• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بےشمار نعمتوں سے نوازا ہے اور اُن میں سے کئی نعمتیں تو اتنی عظیم اور اَن مول ہیں کہ اگر ہم اُن میں سے کسی ایک سے بھی محروم ہوجائیں، تو اُس کا نعم البدل ملنا ناممکن ہے۔ مثلاً اگر ہم اپنی آنکھوں، ہاتھوں اور پیروں سمیت جسم کے دیگر اعضا کی اہمیت و افادیت ہی پر غور کریں، تو اندازہ ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ 

بدقسمتی سے اگر کسی حادثے یا بیماری کے سبب کسی کا کوئی عضو ناکارہ ہوجاتا ہے، تو تب ہی اُسے اُس کی اصل قدر وقیمت کا احساس ہوتا ہے۔ اور تب ہی یہ خیال آتا ہے کہ ہم زندگی بَھر اِس عضو سے کام لیتے رہے، لیکن کبھی اِس کی وقعت و اہمیت پرغور نہیں کیا اور نہ ہی اِس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شُکر بجا لائے۔

اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اُس کا شُکر ادا کرنا ہمارا اوّلین فرض ہے۔ مگر، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رب کا شُکر کیسے ادا کیا جائے؟ اگر ہم ’’الحمدُللہ‘‘ کی تسبیح پڑھتے ہیں، تو یہ اچّھی بات ہے، لیکن حقیقی شُکر گزاری تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شُکر بجا لائیں اور اُس کی عطا کردہ ہر نعمت کے قدر دان بن جائیں۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اگر تم نے شُکر کیا، تو مَیں تمہیں زیادہ عطا کروں گا۔‘‘ اِس ضمن میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’قیامت کے دن کہا جائے گا، حمد کرنے والے کھڑے ہو جائیں، تو لوگوں کا ایک گروہ کھڑا ہوجائے گا۔ 

اُن کے لیے جھنڈا لگایا جائے گا اور وہ تمام لوگ جنّت میں جائیں گے۔‘‘ پوچھا گیا، ’’یارسول اللہ ﷺ! حمد کرنے والے کون ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’جولوگ ہرحال میں اللہ تعالی کا شُکر ادا کرتے ہیں۔‘‘ ایک دوسری روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ ’’جو ہر دُکھ سُکھ میں اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرتے ہیں۔‘‘ یعنی ہرحال میں اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرنا بہت بڑی بات ہے، کیوں کہ انسان کے حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔ انسان کی زندگی میں غم بھی آتے ہیں اور آزمائشیں بھی، لیکن جو انسان ہر حال میں ربّ تعالیٰ کا شُکر ادا کرتا ہے، وہی اُس کی نعمتوں کا حقیقی قدردان ہوتا ہے۔ 

اگر اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے، تو شُکر ادا کرنے والا خرچ کرتا ہے اور دوسروں میں بانٹنا شروع کرتا ہے۔ دوسروں کے دُکھ، درد محسوس کرتا ہے اور اپنے قول و فعل سے انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ یاد رہے کہ مال جمع کرنے والا کبھی بھی شُکر گزار بندہ نہیں بن سکتا، کیوں کہ شُکر گزاری مال اکٹھا کرنے میں نہیں، بلکہ سخاوت میں پوشیدہ ہے۔ نیز، جب بھی کوئی انسان، ربّ تعالیٰ کی نعمتوں کا شُکر ادا کرتا ہے، تو خود کو روحانی طور پر بھی بہت طاقت وَر محسوس کرتا ہے۔

علاوہ ازیں، روزمرّہ معمولات کے دوران اپنے گھر، محلّے، دفتر یا دُکان میں ہر اُس انسان کا شکریہ ادا کریں، جس نے آپ کے لیے راحت و آسانی کی کوئی سبیل پیدا کی بلکہ ہراُس فرد کا شکریہ ادا کریں کہ جو آپ سے کسی نہ کسی طور پر منسلک ہے، اور آپ کے لیے کسی دُکھ کے بجائے سُکھ کا باعث بنتا ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم دوسروں سے بڑے بڑے کام تو لے لیتے ہیں لیکن پھوٹے منہ سے اُن کا شکریہ تک ادا نہیں کرتے۔ آپ دو دن مسلسل کسی شخص سے اُجرت پر کوئی چھوٹا سا کام کروائیں۔

ایک دن اُس کا شُکریہ ادا نہ کریں اوردوسرے روز خلوصِ دل سے ممنونیت کا اظہار کریں، تو آپ دیکھیں گے کہ اُس کا چہرہ کیسے جگمگا اُٹھے گا اور پھرآپ کو بھی تادیر طمانیت کا احساس رہے گا۔ یاد رہے کہ اگر آپ میں لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کی عادت نہیں، تو آپ اپنے مالک کا شُکر بھی ادا نہیں کر سکتے، کیوں کہ حدیثِ رسول ﷺ ہے کہ ’’جو لوگوں کا شُکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا بھی شُکر ادا نہیں کرتا۔‘‘ لہٰذا، ہمیں ہر وقت اورہرحال میں اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کا شُکرادا کرتے رہنا چاہیے۔

شُکر گزاری بہ ظاہر تو ایک چھوٹا سا عمل ہے، لیکن یہ رُوح کے ساتھ ساتھ ہماری جسمانی و ذہنی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتّب کرتا ہے۔ متعدّد تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچُکی ہے کہ جذبۂ شُکرگزاری انسان کی خوشیوں میں اضافے اور پُرسکون نیند کا سبب بنتا ہے۔ جب کہ یہ روحانی طاقت اور اعتماد بھی فراہم کرتا ہے۔ 

نیز، اِس عمل سے مندرجہ بالا فوائد کے علاوہ خالق ومخلوق دونوں ہی کی محبوبیت کا حصول بھی ممکن ہے، کیوں کہ ایسے عاجز، منکسر المزاج اور خُوش خلق لوگوں سے ہر فرد ہی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ اور پھر جس سے خلقِ خدا راضی ہو، اُس سے خالقِ کائنات کی ناراضی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یعنی صرف اِک’’جذبۂ شُکر گزاری‘‘ ہی سے انسان کے لیے دُنیا و آخرت میں کام یابی کی راہیں خُود بخود ہم وار ہوتی چلی جاتی ہیں۔