مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
گزشتہ دنوں مَیں نے اپنے والد مرحوم، سیّد شہزاد حسین (کوثر سلطان پوری) کے راحت کدے سے واپس اپنے گھر آتے ہوئے، والدہ کو اللہ حافظ کہا، تو اُنہوں نے خیریت سے گھر پہنچنے کی دُعا دی۔ اُن کی دعائوں کے سائے میں ابھی گاڑی چلا کے کچھ دُور ہی گیا تھا کہ والد صاحب شدّت سے یاد آگئے۔ یوں لگا، جیسے مَیں اُنہیں بیک ویو مرر سے ہاتھ ہلاتے دیکھ رہا ہوں، پھر ذہن میں ایک فلم سی چلنے لگی۔
آنکھیں نم ہوگئیں۔ سفید کُرتے، پائےجامے میں ملبوس، ہنستا مُسکراتا چہرہ نگاہوں کے سامنے آگیا۔ جب ہم گھر جانے کے لیے نکلتے، تو والد گاڑی کے پاس آجاتے۔ پیچھے بیٹھے اپنے دونوں پوتوں سے ہاتھ ملاتے، انہیں چُومتے۔ اس کے بعد بہت خاموشی سے دروازے چیک کرلیا کرتے۔ وہ سمجھتے کہ کوئی اس بات کو محسوس نہیں کرے گا، لیکن مجھے معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہ ضرور کریں گے، ابھی میں آگے بڑھ ہی رہا ہوتا تو کہتے ’’گھر پہنچتے ہی فون ضرور کردینا ۔‘‘ پھر زیرِلب ہمارے گھر بخیریت پہنچنے کی دُعائیں کرنے لگتے۔
میرے گھر کا فاصلہ6 کلو میٹر سے زیادہ نہ ہوگا۔ گھر پہنچ کر اُنہیں فون ضرور کرتا، اگر کبھی کسی وجہ سے ذہن میں نہ رہتا، تو کچھ ہی منٹوں میں اُن کا فون آجاتا، ’’آپ نے فون نہیں کیا، گھر پہنچ گئے؟‘‘ مَیں شرمندہ ہوجاتا،’’ اوہ ابّو! میرے ذہن سے نکل گیا تھا۔‘‘ تو فوراً کہتے،’’ ارے میاں! کیسے ذہن سے نکل گیا۔ ہم انتظار کررہے تھے۔‘‘ والد صاحب کو اندازہ تھا کہ مجھے گھر پہنچنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ اس لیے وہ میرے فون نہ آنے پر دو چار منٹ بعد ہی فون کرتے۔
پھر اپنے طور یہ وضاحت بھی دے دیتے، گو کہ اُنہیں اس کی قطعاً ضرورت نہ تھی، کہتے، ’’مجھے یہ خیال گزرا کہ کہیں تم راستے میں سامان خریدنے نہ رُک گئے ہو۔‘‘ یا کبھی کہتے، ’’دراصل مجھے کسی نے بتایا کہ آج ٹریفک بہت زیادہ ہے، مَیں نے سوچا کہیں تم ٹریفک میں نہ پھنس گئے ہو ۔‘‘ والد کے مخصوص جملے مجھے ازبر ہوگئے تھے۔ اصل میں وہ اپنی پریشانی چُھپانا چاہتے تھے۔ والدہ مجھ سے اکثر کہا کرتیں،’’تمہارے جانے کے بعد جب تک فون نہ آ جائے، تمہارے ابّو بے چینی کے عالم میں اِدھر سے اُدھر ٹہلتے رہتے ہیں۔ مَیں کہتی بھی ہوں کہ سیدھا سیدھا روڈ سے جانا ہوتا ہے۔ آپ نہ جانے کیوں پریشان ہوتے ہیں۔‘‘ والدہ لاکھ سمجھاتیں، مگر جب تک اُن کی ہم سے بات نہ ہوجاتی، اُن کی پریشانی نہ جاتی۔
ہم نے نئی گاڑی لی تو بیوی بچّوں کو لے کر سب سے پہلے والد سے ملنے نکل پڑے۔ اُس روز بارش بہت تیز ہورہی تھی، بارش سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خوشی خوشی والد کے ہاں پہنچے، تو ہمیں دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے بہت ناراض ہوگئے،’’میاں! یہ آپ نے کیا کیا؟ اتنی تیز بارش میں بیوی، بچّوں کو لے کر نکلنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ راستے میں گاڑی بند ہوجاتی تو؟‘‘ مَیں نے کہا، ’’ابّو! نئی گاڑی ہے، بند تھوڑی ہوگی۔‘‘ کہنے لگے، ’’میاں! گاڑی کا کیا بھروسا۔ اتنی تیز بارش میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہوگا۔ بس آپ فوراً گھر جائیں۔‘‘ والدہ نے کہا کہ ’’ابھی تو یہ لوگ آئے ہیں، تھوڑی دیر سانس تو لینے دیں۔‘‘ لیکن کسی کی ایک نہ چلی۔
چارو نہ چار،ہم الٹے پاؤں اپنے گھر واپس جانے کے لیے گاڑی میں جابیٹھے اور وہ تیز بارش میں بھی حسبِ روایت باہرآگئے۔ بچّوں سے ہاتھ ملایا، انہیں چُوما اور خاموشی سے دروازے چیک کیے۔ اس بار خاص تاکید کی، ’’گھر پہنچتے ہی فون ضرور کردینا۔‘‘ مجھ جیسے نہ جانے کتنے افراد اس بات کی تائید کریں گے کہ باپ اپنی محبّتوں، چاہتوں کے حوالے سے قدرے مختلف اور الگ ہوتے ہیں۔ اگرچہ مائیں والہانہ محبّت کرتی ہیں اور اس کا بھرپور اظہار بھی کرتی ہیں۔ تاہم، باپ کا معاملہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ نہ جانے کیوں، وہ یہ چاہتے ہیں کہ اولاد سے اُن کی کچھ محبّتیں چُھپی ہی رہیں، آشکار نہ ہوں۔
وہ یہ سب سے چُھپ کے، چُپکے چُپکے کرتے رہیں۔ تاہم، یہ ممکن نہیں، اولاد بھی اُن کی محبّت کے سب انداز سمجھتی ہے اور کیوں نہ سمجھے کہ زندگی میں بے لوث، بے غرض اور سب سے زیادہ محبّت ایک باپ ہی اپنی اولاد سے کرتا ہے اور اولادپر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار رہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ باپ ایک ایسا شجرِ سایہ دار ہے، جو مشکلات کی ساری تمازت خُود جھیلتا ہے اور پھر اُس کی اولاد اِس کے سائے میں خُود کو بہت پُرسکون اور محفوظ تصوّر کرتی ہے۔ کسی نے کیا خُوب کہا ہے؎ اُن کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں..... باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں۔ (اظہر عزمی، کراچی)