ہمارے ہاں ’’سازشی نظریات‘‘ کی بھر مار ہے۔ جب بھی کوئی سانحہ یا ناپسندیدہ عمل رونما ہوتا ہے تو اس کی توضیح میں طرح طرح کے سازشی نظریات سامنے آنے لگتے ہیں ۔ اور سیدھی سادی بات کو ایک ’’معمّہ‘‘بنا دیا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اب ہماری قومی نفسیات یا عادت بن چکا ہے اور شائد اس میں کچھ حقیقی وجوہات بھی ہیں کیونکہ ہم نے اپنی قومی زندگی میں اتنے بحران اور حادثات دیکھے ہیں کہ ہمیں یوں لگتا ہے جیسے ہر کوئی ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ ہماری کیفیت اس شخص جیسی ہو چکی ہے جو بار بار لُٹنے کے بعد ہر شخص کو شبے کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اور یہیں سے سازشی نظریات جنم لیتے ہیں۔ جسے آج کے سوشل میڈیا دورنے بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ سوشل میڈیا اس وقت سب سے بڑا نفسیاتی میدانِ جنگ بن چکا ہے۔ جہاں ہر وقت جھوٹ، الزامات اور سازشی نظریات خوفناک ہتھیاروں کی طرح استعمال کئے جاتے ہیں۔ جب تک ان جھوٹے الزامات یا فیک نیوز کی حقیقت سامنے آتی ہے۔ اس وقت تک وہ سازشی نظریات اپنی تباہ کاریاں پھیلا چکے ہوتے ہیں۔ اس میں ایک بڑا کردار کم علمی اور جہالت کا بھی ہے جسکی وجہ سے عام شخص اسکی تحقیق کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتا اور بڑی آسانی سے گمراہ ہوکر جھوٹ کو بھی سچ ماننے لگتا ہے۔ یوں وہ حقیقت سے کوسوں دور چلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا سازشی نظریہ یہ پایا جاتا ہے کہ ساری دنیا ہمارے یعنی مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اور ہمیں صفحہء ہستی سے مٹا دینا چاہتی ہے۔ دراصل یہ ہماری علمی پستی، سائنسی علوم میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہونے والی پسماندگی اور غیر دانشمندانہ اندازِ فکر کے تباہ کن اثرات کے ردّ ِ عمل میں ایک بھونڈی دلیل ہے۔ جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلّق نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آج کی ترقی یافتہ غیر مسلم اقوام بذاتِ خود مذہبی شدّت پسندی کا شکار نہیں۔ مذہب ان کے نزدیک ہر انسان کا نجی معاملہ ہے جس کا ریاست اور ریاستی امور سے کوئی سروکار نہیں۔چنانچہ آج نہ تو مسیحی دنیا میں اسلامی سربراہی کانفرنس یا امتِ مسلمہ جیسی کوئی عالمی مسیحی تنظیم پائی جاتی ہے اور نہ ہی ان میں کوئی ایسا ملک ہے جو خود کو مسیحی ملک کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں انہی غیر مسلم ممالک کے عوام مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں سب سے زیادہ احتجاج کر رہے ہیں۔ جس کا عشرِ عشیر مظاہرہ بھی مسلم ممالک میں نظر نہیں آتا۔ ماضی قریب میں جائیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جنگِ عظیم اوّل اور دوم میں متحارب ملکوں کی اکثریت عیسائیت کے پیروکار ممالک کی تھی۔ یاد رہے یہ وہ جنگیں تھیں جن میں کروڑوں انسان ہلاک اور کئی ملک تباہ ہو گئے تھے جن میں اکثر غیر مسلم تھے۔تاریخ اور سیاست کا علم ہمیں بتاتا ہے کہ جنگیں معاشی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہیں جن میں مذہب، قومیّت، لسانیت اور روایات کے دفاع کی حیثیت محض ثانوی ہوتی ہے۔ ہم اپنے ملک کی اندرونی صورتِ حال کو دیکھیں تو یہاں ’’سازشی نظریات‘‘ کی ایک نئی شکل نظر آتی ہے۔ مذہبی جماعتیں اپنے مخالفین کو بڑی آسانی سے مرتد یا کا فر قرار دے دیتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں اپنے سیاسی مخالفین کو غدّار قراردینے کا سازشی نظریہ بھی بہت عام ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے سب سے پہلے فوجی ڈکٹیٹر نے بابائے قوم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدّار قرار دے دیا تھا اسکے بعد کسی اور کے ذکر کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ البتّہ جہاں تک غدّاری کا تعلّق ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا جس سے آپ کے دشمن کے عزائم پورے ہوتے ہوں اور آپ کے قومی مفادات کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ ایسا ضروری تو نہیں کہ یہ کام آپ کسی دشمن ملک کے ایجنٹ یا آلہ کار بن کر ہی کر سکتے ہیں۔ آپ کی سیاسی حماقتیں اور غلط فیصلے بھی آپ کے قومی مفادات کو نقصان پہنچا اور آپکے دشمنوں کے عزائم کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ جب فیصلہ ساز سازشوں کے ذریعے ایسے لوگوں کو قوم پر مسلّط کر دیتے ہیں جو اس کام کیلئے نا اہل ہوتے ہیں تو وہ تباہی کے سِوا اور کیا کر سکتے ہیں۔ پاکستان اس وقت جس بڑے بحران کا شکار ہے اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جس شخص کی مسیحا کے طور پر پرورش کی اس نے حکومت اور اپوزیشن دونوں حیثیتوں میں اتنے جھوٹ بولے اور اتنے سازشی نظریات گھڑے، اتنی خراب حکومتی کارکردگی دکھائی کہ جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا۔ وہ شائد دنیا کا پہلا سیاستدان ہے جو اندرونِ ملک کسی سیاستدان اور بیرونِ ملک پاکستان کےکسی دوست ملک کو ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ نہیں...وہ معاشی بحران جو اسکے دورِ حکومت سے شروع ہوا اس حد تک بڑھ چکا ہےکہ جہاں سے واپسی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں پر کھلے عام دبائو بنا رہا ہے کہ وہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے دیں۔ یہ سیاسی حماقتیں اور دیوالیہ پن انہی خوفناک نتائج کے حامل ہوتے ہیں جو غدّاری کی صورت میں ہو سکتی ہیں ۔ لہٰذا صرف غدّاری ہی نہیں۔ سیاسی حماقتیں بھی قوموں کو تباہ کر سکتی ہیں۔ چنانچہ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ایسی سیاسی حماقتوں سے بچیں۔