• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام، ایک کامل و مکمّل دِین اور ابدی دستورِ زندگی ہے۔ یہ نہ صرف زندگی کے ہر شعبے اور بندگی کے ہر گوشے میں انسانیت کی راہ نُمائی کرتا ہے، بلکہ دین و دنیا کی خیر و فلاح کا مجموعہ اور مثالی سرچشمۂ ہدایت بھی ہے۔ عبادات اور معاملات، حقوق اللہ اور حقوق العباد اسلام کی عمارت کے بنیادی ستون ہیں۔ چناں چہ اسلام میں جہاں عبادات کو بنیادی مقام و اہمیت حاصل ہے،وہیں معاملاتِ زندگی کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔’’ایفائے عہد‘‘ یعنی عہد کو پورا کرنا، وعدے کی تکمیل اور قول و قرار پر قائم رہنا اسلامی تعلیمات کا امتیاز اور بندۂ مومن کی شناخت ہیں۔ 

ہر سطح اور ہر مقام پر راست گوئی، دیانت و امانت اور ایفائے عہد، اسلام کے نزدیک انسان کی سیرت و کردار میں مطلوب ہیں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی سوسائٹی اور کوئی انسانی معاشرہ اُس وقت تک ترقّی نہیں کرسکتا، جب تک اس کے نزدیک وعدے کی تکمیل اور ایفائے عہد کو بنیادی مقام حاصل نہ ہو۔ ’’ایفائے عہد‘‘ گویا معاشرے کے استحکام اور اُس کے قیام کی یقینی ضمانت ہے۔

اس کے برعکس جس سوسائٹی اور معاشرے میں وعدے اور عہد کی پابندی نہ ہو، یا اُسے بنیادی اہمیت حاصل نہ ہو، اُس معاشرے کے استحکام کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ بلاشبہ، وہ ایک زوال پذیر معاشرہ ہوگا، جہاں کمٹمنٹ کو بنیادی اہمیت حاصل نہ ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو معاشرہ اپنااعتماد کھو بیٹھے، وہ اپنا اعتبار اور وقار بھی کھو دیتا ہے۔

اسلام نے معاشرے کے استحکام اور افراد کے باہمی معاملات کی تکمیل کے لیے جو تعلیمات اور بنیادیں فراہم کی ہیں، اُن میں اَخلاقیات کی اہم بنیاد ’’ایفائے عہد‘‘ یعنی وعدے کی تکمیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، چناں چہ اسلام میں عہد کی پابندی، بنیادی اَخلاقی اقدار میں سے ہے، جس کے بغیر معاشرہ ترقّی اور استحکام کی راہ پر گام زن نہیں ہوسکتا۔ 

امن و سلامتی کے فروغ اورمثالی انسانی معاشرے کے قیام کے لیے’’وعدے کی تکمیل‘‘ ایک بنیادی ضرورت ہے، چناں چہ اسلام نے ایفائے عہد اور وعدے کی پابندی کو اَخلاقی اور قانونی دونوں حیثیتوں سے ضروری قرار دیا ہے، معاہدہ خواہ شخصی ہو یا اجتماعی، معاشی ہو یا تجارتی، صُلح کا ہو یا امن و امان کے قیام و بقا کا، اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ وعدہ اور معاہدہ کرنے کے بعد اس کی پابندی بہرصورت ضروری ہے۔

خالقِ کائنات نے وعدے کی تکمیل یا اُسے پورا کرنے کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی نسبت یہ فرمایا ہے،’’بے شک، اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔‘‘(سورۂ آلِ عمران/9)ایک اور مقام پر فرمایا گیا، ’’اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے۔‘‘ (سورۂ توبہ/14)۔

علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں،’’جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا سچّا اور عہد کا پکّا ہے، اسی طرح اُس کے بندوں کی خُوبیوں میں سے ایک بڑی کام یابی یہ ہے کہ وہ کسی سے جو وعدہ کریں، وہ پورا کریں، وہ جو قول و قرار کریں، اس کے پابند رہیں، سمندر اپنا رُخ پھیر دے، تو پھیر دے اور پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے، تو ٹل جائے، مگر کسی مسلمان کی یہ شان نہیں کہ زبان سے جو کہے، اُسے پورا نہ کرے اور کسی سے جو قول و قرار کرے، اُس کا پابند نہ رہے۔‘‘ 

وہ مزید لکھتے ہیں، ’’عام طور پر لوگ عہد کے معنیٰ صرف قول و قرار سمجھتے ہیں، لیکن اسلام کی نگاہ میں اس کی حقیقت بہت وسیع ہے، وہ اَخلاق، معاشرت، مذہب اور معاملات کی اُن تمام صورتوں پر مشتمل ہے، جن کی پابندی انسان پر عقلاً، شرعاً، قانوناً اور اَخلاقاً فرض ہے، اور اس لحاظ سے یہ مختصر سا لفظ انسان کے بہت سے عقلی،شرعی، قانونی، اَخلاقی اور معاشرتی فضائل کا مجموعہ ہے، اسی لیے قرآنِ کریم میں اس کا ذکر بار بار آیا ہے۔‘‘ (سیّد سلیمان ندوی/سیرت النبیؐ/6/254)۔

اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان اور بندگانِ خدا کے اوصاف میں ’’ایفائے عہد‘‘ اور وعدے کی تکمیل کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے، ’’اور اپنے عہد کو، جب وہ عہد کرلیں، پورا کرنے والے ہیں۔‘‘(سورۃالبقرہ/177)ایک مقام پر فرمایا گیا،’’اور جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔‘‘(سورۃ المعارج/32)’’سُورۃ النحل‘‘ میں انتہائی وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا، ’’اور اللہ کا نام لے کر جب تم باہم عہد کرلو، تو اسے پورا کرو، اور قسموں کو پکّی کرکے توڑا نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ کو تم نے اپنے اوپر ضامن ٹھہرایا ہے۔ بے شک، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ جانتا ہے۔‘‘(النحل/ 91)۔

مشہور مفسّر، امام رازیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں، ’’اس آیت میں عہد سے مُراد، ہر وہ معاہدہ ہے، جو انسان اپنے ارادے و اختیار سے اپنے ذمّے لیتا ہے۔‘‘ حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’وعدہ بھی ایک معاہدہ ہے۔‘‘ میمون ابنِ مہرانؒ کہتے ہیں کہ ’’اس سے مُراد یہ ہے کہ کوئی معاہدہ کرو، تو اُسے پورا کرو، خواہ تم نے مسلمان سے معاہدہ کیا ہو یا کافر سے، اس لیے کہ گویا عہد و معاہدہ تم نے کسی انسان سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے کیا ہے۔‘‘ (ملاحظہ ہو، جِلد دہم/109، دارالفِکر، بیروت)۔

اسلام میں عہد و پیمان کی اہمیت اور وعدے کی تکمیل کے حوالے سے ایک مقام پر فرمایا گیا،’’اور عہد کو پورا کیا کرو، کیوں کہ (روزِ قیامت) عہد کی باز پُرس ہوگی۔‘‘(سورۂ بنی اسرائیل/34)۔قرآنِ کریم کی یہ تمام آیات و تعلیمات اسلام میں ’’ایفائے عہد‘‘ اور وعدے کی تکمیل کا پتا دیتی ہیں۔رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے، ’’جس میں عہد (کا پاس و لحاظ) نہیں، اُس میں دین نہیں۔‘‘(احمد بن حنبل/المسند/3/135)اورحضرت انسؓ کی روایت کے مطابق رسولِ اکرم ﷺ کم و بیش ہر خطبے میں یہ ارشاد ضرور فرمایا کرتے تھے۔

ان تمام فرامین اور تعلیمات سے اس امرکی وضاحت ہوتی ہے کہ اسلام میں ’’ایفائے عہد‘‘ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، مزید یہ کہ عہد کی تکمیل اور وعدے کی پاس داری ایمان کی اساس ہے، جو اس کا پاس و لحاظ نہیں رکھتا، وہ گویا اسلامی تعلیمات سے دُور اور دین کی حقیقی رُوح سے محروم ہے۔ آج کی دنیا میں تجارت و معیشت میں ایفائے عہد، وعدے کی تکمیل اور کمٹمنٹ پوری کرنا ایک بنیادی ضرورت اور تجارت و معیشت کے استحکام کی ضمانت ہے۔ 

کاروباری معاہدوں پر گویا تجارت و معیشت کی کام یابی کا انحصار ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے اس ضمن میں انسانیت کی سب سے زیادہ راہ نُمائی کی ہے، اسلام کی تعلیمات اور پیغمبرِ اسلام ﷺکا اُسوۂ حسنہ ہمارے لیے لائقِ تقلید نمونہ ہے۔ آپؐ کی سیرتِ طیّبہ کا ایک روشن و درخشاں باب، دیانت و امانت ہے۔ آپؐ نے اسلام سے قبل ایک دیانت دار تاجر کی حیثیت اور ایک اَخلاقی معلّم کی حیثیت سے خُوب شہرت حاصل کی۔ قریشِ مکّہ میں آپؐ صادق و امین کے طور پر مشہور تھے۔ آپؐ نے شام، بصریٰ اور یمن کے تجارتی اسفار بھی کیے۔ 

اس حوالے سے آپؐ نے مثالی انسانی کردار کا مظاہرہ کیا، دیانت و امانت آپؐ کی تجارتی سرگرمیوں کی بنیاد تھی۔علامہ شبلی نعمانیؒ لکھتے ہیں کہ، ’’تاجر کے محاسنِ اَخلاق میں سب سے زیادہ نادر مثال’’ایفائے عہد‘‘ اور اتمامِ وعدہ کی ہوسکتی ہے، لیکن منصبِ نبوّت سے پہلے مکّے کا تاجرِ امینؐ، اس اَخلاقی نظیر کا بہترین نمونہ تھا۔‘‘ (سیرت النبیؐ 1/116، مکتبۂ مدنیہ، لاہور)۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک موقعے پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا،’’سچّا اور امانت دار تاجر انبیاؑء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘(ابنِ ماجہ/السنن، کتاب التجارت)۔

’’صادق اور امین‘‘ رسولِ اکرم ﷺ کا وہ روشن و درخشاں خطاب ہے، جسے بعثت اور اعلانِ نبوّت کے بعد بھی کفّارِ مکّہ اور آپؐ کے بدترین دشمن آپؐ کی سیرت و کردار کی عظمت کا ایک روشن حوالہ سمجھتے اور اس کا اعتراف کرتے نظر آتے تھے۔ 

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تجارت و معیشت کے حوالے سے رسولِ اکرم ﷺ کا اُسوۂ حسنہ اور ایفائے عہد یعنی وعدے کی تکمیل کے حوالے سے اسلامی تعلیمات، اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں مسلمان تاجروں کے تجارتی معاملات اور معاہدات کی بنیاد قرار پائے۔ 

اُنہوں نے ایفائے عہد، دیانت و امانت، معاہدوں کی پاس داری اور وعدوں کی تکمیل کی بدولت وہ روشن مثالیں پیش کیں، جنھوں نے دنیا بھر کے غیر مسلم معاشروںکو متاثر کیا، چناںچہ ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ مسلمان تاجروں کی دیانت و امانت، وعدے کی پاس داری اور سیرت و کردار سے متاثر ہوکر بہت سے غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہُوئے۔ 

دنیا کےایسے مختلف ممالک، جہاں نہ مسلم فاتحین آئے اور نہ تبلیغی مقاصد کارفرما ہوئے، دیکھتے ہی دیکھتے اسلام پھیلتا گیا اور یُوں دیانت و امانت اور وعدے کی تکمیل اسلام اور مسلمانوں کی شناخت بن گئی۔ اس کی روشن مثالیں اور اس سے متعلق تفصیلات معروف مغربی مورّخ ٹی ڈبلیو آرنلڈ کی مشہورکتاب’’دعوتِ اسلام‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ دیکھیے:

(T.W. Arnold/ The Preaching of Islam, New Delhi, Kitabistan)۔

حضرت عبداللہ بن ابی الحمساءؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’بعثت (اعلانِ نبوّت) سے قبل مَیں نے رسول اللہﷺ سے خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کیا تھا، کچھ معاملہ ہوچکا تھا، کچھ باقی تھا، مَیں نے وعدہ کیا کہ پھر آئوں گا۔ اتّفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ رہا، تیسرے دن جب وعدہ گاہ پہنچا، تو رسول اللہ ﷺ کو اُسی مقام پر منتظر پایا، لیکن آپؐ کی پیشانی پر بَل تک نہ آیا، صرف اس قدر فرمایا کہ تم نے مجھے زحمت دی، مَیں اسی مقام پر تین دن سے موجود ہُوں۔‘‘ (ابودائود/السنن۔ باب فی الوعد 5/218)۔

اس واقعے سے ایفائے عہد اور وعدے کی تکمیل کی اہمیت کااندازہ ہوتاہے۔ روایات کے مطابق، قیصرِ روم کے دربار میں مشرکینِ مکّہ کے سردار ابوسفیان نے (قبولِ اسلام سے قبل) رسول اللہ ﷺ کی سیرت و کردار سے متعلق جن سوالات کے جوابات دِیے، اُن میں وعدے کی پاس داری اور ایفائے عہد بھی شامل تھا۔ چناں چہ ابوسفیان نہ چاہتے ہُوئے بھی اعترافِ عظمت کے طور پر آپؐ کے متعلق یہ گواہی دینے پر مجبور نظر آئے(آپؐ صادق و امین ہیں)، آپؐ نے کبھی بدعہدی نہیں کی۔ (بخاری/ الجامع الصحیح، بابِ بدء الوحی 1/6)۔

’’صُلحِ حدیبیہ‘‘ وعدے کی پاس داری، عہد کی پابندی اورکمٹمنٹ پوری کرنے کی روشن اور تاریخ ساز دستاویز ہے۔ اس تاریخ ساز معاہدے میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ مکّے سے جو شخص اسلام قبول کرکے مدینے جائے گا، وہ اہلِ مکّہ کے مطالبے پر مکّہ واپس کردیا جائے گا، چناںچہ ابھی معاہدے کی شرائط لکھی جارہی تھیں کہ حضرت ابو جُندلؓ پابہ زنجیر اہلِ مکّہ کی قید سے نکل آئے اور رسول اللہ ﷺ سے مدد کے خواہاں ہُوئے۔ 

صحابۂ کرامؓ اس درد انگیز منظر سے تڑپ اُٹھے، لیکن وعدے کی تکمیل اور عہد کی پاس داری دیکھیے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو جُندلؓ سے فرمایا،’’صبرکرو، ہم بد عہدی نہیں کرسکتے، (وعدہ خلافی ہمارے شایانِ شان نہیں) اللہ تعالیٰ عن قریب تمہارے لیے کوئی راہ نکالے گا۔‘‘(بخاری/ باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اہل الحرب)۔ اسلام نے وعدے کی پاس داری اور معاہدات کے احترام اور انہیں پورا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ 

اسلامی تاریخ میں ایسی بے شمار روایات ملتی ہیں کہ وعدے کی پاس داری کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ معاہدات کا پورا پورا احترام کیا گیا، حتیٰ کہ غیر مسلم اقلیتوں سے بھی اگر وعدے اور معاہدات کیے گئے تو اُنہیں بھی احترام اور تحفّظ فراہم کیا گیا، ایسی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی رواداری اور وعدے کی پاس داری کی نشان دہی کرتی نظر آتی ہیں۔

شام اور حجاز کی سرحد پر عیسائیوں کا ایک مشہور طاقت وَر قبیلہ، بنو تغلب آباد تھا۔ ان سے خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے جان و مال کے تحفّظ پر ایک پُرامن معاہدہ کیا تھا، مشہور عبّاسی خلیفہ ہارون رشید اپنی سیاسی مصلحت کی بِنا پر اس معاہدے کو توڑ دینا چاہتا تھا۔ ایک دن دربار میں، جہاں مشہور حنفی فقیہہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ بھی موجود تھے، خلیفہ ہارون رشید امام محمدؒ کو تخلیے میں بُلا کر لے گیا اور کہا کہ ’’مَیں بنو تغلب کے عیسائیوں سے کیا گیا معاہدہ ختم کرکے انہیں قتل کروانا چاہتا ہوں۔‘‘ 

یہ سُن کر امام محمدؒ نے فرمایا کہ’’ حضرت عمرؓ نے انہیں امان دی ہے، اس لیے (شرعی طور پر) معاہدہ توڑنے کی گنجائش نہیں۔‘‘ خلیفہ نے پھر کہا کہ ’’حضرت عمرؓ نے انہیں اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے بچّوں کا بپتسمہ (عیسائی بنانا) نہیں کریں گے۔‘‘ امام محمدؒ نے کہا کہ ’’بپتسمہ کے باوجود انہوں نے معاہدۂ امن کیا تھا۔‘‘ اس پر ہارون رشید نے کہا کہ’’ حضرت عمرؓ کو ان سے جنگ کرنے کا موقع نہ مل سکا تھا۔‘‘ 

اس پر امام محمدؒ نے کہا کہ’’ اگر ایسا ہے، تو ان کے بعد حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو ان سے قتال کرنا چاہیے تھا، حالاں کہ انہوں نے ان سے کوئی تعارض نہیں کیا۔ ‘‘اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے انھیں غیر مشروط امان دی تھی، جب ہارون رشید سے کوئی جواب نہ بن سکا، تو امام محمدؒ کو دربار سے نکلوادیا۔ تاہم، وہ معاہدہ نہ توڑ سکا۔ (بحوالہ: مولانا مجیب اللہ ندوی/ اسلام کے بین الاقوامی اصول و تصوّرات، مطبوعہ دیال سنگھ ٹرسٹ، لاہور، 1990ء، صفحہ112)۔

یہ تعلیمات اور روشن مثالیں رسولِ اکرم ﷺ کے مثالی اُسوۂ حسنہ اور اسلامی تعلیمات میں وعدے کے ایفاء کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ گویا یہ اسلامی تعلیمات کی اَساس اور ایمان کی بنیادی علامت ہے۔ عبادات اور معاملات کی رُوح ہے۔ نیز، یہی دین و دنیا کی کام یابی، اعلیٰ انسانی اقدار کی پاس داری، اقوامِ عالم میں سُرخ روئی اور آخرت کی ابدی زندگی میں نجات کی کلید ہے۔