• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں 1953ء میں پہلی گاڑی Vauxhallاور بیڈ فورڈ ٹرک مقامی طور پر نیشنل موٹرز نے تیار کیا جس کے بعد سے پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری نے متاثر کن ترقی کی اور آج یہ صنعت 35 لاکھ سے زائد افراد کو روزگار فراہم کررہی ہے۔ پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ3 فیصد ہے اور اس وقت ملک کے بڑے کار مینوفیکچررز میں ٹویوٹا انڈس موٹرز، ہنڈا اٹلس، پاک سوزوکی، ہنڈائی نشاط اور کیا لکی موٹرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ٹریکٹرز، ٹرک، بس، جیپ ، وین اور موٹر سائیکلوں کے  113 مینوفیکچررز بھی پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری کا حصہ ہیں جن کی مجموعی سرمایہ کاری 150 ارب روپے یعنی 570 ملین ڈالرز ہے ۔

اس وقت ملک میں 1.5 لاکھ گاڑیاں اور 18 لاکھ موٹر سائیکلیں سالانہ تیار کی جارہی ہیں لیکن آٹو موبائل انڈسٹری کا المیہ یہ ہے کہ اس نے 40 سال گزرنے کے باوجود حکومت کو دیئے گئے ڈیلیشن پروگرام پر عمل نہیں کیا اور اب تک انجن سمیت مکمل گاڑیاں پاکستان میں مقامی طور پر مینوفیکچر نہیں کی جارہیں۔ کار مینوفیکچررز گاڑیوں کی CKD کٹس آج بھی امپورٹ کررہے ہیں جس کی Assembling سے گاڑیاں تیار ہورہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام کار مینوفیکچررز کا انحصار امپورٹڈ انجن (CKD) پر ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث بینکوں نے CKD کٹس کی امپورٹ پر پابندی عائد کی تھی جس سے ان کار مینوفیکچررز کی پروڈکشن بری طرح متاثر ہوئی تھی ۔ پاکستان آٹو موبائل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں مجموعی 70,000گاڑیاں فروخت ہوئیں جو گزشتہ سال کے 168000 گاڑیوں کے مقابلے میں 59فیصد کم ہیں جس میں ٹویوٹا انڈس موٹرز کی سیلز میں 49فیصد، اٹلس ہنڈا کی سیلز میں 39 فیصد اور پاک سوزوکی کی سیلز میں 69 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔

پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری پر ایک طویل عرصے تک جاپانی کار مینوفیکچررز کی اجارہ داری رہی جنہوں نے نہ اپنی پروڈکشن بڑھائی اور نہ ہی کسی اور ملک کے کار مینوفیکچررز کی پاکستان میں مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کی جس کے باعث پاکستان میں گاڑیوں کی پروڈکشن محدود رہی اور گاڑیوں کی طلب بڑھنے سے ڈیلیوری مدت 6 سے 9 مہینے تک پہنچ گئی۔ اس صورتحال سے سرمایہ کاروں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بک کرائی گئی گاڑیوں پر 9 سے 10 لاکھ روپے فی گاڑی اضافی پریمیم OWN منی وصول کرنا شروع کردی جس سے گاڑیوں کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا جسے دیکھتے ہوئے حکومت نے 5سالہ نئی آٹو پالیسی 2021-26ءکا اعلان کیا جس سے 1000 سی سی تک کی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی آئی۔ نئی آٹو پالیسی میں الیکٹرک گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی 25فیصد سے کم کرکے 10فیصد کردی گئی اور کار مینوفیکچررز کو 60 دن سے زائد ڈیلیوری پر خریدار کو Kibor+3% سود کی ادائیگی کا پابند کیا گیا ہے ۔ قومی آٹو پالیسی میں الیکٹرک گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس پر کسٹم ڈیوٹی صرف ایک فیصد اور سیلز ٹیکس کی شرح کم کرکے 8.5 فیصد کردی گئی تاکہ الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال سے پیٹرول اور ڈیزل کی بچت کی جاسکے ۔ نئی آٹو پالیسی میں مقامی کار مینوفیکچررز کو 2026ءتک 10فیصد اپنی گاڑیوں کی ایکسپورٹ کرنے کا بھی پابند کیا گیا ہے جس کیلئے ان کار مینوفیکچررز کو اپنے خطے کی طلب کے مطابق گاڑیوں کے نئے ماڈلز بھی مینوفیکچرر کرنا ہوں گے۔

2019ء میں، میں ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر کی حیثیت سے بزنس مینوں کا وفد مراکش لے کر گیا تھا جہاں تنجیر پورٹ کے فری زون میں تیار کی جانے والی فرانسیسی گاڑیاں رینولٹ، پیچو اور سٹرون بحری جہازوں میں لوڈ ہوکر یورپ جارہی تھیں جس سے صرف ایک زون سے 6 ارب ڈالر سالانہ کی ایکسپورٹ ہورہی ہے۔ ان تمام تحفظات کے باوجود پاکستان میں آٹو موبائل انڈسٹری کی وینڈر انڈسٹری کا کامیاب قیام خوش آئند ہے۔ یہ وینڈر انڈسٹری پاکستان کی آٹو انڈسٹری کیلئے اسپیئر پارٹس اور دیگر پرزہ جات عالمی معیار کے مطابق تیار کرکے ان بڑے کار مینوفیکچررز کو سپلائی کرتی ہے۔ اس چھوٹے اور درمیانے درجے کی وینڈر انڈسٹری سے ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ طور 35 لاکھ سے زائد افراد روزگار سے وابستہ ہیں۔ حکومت کو دیگر سیکٹرز میں بھی وینڈر انڈسٹری کے اس کامیاب ماڈل کو اپنانا چاہئے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 40سال سے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کی ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے اور ہم نے پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری کے پوٹینشل سے استفادہ نہیں کیا۔ میری پاکستان انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ سے درخواست ہے کہ مقامی کار مینوفیکچررز کے Delition پروگرام پر عملدرآمد یقینی بنائےتاکہ گاڑیوں کے انجن امپورٹ کرنے کے بجائے مکمل گاڑیاں پاکستان میں تیار کی جاسکیں اور CKD کٹس کی امپورٹس پر خطیر زرمبادلہ بچایا جاسکے جس پر وزیراعظم شہباز شریف نے بھی حال ہی میں کار مینوفیکچررز کے نمائندوں سے ملاقات میں زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ خطے میں پاکستان سے گاڑیوں کی ایکسپورٹ سے بھی خطیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین