پر محیط ان تھک کوششوں کے ذریعے عوام کو بیدار کیا تاکہ وہ ایک ایسی قیادت کے انتخاب میں اپنے کردار اور ذمہ داریوں کا احساس کرے جو پاکستان کو حقیقی طور پر خود مختار بنائے اور اس کے مفاد کیلئے بیرونی طاقتوں کے دبائو سے بے نیاز ہو کر آزادانہ طور پر فیصلے کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر، دوٹوک انداز میں خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کیلئے ووٹ دیا تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس نئی آگہی کا سفر روکنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ درحقیقت، وقت کے ساتھ ساتھ، یہ اپنے اور اپنے ملک کے مستقبل کا تعین کرنے کیلئےزیادہ سے زیادہ طاقتور ہوتےجائیں گے۔ عدلیہ کے اندر بیداری واقعی حوصلہ افزا ہے۔ ادارے کا ماضی یقیناً بہت تاب ناک نہیں۔ اس نے خوفناک ’’نظریہ ضرورت‘‘ گھڑ کر فوجی قبضے کو قانونی جواز فراہم کیا۔ اصل میں اس کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ آئین اور قانون کو پامال کیا گیا ہے، لیکن چونکہ عمل پہلے ہی شکل اختیار کر چکا ہے اور چونکہ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اسے جائز تسلیم کیا جائے۔ اس عمل میں، ہمارے پاس چار مواقع آئے جب عدلیہ نےپوری گرم جوشی سے فوجی آمروں کا استقبال کیا۔ وہ آمر جب رخصت ہوئے قوم مزید مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی تھی۔ انھوں نے ملک کے سیاسی ڈھانچے پر ایسی فالٹ لائنیں کھینچ دیں جنھوں نے ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔

آمریت کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے مقتدرہ نے انتہائی مشکوک انتخابی عمل کے ذریعے اپنی نرسری میں پلے ہوئے کرداروں کو کٹھ پتلیاں بنا کر مسند اقتدار پر بٹھا دیا۔ اس سے پہلے جب ملک میں براہ راست فوجی اقتدار نہیں ہوتا تھا، تو اسی طرح اقتدار کو اپنے فاصلاتی بازو کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ مایوسی پھیلانے کے ساتھ ساتھ اس مشق نے ریاستی اداروں کی صحت کو بھی انتہائی متاثر کیا، ریاست کمزور ہوئی اور عوام کو اس کے تکلیف دہ نتائج برداشت کرنا پڑے۔

یہ بیداری ایک ایسے نازک وقت پر بھی آئی ہے جب ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ حقیقی معنوں میں اقتصادی مفلوک الحالی کا شکار پاکستان دنیا بھر کے سامنے کشکول بدست ہے۔ اس کے رہنما ملکوں ملکوں گھوم کر مالی امداد اکٹھی کرتے دکھائی دیتے ہیں تاکہ یہ مشکل وقت گزر جائے۔ اب ایسی ہنگامی امداد حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے قرض کے ساتھ، قرض دہندگان کو بھی اعتماد نہیں رہا کہ یہ ملک اپنے معاملات خود سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بیرونی امداد پر اس کا انحصار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے جب کہ دنیا کا اسی تناسب سے ا س پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔

رائے دہندگان اور عدلیہ میں بڑھتی ہوئی بیداری کے ساتھ جو لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کی طرف مائل نظر آتی ہے، دکھائی دیتا ہے کہ ہم آخرکار مستقبل کے صحیح راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔ تبدیلی، اگرچہ نظر آتی ہے، ایک نوخیز حالت میں ہے جسے اب بھی ان لوگوں کی جانب سے، اس کے راستے میں جان بوجھ کر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جن کی طاقت کم ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں وہ خوش نہیں ہوں گے۔

امید ہے کہ ایسی صورت حال دوبارہ پیدا نہیں ہوگی اور یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات جو عوام کررہے ہیں اس ملک کے جمہوری مستقبل کی تشکیل کی راہ ہموار کرتے ہیں جن کا طویل عرصے سے انتظار تھا۔ اس کے بعد ہی نخل امید ہرا ہو گا اور عوامی طاقت ملک کو نجات کی راہ پر گامزن کرے گی۔ لیکن، سب سے پہلے ظلم کے بادل چھٹنے چاہئیں۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکر ٹری انفارمیشن ہیں)

تازہ ترین