پنجاب میں ہتک عزت بل کے مسودے پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا اعلامیہ میں کہنا ہے کہ پنجاب ہتک عزت بل آزادی اظہار کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ بل کا مواد اور زبان کئی حوالوں سے پریشان کن ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے مزید کہا کہ ہتک عزت بل ایسے متوازی ڈھانچے کی تجویز دیتا ہے جو ہتک عزت کے دعووں کا فیصلہ کرے۔ انسانی حقوق کمیشن نے ایسے متوازی جوڈیشل ڈھانچے کو ہمیشہ رد کیا ہے۔
ایچ آر سی پی اعلامیہ کے مطابق یہ ڈھانچہ بنیادی حقوق کے خلاف اور عدلیہ کے متوازی نظام کو متعارف کراتا ہے۔ بل میں ہتک عزت کے ٹریبونلز قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق بل میں ضلعی سطح پرعدلیہ کے مقابلے میں زیادہ الاؤنسز اور مراعات پر ججز کی تقرری کا کہا گیا ہے۔ ہتک عزت کے دعووں کو 180 دنوں کی مختصر مدت میں حل کرنے کا کہا گیا ہے۔ ہتک عزت کے دعوے پر بغیر کسی مقدمے کے حکم نامہ جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ بل اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی پر قدغن ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق ایسے میں شفاف اور منصفانہ ٹرائل متاثر ہوگا۔ مسودے میں آئینی عہدوں پر موجود افراد کیلئے لاہور ہائیکورٹ کے جج کو سماعت کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق وزیراعظم، چیف جسٹس اور فوجی سربراہان سے متعلق ہتک عزت کیس لاہور ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل خصوصی ایک رکنی ٹریبونل کرے گا۔ یہ شہریوں کیلئے مساوی قانون اور برابری کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق بل کو جلد بازی میں پاس کیا گیا، انداز بھی پریشان کن ہے۔ سول سوسائٹی اور مین اسٹریم میڈیا سے مشاورت کیلئے 5 دن ناکافی ہیں۔