افسوس، اس ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے امید کی کوئی رمق ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ سماجی تقسیم کے آر پارعملی طور پر ایسا کوئی نہیں جو ابھی تک یہ سوچتا ہو کہ اسے یا اسکے اہل خانہ کویہاں رہنے کا کوئی فائدہ ہو گا۔ دولت مند تو اپنے اثاثے، جو اکثر ناجائز ذرائع سے اکٹھے کیے ہوتے ہیں، بیرونی ممالک بھیج کر خود بھی وہیں چلے جاتے ہیں۔ غریب افراد بہتر مستقبل کی توقع میں وہاں جانا چاہتے ہیں کہ ان کی صلاحیتوں کی قدر ہو گی، ان کی محنت کا پھل ملے گا۔
ناامیدی کی دھند یک لخت گہری نہیں ہوئی، بہت دیر فضا بوجھل ہو رہی تھی۔ حکمران اشرافیہ نے اس پر کوئی توجہ نہ دی کیونکہ وہ ملک کو لوٹنے اور اسکے وسائل سمیٹنے کے نت نئے طریقے دریافت کرنے میں مگن تھی تاکہ دولت کے انبار اکٹھے کر کے بیرونی ساحلوں تک پہنچا سکے۔ وہ اس زرگری میں اتنی منہمک رہی کہ دیگر امور کی طرف دھیان ہی نہ گیا، جن میں ملک کی بتدریج تباہی سب سے اہم تھی۔
عام طور پر ریاستی اداروں کی فعالیت سے نخل امید پھوٹتا ہے۔ اپنی کارکردگی سے وہ لوگوں کے دلوں میں ایسا جوش و جذبہ پیدا کرتے ہیں جس سے ترقی کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ عبور کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر ادارے اس لیے غیر فعال ہوں کہ ان کی شفاف اور موثر کارکردگی مفاد پرست ٹولے کو راس نہیں آتی، خاص طور پر جن کے ہاتھ ملک کی باگ ڈور ہو، تو پھر جمود کی سڑاند پھیلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہم نے گزشتہ کئی عشروں سے یہاں یہی کچھ ہوتے دیکھا ہے۔
اگرچہ صاحبان اقتدار یہ بات تسلیم نہیں کریںگے، لیکن حقیقت ہے کہ ملک ایک کھائی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اسے گرانےکیلئے ایک جھٹکا ہی کافی ہو گا۔ جس دوران ہمارے قرض کا کوہ گراں بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے، اب ہمیں ماضی میں لیے گئے اربوں ڈالر قرض پر سود ادا کرنے کیلئے بھی قرض کی ضرورت ہے۔ چنانچہ عمدہ تراش خراش کا سوٹ پہنے، ہاتھوں میں کشکول لیے ملکوں ملکوں گھومتے ہیں۔ کبھی اس ادارے سے التجا، کبھی اُس سے نظر کرم کی فریاد۔ زبانی بیانات کے علاوہ ہم بمشکل ہی کچھ حاصل کر پاتے ہیں۔ لیکن شرم تو ہمیں چھو کر بھی نہیں گزری، دل پر بوجھ محسوس کیے بغیر مزید قرض کے مشن سے دست کش ہونے کا نام نہیں لیتے۔
ہمارے سامنے ایک ایسا دیوہیکل چیلنج ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ مہیب تر ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن اس کی سنگینی کا احساس کرنے یا اس کا تدارک کرنے کیلئے پرمغز اجتماعی طرز عمل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ہم پرسیاسی مخالفین کو ختم کرنے کی دھن سوار ہے، اور ایسا کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ اس کی قیمت ریاست اور اس کے مفادات کی صورت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ اس طرزعمل کی وجہ سے ہم صرف قوموں کی برادری میں ہی اجنبی نہیں ہوتے جا رہے، یہ ہمیں بے وقعت اور ناقابل اعتبار بھی بنا رہا ہے۔ چنانچہ ہمیں درپیش چیلنج مزید مشکل اور گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ایک مرتبہ جب کسی کو اقتدار کے ایوان میں متمکن کر دیا جاتا ہے تو وہ اور جوان پر کمان رکھتے ہیں، وہ اپنے ناقص منصوبے کے ممنون رہتے ہیں جس میں صورت حال گڈ مڈ ہو جاتی ہے۔
جب کسی نے سوچا کہ اس گہری دلدل سے کوئی باہر نہیں آسکے گا، تو اندھیرے کی گھاٹیوں میں ایک روشنی کا کوندا لپکا۔ یہ برق فروزاں عدلیہ کے ایوانوں میں چمکی۔ پاکستان کی ادارہ جاتی تاریخ کے تاریک ترین ابواب میں سے ایک کا اسکرپٹ لکھنے کے بعد، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے گھٹن سے آزاد ہونے اور کاغذ کے ٹکڑے پر اپنی کہانی لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ایگزیکٹو اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارندوں کے دباؤ کا شکار ہونے کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے سپریم جوڈیشل کونسل سے رابطہ کیا تاکہ دوسرے ججوں سے ان کے تجربات سننےکیلئےایک کنونشن بلایا جائے۔
لیکن چھ ججوں کی اصل کوشش نے بہت سے دوسرے لوگوں کو حوصلہ دیا ہے۔ انھوں نے آئین اور قانون کے مطابق حلف کا احترام کرتے ہوئے اپنے فیصلوں کے ذریعے دل کی بات کہنا شروع کر دی ہے۔ اس سے پورے ادارے کی شکل و صورت بدل گئی ہے جو اب غلامی اور محکومی کی زنجیروں سے آزادی اور امید بھری صبح کی روشنی کا خواہاں ہے۔ اگرچہ عدلیہ نے ایک نیا راستہ اپنا لیا ہے، لیکن دیگر ادارے اور انکے کارندے ابھی تک ماضی میں الجھے توہین آمیز طرز عمل اختیار کیے ہوئےدکھائی دیتے ہیں۔ اس کے پیچھے کارفرما وجوہات میں خوف سے لے کر عشروں پر محیط جمود اورن اجائز ذرائع سے حاصل کیے گئے اربوں روپے ہوسکتے ہیں جن کا تحفظ طاقتور حلقوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
عدالتی فورمز سے روشنی پھوٹنے کے باوجود مجموعی صورت حال مایوس کن ہے۔ ارباب اختیار کی طرف سے کسی بھی اہم اقدام کے بغیر کارندے اپنے روایتی طور طریقے ہی جاری رکھیں گے۔ اس طرح ایک غیر آئینی اور غیر قانونی اتھارٹی کو تقویت ملتی ہے جو اپنی گرفت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، جسے ماضی میں ریاست اور عوامی مفادات کو بے اندازہ نقصان پہنچانے کیلئے بے رحمی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس نے پاکستان کو وقت کے گرداب کا اس طرح اسیر بنا کر رکھ دیا ہے کہ یہ غاصبوں کی دراندازی کے خلاف مزاحمت کے جذبے اور کامیابی کی امید سے تہی دامن ہو چکا ہے۔
تباہ حال ماضی سے پیچھا چھڑانے کا عمل مشکل اور تکلیف دہ ہے کیوں کہ ایسا کرتے ہوئے اُس اضافی طاقت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے جس کا انسان عادی ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن اگر پاکستان کو قائم رہنا اور بحالی کے راستے پر واپس آنا ہے تو صرف یہی ایک راستہ باقی ہے :اقتدار ان کے پاس ہو جو عوام کا مینڈیٹ رکھتے ہیں۔ ایسے لیڈروں کی جگہ موت کی کوٹھڑی نہیں، وہ لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ وہ اپنے مزاحمتی گیت گاتے اور روشنی کی کرنیں پھیلاتے رہیں گے۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں)