محمّد علی حسنین، اورماڑہ
کسی بھی فلسفی کا بنیادی کام کائنات کی سچّائی اور اس کی اٹل حقیقتوں کی دریافت ہوتا ہے۔ وہ کائنات اور انسانی ذات سے متعلق بہت ہی بنیادی نوعیت کے سوالوں کی کھوج میں کھویا رہتا ہے، جیسے کائنات کیا ہے، اِس کائنات میں میری اپنی ذات کی کیا حیثیت ہے، مَیں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، اور اسی قسم کے سیکڑوں سوالات۔
شاعرِ مشرق، علّامہ محمّد اقبال کے نزدیک ان تمام سوالات کا جواب’’خودی‘‘ کی دریافت میں ہے اور وہ خودی کی کھوج کو کائنات کی اٹل سچّائیوں تک پہنچنے کا رستہ مانتے ہیں۔ ؎خودی کیا ہے، رازِ درونِ حیات…خودی کیا ہے، بیدارئ کائنات…ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے…نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے۔
علّامہ محمّد اقبال فرماتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ یہ سارا جہان میرے وہم کے سِوا کچھ نہ ہو، جیسا کہ افلاطون اور دیگر فلسفیوں نے کہا کہ جو کچھ مَیں دیکھتا ہوں، وہ ایک پرچھائیں کے سِوا کچھ نہ ہو یا اس حقیقت کا عکس ہو، جسے میری آنکھ دیکھنے کی سکت نہیں رکھتی ہو، لیکن میں اپنے وجود کا انکار نہیں کر سکتا۔ مَیں سوچتا ہوں، غورو فکر کرتا ہوں، شعور رکھتا ہوں۔
گویا، میری اپنی ذات ایک حقیقت ہے اور حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بھی۔ لہٰذا، اقبال اپنی ذات پر سمجھوتے کے قائل نہیں۔وہ اپنی ذات کے عرفان ہی کو’’حقیقت‘‘تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔اِسی لیے کہا؎خودی وہ بحر ہے، جس کا کوئی کنارہ نہیں…تو آبِ جُو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں…تیرے مقام کو انجم شناس کیا جانے…کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں۔
لفظ خودی کے معنی و مفہوم:
تاریخِ اسلامی میں اقبال وہ واحد فلسفی شاعر ہیں، جنہوں نے لفظ ’’خودی‘‘ کو مثبت معنوں میں استعمال کیا، وگرنہ اُن سے قبل یہ لفظ منفی معنوں ہی میں مستعمل رہا ہے۔لفظ خودی کو ’’مَیں، اَنا اور غرور و تکبّر‘‘ جیسے معنوں سے مشروط کیا جاتا تھا۔ اقبال نے اِسے’’احساسِ ذات اور عرفانِ ذات‘‘ کے ناموں سے معروف کروایا۔
اسرارِ خودی کے دیباچے میں اُنہوں نے خودی کی تعریف ’’احساسِ نفس اور یقینِ ذات‘‘ سے کروائی ہے، جب کہ اقبال خود لکھتے ہیں کہ میرے اِس خیال کے لیے سب سے موزوں لفظ ’’خودی‘‘ ہی ہے، جو کسی اور زبان میں اس سے بہتر نہیں ملتا۔ انگریزی زبان میں اِس کے لیے’’ Self-Consciousness‘‘ یا ’’Ego‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، لیکن ان میں وہ وسعت نہیں، جو لفظ خودی میں ہے۔ اقبال اِس لفظ کو انسانی ذات کی پہچان سے لے کر کائنات کی تعمیر و تخلیق کے ہر ہر مرحلے اور ہر ہر موقعے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کہیں کہتے ہیں کہ؎دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر…نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر…خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو…سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر…میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے…خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر۔اور’’ ساقی نامہ‘‘ میں تعمیر کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ؎ چمک اس کی بجلی میں، تارے میں ہے…یہ چاندی میں، سونے میں، پارے میں ہے…اسی کے بیاباں، اسی کے ببول…اسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پھول…کہیں اس کی طاقت سے کہسار چُور…کہیں اس کے پھندے میں جبریلؑ و حُور…خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صید…زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید۔
فلسفۂ خودی کے محرکات وپس منظر:
فلسفۂ خودی کوئی اچانک وجود میں نہیں آگیا تھا، بلکہ یہ علّامہ اقبال کے برسوں کے عمیق مشاہدے اور غور وفکر کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدّین ہاشمی نے اپنی کتاب’’ علّامہ اقبال: شخصیت اور فکر و فن‘‘ میں لکھا ہے کہ’’ علّامہ اقبال نے خودی کا مکمل تصوّر پہلی مرتبہ اپنی کتاب’’اسرارِ خودی‘‘ میں پیش کیا۔ اُنہوں نے اسرارِ خودی کا آغاز تو1911ء میں کیا، لیکن اس کی تکمیل 1914 ء میں ہوئی۔ یوں اقبال نے تقریباً ڈھائی سے تین برس میں خودی کا مکمل تصوّر مسلمانانِ عالم کے سامنے رکھا۔‘‘
ڈاکٹر رفیع الدّین ہاشمی کے مطابق، علّامہ اقبال نے اسرارِ خودی کا آغاز اپنے والدِ محترم کی تجویز پر کیا۔ البتہ، تصوّرِ خودی کی تدوین کے پیچھے کئی ایک دوسرے محرّکات بھی کار فرما تھے، جن میں اقبال کا قیامِ یورپ، سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ، مسلمانانِ برّصغیر کا انتشار ہونا اور ملّتِ اسلامیہ کا اجتماعی زوال شامل ہیں۔ علّامہ اقبال کے دَور کے یہ وہ اہم ترین واقعات ہیں، جنہوں نے اُن کی سوچ کا دھارا تبدیل کردیا اور پھر اُنھوں نے مسلمانوں کے مسائل کا حل’’ تعمیرِ خودی‘‘ میں دریافت کیا۔
فلسفۂ خودی:
علّامہ محمّد اقبال نے جس دَورمیں آنکھ کھولی، وہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا دَور تھا۔مسلمان اجتماعی طور پر ہر شعبۂ زندگی میں پسپا ہو رہے تھے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کا حال تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی رہے تھے، باقی دنیا میں بھی مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی۔ اِس موقعے پر اُنھوں نے مسلمانانِ عالم کی بے داری کا بیڑا اُٹھاتے ہوئے انفرادی اور اجتماعی مسائل کا حل’’تعمیرِ خودی‘‘ کو قرار دیا۔
خودی سے مُراد احساسِ ذات اور عرفانِ ذات لیا۔اقبال کی احساسِ ذات اور عرفانِ ذات سے مُراد یہ تھی کہ مسلمانانِ عالم اپنے تخلیق کے مقصد کو بھول چُکے ہیں۔ وہ اپنی حقیقت اور صلاحیتوں سے بے خبر ہیں۔ وہ یہ بات بھی فراموش کر چُکے ہیں کہ انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب ہے اور خلیفہ اُس وقت تک کام یابی کی منزل حاصل نہیں کرسکتا، جب تک کہ وہ اِس کائنات میں اپنی حیثیت نہیں جان لیتا۔
اقبال کے ہاں خودی، خود شناسی، خدا شناسی اور خدا بینی کا ذریعہ ہے۔ وہ معرفتِ الہٰی کے لیے تصوّرِ خودی کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ لہٰذا کہتے ہیں؎آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا…دانہ تُو، کھیتی بھی تُو، باراں بھی تُو، حاصل بھی تُو۔
فلسفۂ خودی کے درجات:
اقبال کے ہاں خودی کی تکمیل کے تین درجات ہیں: اطاعتِ الہٰی، ضبطِ نفس اور نیابتِ الہٰی۔ اطاعتِ الہٰی سے مُراد انسان کا اپنے اختیار سے اللہ کی اطاعت اختیار کرنا ہے، یعنی وہ اپنے اختیار کو اپنے خالق ومالک کے اختیار سے بدل دے۔ اطاعتِ الہٰی کا اظہار انسان کے ایمان، ارکان اور معاملات میں ہوگا، یعنی وہ ہر ایک شعبے میں اللہ تعالیٰ کی منشاء و رضا کو ملحوظِ خاطر رکھے۔
اِسی لیے کہا؎خودی کا سرِّ نہاں، لا الہٰ الّا اللہ…خودی ہے تیغِ فساں، لا الہٰ الّا اللہ۔ خودی کا دوسرا درجہ ضبطِ نفس ہے، یعنی انسان اپنی ذات کے اختیار پر صبر کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر قسم کی برائی سے پاک کر لے۔
یہاں اقبال، انسان کی روحانی ترقّی کی بات کرتے ہیں اور انسان کو تمام غیر اخلاقی عادات سے دُور رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ضبطِ نفس سے وہ طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں، جس سے انسان کی خودی طاقت وَر ہوتی ہے۔خودی کا تیسرا درجہ نیابتِ الہٰی ہے۔ اِسی درجے کو اقبال’’خودئ مطلق‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اقبال کے مطابق، جو لوگ اطاعتِ الہٰی اور ضبطِ نفس میں کامل ہو جائیں گے، وہی ’’نیابتِ الہٰی‘‘ کے درجے پر فائز ہوں گے۔
اقبال کے ہاں خودی کے پہلے دو درجے اِس قدر اہم ہیں کہ وہ تاریخی مثالوں سے واضح کرتے ہیں کہ یہی دونوں درجات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسّلام کی صفاتِ عالیہ کا حصّہ رہے ہیں۔ الغرض، علّامہ محمّد اقبال کا فلسفۂ خودی ہر دَور کے انسان کے لیے ہے۔ یہ فلسفہ نہ صرف زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے بلکہ انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ (مضمون نگار، پاکستان نیوی کیڈٹ کالج، اورماڑہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)