• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی خواتین کا عالمی دن اس لئے منا رہے ہیں کہ عورت آج بھی اپنا جائز مقام حاصل نہیں کر پائی۔ دنیامیں ہر سال سینکڑوں کانفرنسیںعورت کی آزادی کو اجاگر کرنے کے لئے کی جاتی ہیں لیکن آج بھی دنیا کا کوئی ایک ملک بھی نہیں ہے جس میں عورت مرد کا مساوی مقام حاصل کر پائی ہو۔ آج بھی زندگی کے ہر شعبے میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ ہر معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر عورت کے خلاف تشدد کا برتاؤ کیا جاتا ہے اور عورت کی برابری محض ایک نعرے کی حد تک محدود ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عورت کی حیثیت کافی بہتر ہے لیکن اس کے باوجود اس کو برابری کی سطح پر نہیں لیاجاتا۔ مثلاً امریکہ میں سفیدفام مرد کے مقابلے میں سفیدفام عورت کی آمدنی اٹھتر فیصد ہے جبکہ سیاہ فام عورت کو چونسٹھ فیصد پر قناعت کرنا پڑتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی عورت کے خلاف گھریلو تشدد اور دوسری زیادتیاں کی جاتی ہیں۔ آج بھی امریکہ کی پارلیمنٹ میں عورتیں کافی اقلیت میں ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں تو صورت حال اور بھی گمبھیر ہے جہاں عمومی طور پر عورت کا مقام نیم غلامانہ ہے۔
عورت کے خلاف سب سے بڑی دلیل ہے کہ فطرت نے اسے کمزور پیدا کیا ہے اس لئے اس کی تقدیر میں محکوم ہونا لکھا گیا ہے۔ اگر جسمانی طاقت ہی حاکمیت کی واحد شرط ہو تودنیاکے ہر ملک میں پہلوان حکومت کر رہے ہوں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے آغاز کے زمانے میں عورت کی حیثیت برتر تھی۔ انسانوں کی تعداد بہت کم تھی اور انسان فطرت کے رحم و کرم پر تھا۔ اس دور میں بچہ پیدا کرنا سب سے بڑھ کر مقدس فعل تھا۔ اسی لئے زمانہ قدیم میں پہلے دیویوں کی مورتیاں ملتی ہیں۔ یعنی آغازانسانیت میں اعلیٰ ترین ہستی عورت کی شبیہ کی تھی۔ انسانوں کی ولدیت بھی ماں کے نام سے جانی جاتی تھی۔ مہا بھارت میں تمام کردار اپنی ماؤں کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔
تحقیق یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ زراعت عورتوں کی ایجاد تھی ۔ مرد شکار کے لئے جاتے تھے تو عورتوں نے زمین میں بیج بو کر کاشت کاری دریافت کی۔ زراعت ہی بعد میں عورت کی محکومی کا سبب بنی۔ جب ہل ایجاد ہو گیا اور غلے کی ذخیرہ اندوزی کا ہنر سیکھ لیا گیا تو اسی زمانے میں عورت کی غلامی کا دور شروع ہوا۔ تاریخ داں گرڈا لرنر نے زمانہ قدیم کے حقائق کی چھان بین کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ انسانی تاریخ میں غلامی سب سے پہلے عورت کی جنسیت کوقابو کرنے سے شروع ہوئی۔ قبائلی جنگوں میں بھی فتح مند محکوم قبیلے کے سب مردوں کو قتل کر دیتے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیتے۔عورتوں کو مندروں پر چڑھاوے کے طور پر بھی چڑھایا جاتا تھا، انہی مندروں کے اردگرد طوائف خانوں کا آغاز ہوا۔
غلامی اور جاگیردارانہ ادوار میں عورت سب سے زیادہ ظلم و ستم کا شکار بنی۔ عورت کے مفتوح ہونے کی باقیات آج کے کلچر میں بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ مثلاً اب بھی بارات میں دولہا گھوڑے پر سوار ہو کرجاتا ہے۔ بارات کے لوگ مسلح ہوتے ہیں اور ایسے دکھائی پڑتا ہے جیسے کسی علاقے کو فتح کرنے کے لئے جایا جا رہا ہو۔ لڑکی کی طرف کی عورتیں دلہا اور باراتیوں کو سٹھنیاں (گالی نما گیت) دیتی ہیں۔ اس طرح یہ سین ایک فاتح اور مفتوح کے درمیان جنگ کا سماں پیش کرتا ہے۔
عورت پر جبر تو آفاقی نوعیت کا تھا لیکن اس کا انحصار مختلف علاقوں کی معیشت اور سماجی ارتقاء پر بھی تھا۔ مثلاً تاریخ دان ابو ریحان البیرونی اپنی شہرہ آفاق تاریخ الہند میں لکھتا ہے کہ ہندوستانی عورت کی حیثیت وسط ایشیا کی عورت سے قدرے بہتر تھی۔ البیرونی محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آیا تھا اور غالباً اس کا مطالعہ پنجاب تک محدود تھا ۔ البیرونی ہندوستانیوں اور وسط ایشیا کے لوگوں کی عادات و خصائل کا فرق بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ہندوستانی مرد اس لحاظ سے بالکل مختلف ہیں کہ وہ ہر اہم فیصلے میں اپنی بیویوں سے مشورہ کرتے ہیں۔ یہ شاید اس لئے تھا کہ پنجاب زرعی علاقہ تھا اور ایسے علاقوں میں آج بھی پیداواری عمل میں عورت کی شراکت لازمی ہے۔ اسی لئے زرعی علاقوں میں عورت کے پردے کا تصور نہیں ہے۔ مثلاً کپاس اگانے والے علاقوں میں چنائی کا کام عورتیں ہی کرتی ہیں ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت کو مساوی حقوق بھی میسر ہیں۔
پاکستان میں بالخصوص جاگیردارانہ اور قبائلی علاقوں میں عورت انتہائی جبر کا شکار ہے۔ اسے غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے اور اس کو سزا کے طور پر اجتماعی زیادتی کانشانہ بنایا جاتا ہے۔ آج بھی، ونی ، کاروکاری اور وٹہ سٹہ کی رسمیں عام ہیں ۔ آج بھی عورتوں کو زندہ دفن کیا جاتا ہے اور پھر پارلیمان میں اسے روایات کا حصہ بتا کر جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ عورتوں کی نمائندگی پارلیمنٹ میں بڑھی ہے لیکن آزادانہ طور پر جیت کر آنے والی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ زیادہ تر خواتین مخصوص کوٹے پر پارلیمنٹ تک پہنچتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ کا تعلق صاحب ثروت حکمران طبقے سے ہی ہوتا ہے اس لئے وہ عام پاکستانی عورت کی نمائندگی نہیں کرتیں۔
جنسیت کی بنا پر امتیازی سلوک میں پاکستان بہت نچلی سطح یعنی ایک سو بتیسویں پوزیشن پر ہے۔اگرچہ لڑکیوں میں تعلیم کارجحان پہلے سے بہت بہتر ہے لیکن پھر بھی ان میں خواندگی کی سطح ٖ صرف انچاس فیصد ہے جبکہ مردوں میں پینسٹھ فیصد ہے۔ جنوبی کوریا سے لے کر چین تک دنیا میں صرف وہ ملک ترقی کی صف میں آگے ہیں جن میں عورتوں کو تعلیم کے یکساں مواقع میسر کئے گئے ہیں ۔ تہذیب و تمدن میںوہ ممالک پیش قدمی کر رہے ہیں جن میں عورت کو معاشی، سماجی اور سیاسی سطح پر آگے بڑھنے سے روکا نہیں جاتا۔
اس وقت پاکستان متضاد رجحانات کے منجدھار سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف تو مشینی کاشت اور نئی ٹیکنالوجی عورتوں کو آزادی دلانے کا ماحول پیدا کر رہی ہیں تو دوسری طرف اس کے ردعمل میں قدامت پرست فکر بھی ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ طالبان کی شریعت کا سارا زور عورتوں کو گھروں میں بند کرنے پر ہے۔ وہ عورتوں کی تعلیم اور اس کے معاشرے میں آزادانہ شرکت کے خلاف ہیں۔ لیکن اگر پاکستان نے ترقی کرنا ہے اور اسے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہونا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی سطح پر عورت کے مساوی حقوق کو تسلیم کیا جائے اور ان کو ہر میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔
تازہ ترین