• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر کے سب سے مقبول کھیل کرکٹ کا ٹی20 ورلڈ کپ اس مرتبہ امریکہ اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہو رہا ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ اس ٹورنامنٹ میں 20ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں قبل ازیں 2007سے لیکر 2012تک ہونے والے ورلڈ کپ مقابلوںمیں 12،12 ٹیموں نے شرکت کی تھی جبکہ 2014 سے 2022 کے درمیان کھیلے گئےٹی20 ورلڈ کپ کے مقابلوں میں ٹیموں کی تعداد 16 تھی۔ویسٹ انڈیز اس سے قبل 2010 کےٹی20 ورلڈ کپ کی میزبانی کر چکا ہے جبکہ امریکہ پہلی مرتبہ اس کھیل کی میزبانی کرے گا۔امریکہ کی میزبانی علامتی طور پر اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ اس سے قبل چین کھیلوں کے مختلف مقابلوں میں اپنی برتری ثابت کر رہا ہے۔انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے کرکٹ کے لیے ایک نئی مارکیٹ دریافت کرنے کیلئے چائنہ کے بجائے ایک دور دراز لیکن بڑے ملک امریکہ کا انتخاب کیا ہے جہاں پر کرکٹ کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ توقع یہی ہے کہ امریکی انتظامیہ اب کھیل ڈپلومیسی کے ذریعے بھی دنیا پر اپنی برتری ثابت کرنے کا ایک تاثر دے گی۔ بعض مبصرین کی رائے میں امریکہ کیلئےکرکٹ کوئی نیا کھیل نہیں بلکہ آج سے 300 سال قبل برطانوی ٹیم نے آسٹریلیا کے دورے سے بھی پہلے امریکہ کا دورہ کیا تھا لیکن اس وقت کے سیاسی حالات کھیل پر اثر انداز ہوئے اور کرکٹ کو امریکہ میں جگہ نہ مل سکی اور بیس بال امریکیوں کا مقبول کھیل قرار پایا۔امریکہ میں کرکٹ شائقین کی زیادہ تعداد تارکین وطن پر مشتمل ہوگی۔ کہا جا رہا ہے کہ سب سے زیادہ شائقین ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے ہوں گے اس کے بعد بھارت اور پاکستانی شائقین کا نمبر آئے گا دیگر ممالک کے شائقین بھی کسی سے پیچھے نہیں ہوں گے۔2024 کے ورلڈ کپ کیلئے روایتی فارمیٹ اختیار کیا گیا ہے ۔

اس بار بھی ٹی 20 ورلڈ کپ تین مراحل پر مشتمل ہوگا۔ ان تین راؤنڈز میں گروپ مرحلہ، سپر ایٹ اور پھر ناک آؤٹ مرحلہ یعنی سیمی فائنل اور فائنل شامل ہیں۔اس سلسلہ میں چار گروپ بنائے گئے ہیں۔ ہر گروپ میں پانچ ٹیمیں ہیں جو پہلے مرحلے میں آپس میں کھیلیں گی اور پھر ہر گروپ میں پہلی دو پوزیشنز حاصل کرنے والی ٹیمیں سپر ایٹ مرحلے میں جگہ بنائیں گی۔سپر ایٹ مرحلے میں پہنچنے والی آٹھ ٹیمیں ایک دوسرے کے مدِمقابل آئیں گی اور ان میں سے ابتدائی چار پوزیشنز لینے والی ٹیمیں آخری مرحلے یعنی ناک آؤٹ اسٹیج میں پہنچیں گی جہاں دو سیمی فائنلز اور پھر فائنل ہو گا۔

اس بار پاکستانی کرکٹ ٹیم کو گروپ اے میں رکھا گیا ہے اور اس گروپ میں اس کے روایتی حریف انڈیا کے علاوہ کینیڈا، آئرلینڈ اور امریکہ کی ٹیمیں شامل ہیں۔پاکستان اس ورلڈ کپ کیلئے کس حد تک تیار ہے اس کا اندازہ لگانا اس مشکل نہیں۔غیر روایتی تربیت حاصل کرنے کے باوجود برطانیہ نے جس بری طرح پاکستانی ٹیم کو شکست سے دوچار کیا وہ پوری قوم کیلئے افسوس کا باعث ہے۔یادش بخیر اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی ایک مصروف ترین شخصیت کے پاس ہے جو بیک وقت پاکستان کے وزیر داخلہ بھی ہیں، سی ڈی اے کے چیئرمین بھی اور انہی کے کندھوں پر کرکٹ بورڈ کی سربراہی بھی ہے۔ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اتنا مصروف شخص کس طرح اس کھیل کو وقت دے گا۔ایک ایسا ملک جو ہر وقت داخلی طور پر مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے اس کا وزیر داخلہ کس طرح کرکٹ کے میدانوں میں پاکستانی جھنڈا بلند کرے گا۔پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم گزشتہ ایک دہائی سے کرکٹ کے میدانوں میں چھائے ہوئے ہیں اور پاکستانی قوم نے انہیں ہر طرح کے اعزاز اور اکرام سے بھی نوازا ہے لیکن گزشتہ کئی سال سے ان کی کارکردگی محل نظر ہے۔محمد عامر جیسے متنازع کردار کے حامل کھلاڑی کو ٹیم میں جگہ دی گئی ہے جو کئی سال سے کھیلوں کے میدان سے بھی باہر ہیں اور ان کی پرفارمنس بھی تسلی بخش نہیں۔بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ جیسے ٹیم میں’’بھرتی‘‘کے کھلاڑیوں کی اکثریت ہے اور ایسے ایسے کھلاڑی بھی ٹیم کا حصہ ہیں جو اپنی صحت اور جسامت کے باعث کبڈی یا رسہ کشی کے مقابلے کے کھلاڑی تو قرار دیے جا سکتے ہیں لیکن کرکٹ کے ہرگز نہیں۔مہنگائی، غربت،دہشتگردی اور دیگر کئی مصیبتوں کی شکار پاکستانی قوم کی ذہنی تفریح کا واحد سامان کرکٹ کا کھیل رہ گیا ہے جو اس وقت مختلف قسم کے تجربات سے گزر رہا ہے۔بدقسمتی سے پاکستانی کرکٹ کا کوئی شعبہ بھی قابل فخر کارکردگی نہیں دکھا رہا باؤلنگ،بیٹنگ اور فیلڈنگ روبہ زوال ہیں۔دس دس سال تک انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے والے انگلش تو کجا اردو اور مادری زبانوں میں بات کرنے سےبھی قاصر ہیں۔یہ درست ہے کہ کھلاڑیوں کا کام میڈیا ٹاک نہیں لیکن اب یہ بھی کھیل کا حصہ ہے۔ماضی میں شعیب اختر،وقار یونس،وسیم اکرم اور کئی دوسرے کھلاڑیوں نے کم تعلیمی پس منظر کے باوجود خود کو اہل بنایا۔اب تو کرکٹ مینجمنٹ سے لیکر ٹیم تک سب کچھ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت چل رہا ہے۔اس کے باوجود پاکستانی ٹیم سے بے پناہ توقعات وابستہ ہیں۔امریکی سفیر نے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے جبکہ سعودی سفیر نے ورلڈ کپ جیتنے کی صورت میں اگلے حج پر شاہی مہمان بنانے کی خوشخبری بھی سنائی ہے۔میں حکومت سے گزارش کروں گا کہ وہ کرکٹ بورڈ کے لیے فل ٹائم سربراہ منتخب کریں تو یہ کرکٹ کے لیے نیک شگون ہوگا۔بزرگ کھلاڑیوں کے بجائے نوجوان ٹیلنٹ کو سامنے لائیں سفارشی کلچر سے نجات حاصل کریں۔کھلاڑیوں کی گرومنگ پر خصوصی توجہ دی جائے کہ وہ بیرون ملک پاکستان کے سفیر ہوتے ہیں۔پوری قوم کی دعائیں کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہیں شاید دکھوں کی ماری قوم کو خوشی کے چند لمحات میسر ا ٓ سکیں۔

تازہ ترین