• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب وزیراعظم آپ کے پیروں کے نیچے تھری بچے دفن ہیں۔ جب گزشتہ مہینے ٹوئیٹر پرنس اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کرائون پرنس بلاول بھٹو زرداری سندھ وادی کی تہذیب کے قدیم و عظیم آثاروں کے سینے میں کیل ٹھونک کر اور خانہ بگاڑ کر لیزر شو کلچرولچر کھیل رہے تھے تو صحرائے تھر میں تھر پار کر ضلع میں چالیس سے زائد بچے بھوک اورغذائی غلے کی قلت کے سبب مر چکے تھے۔ ان بچوں کی تعداد اب ایک سو اکانوے ہوچکی ہے جبکہ غیر تصدیق شدہ اعداد و شمار ایسی اموات ایک سو چورانوئے بتاتے ہیں۔ سندھ کے عظیم برتر و بزرگ وزیر اعلیٰ اور ان کے ہمنوا وزیر باتدبیر بس ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ یہ بچےنمونیہ اوراس سال پڑتی کڑاکے دار سردیوں اور نامناسب غذا کے سبب مر گئے اور ان کی تعداد اتنی نہیں جتنی میڈیا بتا رہا ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے جنرل مشرف کے دور میں قتل ہوجانے والی سابق وزیر اعظم کے متعلق دوسرے دن پریس کانفرنس میں اندرونی سلامتی کےعملداروں نے کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو گولی سے نہیں اپنی لینڈ کروزر کی سن روف کا ہینڈل سر میں لگ جانے سے مر گئی تھیں۔ تھر کے بچے ایک دفعہ حکومتی نااہلی اور دوسری بار ایسے نااہل حکمرانوں کے اندازبیان اور مغرور لب و لہجے سے مر گئے۔ایک ایسا انداز جس کے لئے شاید شورش کاشمیری نے کہا تھا
اندازِ گفتگو تو شریفانہ چاہئے
سندھ سے پی پی پی کی ایم این اے شازیہ مری نے تھر کے مرتے بچوں پر یہ گل افشانی کی کہ یہ بچے اتائی ڈاکٹروں کے غلط علاج سے مر گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تھر کے بچے ایسے مرے جیسے تھر کے بچے مر جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ پی پی پی کے وڈیرے اور جیالے نما وڈیرے سندھ میں ایسے حکومت کررہے ہیں جیسے پی پی پی کے وڈیرے اور وڈیریاں حکومت کرتے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے سترہویں صدی کے فرانس کے حکمران تھے، انقلاب فرانس سے پہلے۔ لیکن یہاں تو بقول شاعر’’مرگئے عوام ہاں ہاں بولو جئے بھٹو‘‘۔پہلے تھر کے مور مرے ،پھرمال مویشی کہ جن پر تھر کے لوگوں کی گزر بسر ہے اور پھر بچے۔ سچ تو یہ ہے کہ تھر پارکر ضلع کے سرکاری گوداموں میں گزشتہ سال ماہ ستمبر سے رکھی جانے والی ساٹھ ہزار گندم کی بوریوں کو پڑے سڑنے دیئے جانے کے سبب سے فاقے کرنے سے یہ تھری بچے موت کا شکار ہوئے۔ کیا یہ بوریاں خوردبرد کرکے بھارت اسمگل کرنے کو گوداموں میں رکھی گئی تھیں؟وزیر خوراک جام مہتاب حسین ڈاہر جو خود بچوں کے ڈاکٹر رہے تھے کبھی کے رئیس پاکستان آصف علی رزداری اور پارٹی کے کرائون پرنس نے دبئی میں ان سے گندم کی ساٹھ ہزار بوریاں تھر کے لوگوں میں تقسیم نہ کرنے اور یوں ہی گوداموں میں پڑے رہنے سے متعلق نہ پوچھا نہ باز پرس کی۔سب پارٹی کے مفاد میں ہو رہا تھا۔پارٹی کے عظیم ترمفاد میں تھر کے ایک سو اکیاون بچےبھوکوں مرگئے۔
غریب شہر تو فاقوں سے مرگیاعارف
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کرلی
(عارف شفیق)
لیکن تھر مٹھی کے سرکٹ ہائوس میں سندھ کے وزیر اعلیٰ اور ان کے وزیروں، مشیروں، درباریوں کے لائو لشکر کو قومی خزانے سے لنچ میں فنگر فش فرائی، بریانی اور کوفتوں کی ڈشیں پیش کی جاتی رہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ میڈیا میں دو مہینے تک (اور خاص طور سندھ میڈیا میں)تھر میں مبینہ قحط سے پہلے مور پھر مال مویشی اور آخر میں انسانی بچے مرنے کی تعداد ایک سو سے تجاوز کرنے کے بعد ڈیمج کنٹرول پر تھر کے دورے پر آئے تھے۔ آکر انہوں نے بچوں کے ایسے قتلوں کو میڈیا کی مبالغہ آرائی اور ان معصومین کی اموات کو نارمل قراردیاجس پرمجھےوہ انڈین فلم ’شاہ رخ بولا تو خوبصورت ہے‘کا کردار وہ لگے جو کہتا ہے‘‘ تم رپورٹر لوگ نا کبھی کبھی اسٹوری کے چکر میں فلم والوں سے بھی آگے نکلا جاتے ہو۔
تازہ ترین