(گزشتہ سے پیوستہ)
اب تک اس کالم میں تاریخ اور اسلام کے دائرے میں سندھ کے کردار کا ذکر کرچکا ہوں‘ سندھ کے بارے میں مزید حقائق پیش خدمت ہیں۔
سندھ امن کی دھرتی : اس سلسلے میں کئی حقائق پیش کئے جاسکتے ہیں مگر چند اہم حقائق یہ ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک ہندوستان اور سندھ میں دو بڑی مذہبی قومیںرہتی تھیں‘ سندھ کی تاریخ اس بات کی گواہی دے گی کہ سندھ میں ہندو اور مسلمانوں میں نہ کبھی تنائو رہا اور نہ کبھی کوئی بڑا ٹکرائو ہوا‘ سندھ کے بڑے شہر ہوں‘ چھوٹے شہر ہوں یا گائوں ہر جگہ ہندو اور مسلم امن سے رہتے تھے، جب پاکستان کی تحریک چل رہی تھی تو اس وقت بھی ان میں کوئی تصادم والی صورتحال نظر نہ آئی بلکہ ان میں برادرانہ تعلقات اس حد تک تھے کہ جب ہندوئوں کا کوئی مذہبی تہوار ہوتا تو ہندو جو کچھ پکاتے تھے وہ محلے کے مسلمانوں کے گھروں تک بھی پہنچاتے تھے‘ اسی طرح جب مسلمانوں کا کوئی مذہبی تہوار ہوتا مثلاً عید وغیرہ تو مسلمان بھی ان کے ہاں جو پکتا تھا اس کا حصہ ہندوئوں کو بھیجتے تھے‘ جب پاکستان اور ہندوستان الگ الگ ملک کی حیثیت میں نمودار ہوئے تو سندھ میں کہیں بھی مسلمانوں نے ہندوئوں کو زبردستی پاکستان چھوڑ کر ہندوستان جانے پر مجبور نہ کیا‘ یہ ضرور ہوا کہ ہندوستان سے جو مہاجر بھائی آتے تھے کہیں نہ کہیں ان کے اور ہندوئوں کے درمیان کسی حد تک تنائو دیکھنے میں آیامگر وہ بھی ایک خاص حد تک جہاں تک سندھ سے ہندوئوں کے ہندوستان جانے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں سندھ کے مسلمانوں کی طرف سے ان پر کوئی دبائو نہ تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہندوستان منتقل ہونے والے ہندوئوں کی آج بھی سندھ سے محبت قبل دید ہے‘ ہندوستان میں سندھی خواتین میں سندھ سےجو محبت دیکھی‘ سندھ سے ایسی محبت مجھے کہیں نظر نہیں آئی‘ مجھے تین چار بار ہندوستان جانے کا موقع ملا‘ ایک بار مجھے دہلی میں ایک دو روز قیام کے دوران میری ہندوستان کے ایک سندھی صحافی سے ملاقات ہوئی جو اس وقت ٹائمز آف انڈیا میں نیوز ایڈیٹر تھے، مجھے یہاں سے جاتے وقت ایک دوست نے ہندوستان کے اس صحافی کا ٹیلی فون نمبر دیا تھا‘ دہلی پہنچتے ہی میں نے اسے ٹیلی فون کیا وہ بہت خوش ہوا‘ میں اس وقت دہلی کے ایک ہوٹل میں تھا‘ دوسرے دن وہ مجھ سے ملنے اس ہوٹل میں آیا‘ ہوٹل میں آنے سے پہلے اس نے ٹیلی فون پر مجھے بتایا کہ میں اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لا رہا ہوں وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے‘ میں اس ہوٹل کے فرسٹ فلور پر تھا‘ اچانک سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آوازآئی‘ میں نے جھانک کر دیکھا کہ آگے یہ صحافی تھا اور اس کے پیچھے ایک خاتون دلہن کے کپڑوں میں ملبوس اوپر آرہی تھی‘ کمرے میں آنے کے بعد صحافی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے ہاتھ ملایا اور اپنی بیٹی کا تعارف کرایا‘ ابھی ہم کھڑے تھے تو بچی نے باپ سے پوچھا کہ چاچا کہاں ہے ؟انہوں نے میری طرف اشارہ کرکے کہا یہی تو ہے آپ کا چاچا‘ یہ سن کر بچی نےمیرے پائوںچھوئے اور کہا چاچا کے چرن چھو نے کے بعد میں دلہن بنوںگی‘ دوسرے دن یہ صحافی پھر مجھ سے ملنے آئے اوربتایا کہ ہم جب بھی اس کی شادی کی بات کرتے تھے تو انکار کردیتی تھی اور کہتی تھی کہ شادی سے پہلے سندھ لے چلو جہاں میں سندھ کی مٹی اپنی مانگ میں لگائوں گی اور اس کے بعد ہی شادی کروں گی‘ سندھ کے لوگوں کی مسلمانوں سے محبت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جب ہمارے مسلمان بھائی ہندوستان سے پاکستان آئے اور سندھ میں آکر آباد ہوئے تو ہر جگہ سندھ کے لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور کہیں بھی ان کیلئے کوئی مشکلات پیدا نہ کی گئیں‘ یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ جو مسلمان ٹرینوں سے پاکستان کا دوسرا علاقہ پار کرتے ہوئے سندھ میں داخل ہوئے اور اگر راستے میں کہیں یہ ٹرین کچھ وقت کیلئے رکتی تو اس علاقے کے لوگ جلدی سے گھروں سےتیار کرکے کھانا ان کو ٹرین میں پہنچاتے۔
سندھ پیار کی دھرتی: حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ سندھ فقط امن کی ہی نہیں، پیار کی بھی دھرتی ہے۔ واضح رہے کہ شروع سے سندھ شاعروں کی بھی دھرتی رہی ‘ یہ تو سب نے سنا ہوگا کہ سندھ پیار کرنے والے کئی جوڑوں کے حوالے سے بھی کافی مشہور ہے‘ سندھ میں سسی پنہوں‘ نوری جام تماچی اور عمر ماروی کے قصے تو کئی لوگوں نے سنے ہوں گے۔ عمر سندھ کے علاقے تھر کا بادشاہ تھا اور ماروی تھر کے بیابانوں میں رہنے والی ایک غریب خاندان کی لڑکی مگر ان کا عشق سارے سندھ میں مشہور ہے۔ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی عمر نے ماروی سے آخری وقت تک پیار کا رشتہ نبھایا‘ پیار کے ان جوڑوں کے بارے میں سندھ کے اکثر شعرا نے اپنے شعر کہے‘ ان میں خاص طور پر شاہ عبدالطیف کے شعر بہت مشہور ہیں۔ نوری جام تماچی کے پیار کے قصے ضلع ٹھٹھہ کے خاص طور پر کینجھر جھیل کے علاقے کے حوالے سے کافی مشہور ہیں۔ (جاری ہے)