کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی طرح مسلمانوں کے لیے بھی اپنے مذہب یا مقدس ہستیوں کی توہین کا نہایت حساس معاملہ ہونا بالکل قابل فہم ہے البتہ ایسے کسی بھی واقعے کے ذمے داروں کا تعین اوران کے خلاف کارروائی قانونی اور عدالتی عمل کے ذریعے ہی جائز ہوسکتی ہے۔ تاہم عموماً ایسے معاملات میں لوگ بلا تحقیق اشتعال میں آجاتے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کی مجاہد کالونی میں گزشتہ روز ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جس میں مشتعل ہجوم نے دو مسیحی خاندانوں کے گھروں پر حملہ کردیا، پولیس نے بروقت کارروائی کر کے ان کو ہجوم سے بچا لیا۔ڈی پی او سرگودھا کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ مبینہ طور پر بے حرمتی کی وجہ سے پیش آیا۔اقلیتی حقوق مارچ کے مطابق واقعے کی ویڈیوز میں ’مقامی عالم دین کے اکسانے پر‘ ہجوم نے ایک 70 سالہ شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا اوراسکے گھر اور فیکٹری کو نذر آتش کر دیا۔مشتعل ہجوم کے پتھراؤ سے کئی پولیس افسر اور اہلکار زخمی ہوئے لیکن بروقت کارروائی سے سرگودھا ایک بڑے سانحے سے بچ گیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سیکریٹری داخلہ پنجاب کو فوری جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے کی ہدایت کی اور موقع پر پہنچ کر انہوں نے بجا طور پر اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ پاکستان ہم سب کا ہے، کسی کے ساتھ بھی ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی اور مکمل تحقیقات کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ اس واقعے کی مکمل چھان بین لازم ہے تاکہ ایسے واقعات کا حتمی سدباب ہو۔سابقہ واقعات کے حقائق اور ان میںقانون کے نفاذکا عوام کو علم ہوتو ایسے سانحات کی روک تھام ممکن ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے مؤثر اقدامات عمل میں لانے چاہئیں جبکہ علمائے کرام کا بھی فرض ہے کہ توہین مذہب کے ضمن میں لوگوں کی رہنمائی کریں اور براہ راست کارروائی کا غیر شرعی و ناجائز ہونا واضح کریں۔