• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ مملکت ِ خداداد کی جان، مسلم لیگ کے منشور کا حصہ ۔ عظیم قائد نے کشمیر کو شہ رگ بتایا ،وائے بدنصیبی ریاست کشمیر کی جان کولالے، کہاںشہ رگ اور کہاں ثانوی رگ۔ عالمی افق پر نئی ابھرتی ہوئی طاقت روس نے ’’جب یہ لاٹھی میری ہے تو بھینس کیوںتمہاری ہے ‘‘ کے اصول پرصوبہ کریمیا کے لیے ’’حق خودارادیت ‘‘ نافذکیاتو مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا ایک نادر موقع بھی ابھر چکا ۔ جزیرہ نما کریمیا یوکرائن کا بڑا صوبہ کثیر تعداد میں روسی آباد ، 92 فیصد آبادی نے روس سے الحاق کا فیصلہ صادر فرما دیا۔امریکہ اور مغربی ممالک کی گیڈر بھبکیاں کسی کام میں نہیں،آج کریمیا ایک آزاد ریاست، روس سے الحاق شدہ۔ کریمیا کے ریفرنڈم نے وطن ِ عزیزکی کسمپرسی کا قلق بڑھا دیا ۔65سال پرانی یواین قراردادیں جس کی بھارت نے توثیق کی ،مکر گیا،آج کشمیری غلامی کی عمیق گہرائیوں میں۔ کیا کریمیا میں ریفرنڈم اور اس کا روس سے الحاق ادھ موئے مسئلہ کشمیر میں جان ڈال سکتا ہے؟کیاکریمیا کی آزاد حیثیت کوفوری طور پر تسلیم کرکے روس کو اپنے حق میں مائل اور کشمیر پر اپنے اخلاقی موقف کو مستحکم کرنے میں پیش رفت ممکن ہے؟ بھلے سے نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی سہی ،ہمیں کشمیر کا ڈھول پیٹتے رہنا ہو گاکہ مسئلہ کشمیر آج بھی اقوامِ عالم کا منہ چڑھا رہا ہے۔ حکمران عالمی دبائو میں، بھارت پر’’ صدقے واری کا ناٹک‘‘کھیلنے پر مجبور ۔حافظ سعید صاحب صرف اس لیے مشقِ ستم کہ کشمیر یوںکے’’حق خودارادیت‘‘ کے داعی، امریکہ ، بھارت اوران کے وطنی پیٹھوئوں کی زد میں رہنا، ان کا اعزاز۔حکمران جلدی میں ، بھارت کے ساتھ تجارت کی پینگیں بڑھانا اور بھارتی سرحدوں سے فوجیں ہٹانا ہی وطن عزیز کا مقصد ومقدر؟ نواز شریف صاحب تو اقتدار میں آنے سے پہلے ہی بھارت کو جپھی ڈالنے پر بے قرارجبکہ بھارت عمران خان کا دوسراگھر، بھارتی سرزمین پر مدح سرائی واپسی پر وضاحتیں۔چند ماہ پہلے بھارت میں کیا بیان داغا؟کہ’’ بھارت اور پاکستان اپنی سرحدوںپر مشترکہ نیوکلیئر پروگرام ترتیب دیں‘‘ ۔ گارنٹی کرتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں قائدین کی معلومات ہائی اسکول کے طالب ِعلم جتنی ۔ ’’نئی ‘‘پیپلز پارٹی کا ٹریک ریکارڈ شاید اس لیے بُرا نہیں کہ ہمیشہ سیکورٹی رسک قرار پائی، ’’ اصحاب کہف ‘‘ فضل الرحمٰن، الطاف حسین، اسفند یار ولی قومی مفاد کے ایشوز پر’’نام ہی کافی ہے‘‘۔ کریمیا میںریفرنڈم اور روس سے الحاق مملکت خداداد کے لیے نعمت ِغیر مترقبہ ،کیا ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا پائیں گے ؟ پاکستانی سیاست کا خلاصہ، ہمارے قائدین بیچ چوراہے میں بھی کوئی ہلکا کام کرتے پکڑے جائیںباآسانی بہترین قومی مفاد کے پیرائے میں فٹ کر جاتے ہیں ،اپنے مروجہ کرتوتوں کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں ،’’ پارلیمنٹ کی کہانی جمشید دستی کی زبانی ‘‘،کرپشن ، خیانت ، جھوٹ، منافقت مجال ہے قائدین کا بال بھی بیکا کر سکیں ۔وطن ِ عزیز کی سیاست، نوراکشتی۔عرصہ دراز سے چھوٹی برائی بڑی برائی سے دست وگریباں۔آج کل تحریک انصاف چھوٹی برائی کا مقام حاصل کرنے کی تگ ودو میں ۔جبکہ سارے سیاسی کارکن باجماعت اپنے اپنے قائدین کی ستر پوشی میں مصروف کہ دوسری چوائس ہے ہی نہیں۔
میر کیا سادہ ہیں ،بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
برادرم حسن نثار کی35سال پہلے لکھی معرکۃ الآراء کتاب’’آدھی ملاقات‘‘دلچسپ عنوان، نواز عمران ملاقات پر فٹ۔اس سے قبل نواز شریف نے قومی مفاد میںبلاول کا دایاں ہاتھ پکڑ کر تھر کادورہ کیابعد ازیںعمران خان کے بلانے پر بنی گالہ جا پہنچے کہ ’’آپ بلائیں اور ہم نہ آئیں ایسی توکوئی بات نہیں‘‘۔ میاں صاحب کا برجستہ فقرہ ’’آپ نے بلایا ہم حاضر ہوگئے‘‘ ، عمران نے اپنا بایاں بازوتھمادیا۔ ’’اہم قومی مفاد‘‘ میں ہونے والی ملاقات میں بنی گالہ کاگھر، خانصاحب کے جوتے ، خاطر مدارت وغیرہ وغیرہ زیربحث رہے۔دوران گفتگو چوہدری نثارنے میاں صاحب کی توجہ مبذول کروائی کہ خانصاحب سے کوئی اہم خفیہ بات؟تخلیہ چاہیے؟ میاں صاحب کا تُرت جواب ’’خفیہ باتیں سینکڑوں ہیں،ہم تو جمخانہ کلب کرکٹ اکٹھے کھیل چکے ہیں، آپ کا اشارہ کس خفیہ بات کی طرف‘‘، یعنی کہ عزت مآب وزیراعظم نے چوہدری نثار کو’’ فیس سیونگ‘‘ دینے سے انکار کر دیاکہ ’’قومی مفاد‘‘ کی سینکڑوںخفیہ باتیں درجنوں افراد اور میڈیا کی موجودگی میں ہی مؤثر ۔ اس بے مقصد ، بے مصرف ملاقات نے عمران کی سیاسی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا یا۔ اگلے دن اخبارات کی زینت بننے والے ایشوز نے تضحیک میں اضافہ ہی کیا۔ وزیراعظم کی موجودگی کا خاطر خواہ فائدہ، عمران خان کے ذاتی مسائل چھائے رہے،اپنے پیارے گھر کے گردونواح میں تجاوزات ہٹانے سے لے کرخیبر پختونخوا میں چیف سیکرٹری مرضی کا لگانے تک، احتیاط لازم چنانچہ کہیں بھی 35پنکچر، دھاندلی، مہنگائی کچھ بھی آدھی ملاقات کاحصہ نہ رہے ۔ باقی پورا گھنٹہ چٹکلوں، لطیفوں، قہقہوں، ٹھٹھوں سے مزین رہا۔ اگلے دن چھپنے والی، تصویر نہیں ہزارداستان تھی،الف لیلوی کہانی بہت کچھ بتا رہی تھی، چھپا رہی تھی۔ تصویر کا بنظر غائز جائزہ،عمران خان 6 فٹ سے ذرا لمبے جبکہ عزت مآب وزیراعظم 5فٹ 8 انچ کے لگ بھگ، تصویر میں عمران خان وزیراعظم سے چند انچ نیچے، عمیق گہرائی میں، لجاجت، شرم میں سرجھکاہواآدھا چہرا چھپا ہوا،جبکہ نواز شریف کی فخر سے تنی گردن نمایاں،چہرہ پورا سامنے۔ جس طرح یہ تصویر کراچی تا پشاور، انگریزی ، اردو، مقامی اخباروں میں بااہتمام شائع کروائی گئی یقیناً بھائی جان پرویز رشید یا برادرم محی الدین وانی کی کارستانی ۔ دونوں بھائیوں کوایسی شرارت پر فل مارکس ،آنے والے دنوں میںPTI کی لُٹیا ڈبونے کے لیے یہ تصویر ہی کافی ، ہمیشہ کے لیے سوہانِ روح۔ "Tiger Tamed" یہ وہ ہیڈ لائن تھی جو گارڈین نے جنرل نیازی کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے پر لگائی۔ اس ساری گہما گہمی میں میری جستجو کہ ’’ہمارے ٹائیگر‘‘ کو ٹیم(Tame) کس نے، کیسے کیا ؟ چوہدری نثار سے میری دیرینہ یاد اللہ اور ان کی ذہانت ، فطانت کا عہد طالب علمی سے معترف ، یقیناً یہ ’’جن‘‘ بوتل میں چوہدری نثار علی نے ہی بند کیا ۔عمران خان نے الیکشن کمپین میں چوہدری نثار پر کرپشن کے جو الزامات عائد کیے تھے گو ان میں سچائی ناپید مگر’’ حرفِ عمران، کارکنانِ تحریک ِ انصاف کیلئے حرفِ آخر‘‘، کارکنان آج بھی چوہدری نثار اور اس کے قائد کو پاکستان کی تاریخ کے اچھے حکمرانوں میں شمار کرنے کیلئے تیار نہیں۔
چوہدری صاحب بڑے دل گردے، بے پرکی اُڑانے والوں کو معاف کرنے والے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ساکھ میں بہتری لاتا ،اس یک طرفہ’’آدھی ملاقات‘‘ کے ’’اکٹھ ‘‘میں چوہدری نثار سے معافی مانگ لیتا،بے سروپا الزامات واپس لینے میں خانصاحب کی اپنی بڑائی ، جبکہ چوہدری صاحب نے خان صاحب کواپنے احسانات سے مالا مال کررکھا ہے گو اپنے دوست کی احسان فراموشی کی جبلت سے کماحقہ واقف۔کیا کیا جائے طوطا چشمی بھی ایک خصلت، چھٹکارا ممکن نہیں چنانچہ چوہدری صاحب سے مودبانہ عرض ’’رات کی بات کا کہنا ہی کیا؟ رات گئی بات گئی‘‘ ۔شیخ رشید کی بات صائب کہ ’’اب اکیلا شیخ رشید ہی اپوزیشن ‘‘۔ بقول شیخ صاحب’’ دہشت گردوں پر تو ساری قیادت ہمیشہ سے ایک صفحہ پرتھی چنانچہ ’’آدھی ملاقات‘‘ سمجھ سے بالاتر، مک مکاکے علاوہ کچھ بھی نہیں‘‘ شیخ صاحب شاکی بھی کہ ’’میرے ٹی وی پروگرامزمیں 12/14 منٹ عمران کے بارے میں سوالات میرے ٹی وی ٹائم کا ضیاع‘‘۔ شیخ صاحب غصہ تھوک دیں کہ پچھلے سال تحریک انصاف کو اپنے ہر پروگرام میں 12/14 منٹ آپ پر وضاحتیں دینے میںخرچ کرنا پڑے ۔ برداشت کریں، اللہ کرے آپ اپوزیشن صدقِ دل سے کریں، آدھی ملاقات سے بچیں،حکومت موجود، اپوزیشن لاموجود،ایک خلاء جو پُر ہونے کو۔
تازہ ترین