وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں جس میں ملک کی پوری سیاسی اور عسکری قیادت شریک تھی، چاروں صوبوں سمیت تمام فریقوں کے اتفاق رائے سے ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو از سر نو متحرک کرنے کیلئے ’آپریشن عزم استحکام‘ شروع کرنے کی منظوری دے کر بلاشبہ ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو وقت کا ناگزیر تقاضا تھا۔ پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کے بنیادی اسباب میں سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی سرفہرست ہیں۔ چین اور پاکستان کے دیگر دوست ممالک نے بھی اس امر کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ سیاسی استحکام کیلئے ناگزیر ہے کہ کاروبار مملکت مکمل طور پر آئین و قانون کے مطابق چلایا جائے اور تمام ریاستی ادارے اپنے اپنے آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں انجام دیں ۔ دہشت گردی کے فتنے سے نمٹنے کیلئے بھی، جس کے پیچھے داخلی عوامل بھی کارفرما ہیں اور خارجی بھی ،قومی اتفاق رائے اسی طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ملک کے دو صوبے بلوچستان اور خیبرپختونخوا حالیہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ بلوچستان میں عشروں سے جاری سیاسی بے چینی اور احساس محرومی نے وہاں علیحدگی پسندی کے جذبات کو جنم دیا اور یوں پاکستان مخالف بیرونی طاقتوں کو ناراض بلوچ نوجوانوں کو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کے مواقع میسر آئے جبکہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے واقعات میں بالعموم افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے
مختلف پاکستان دشمن گروہ ملوث ہیں لیکن بدقسمتی سے موجودہ افغان حکومت بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود ان گروہوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکنے میں ناکام ہے۔ دہشت گردی کے فتنے کا قلع قمع کرنے کیلئے ضروری ہےکہ ماضی کی طرح ایک اور بھرپور اور ملک گیر آپریشن شروع کیا جائے۔ ایپکس کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے تحت کسی استثنا کے بغیر کسی کو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، دہشت گردی مقدمات میں رکاوٹ بننے والے قانونی سقم دور کیے جائینگے، متفقہ قومی بیانیے کو فروغ دینے کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھی مؤثر استعمال کیا جائیگا۔ اجلاس میں وزیراعظم نے بجا طور پر صراحت کی کہ سیکورٹی معاملہ صرف فوج پر چھوڑنے کی روش خطرناک ہے، دہشت گردی میں مبتلا غیر مستحکم ریاست میں اچھی معیشت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، طاقت کے تمام عناصر کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔دہشت گردی سے نمٹنے کی ذمہ داری تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کیساتھ ساتھ اداروں پر عائد ہوتی ہے،ملک سے اس لعنت کے خاتمے کیلئے اجتماعی اور مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے، دہشت گردی اور جرائم، منشیات، اسمگلنگ، انتہا پسندی اور مذہبی منافرت کے درمیان مہلک رشتہ ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کی بھرپور نشان دہی کی کہ پاکستان میں پائیدار ترقی کیلئے استحکام اور قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔وزیر اعظم کا یہ موقف یقینا حقائق کے عین مطابق ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ بھی آئین اور قانون کے تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے ہی ممکن ہے۔ ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے بغیر کی جانیوالی کارروائیاں جن میں لاپتہ افراد کا مسئلہ بہت نمایاں ہے ایک طرف متاثرہ خاندانوں میں ملک مخالف جذبات کو فروغ دیتی اور دوسری طرف عدالتوں میں پسپائی کا سبب بنتی ہیں۔آپریشن عزم استحکام میں آئین و قانون کے تقاضے ملحوظ رکھے گئے تو ان شاء اللہ اسے مکمل قومی تائید حاصل ہوگی اور دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ یہ ملک میں پائیدار استحکام اور معاشی و سماجی حالات میں بہتری کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔