• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آڈیو لیکس کیس، کیا آپ لائیو کال کو مانیٹر کر سکتے ہیں؟ جسٹس بابر ستار

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار آڈیو لیکس سے متعلق درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کر رہے ہیں۔

سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ خفیہ ادارے کی طرف سے مجاز افسر ڈیٹا کی درخواست کرتا ہے۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیا آپ لائیو کال کو مانیٹر کر سکتے ہیں؟ یہ پٹیشنز تو فون ٹیپنگ سے متعلق ہی ہیں۔ 

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد 2013ء میں نئی پالیسی آئی، وزارتِ داخلہ نے ایک ایس او پی جاری کیا، آئی ایس آئی اور آئی بی براہ راست سروس پرووائیڈرز سے ڈیٹا لے سکتی ہیں، قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے ضرورت پر ان ایجنسیز سے ڈیٹا لے سکتے ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ ایس او پی تو ایک سیکشن افسر نے جاری کیا ہے، متعلقہ اتھارٹی کا ذکر نہیں، وزارتِ داخلہ کے پاس یہ اختیار کیسے ہے، کس قانون کے تحت یہ ایس او پی جاری کیا گیا؟ وارنٹ کے بغیر لائیو لوکیشن کیسے شیئر کی جا سکتی ہے؟حکومت نے کس قانون کے تحت فیصلہ کیا کہ یہ ڈیٹا حاصل کر سکتے ہیں؟ وزارتِ داخلہ کے ایک سیکشن افسر نے ایس او پی جاری کر دیا، سیکشن افسر کے ایس او پی کے تحت آپ ڈیٹا حاصل کرتے ہیں، آپ نے فون ٹیپنگ سے متعلق نہیں بتایا جو چیزیں بتائی ہیں یہ اُن میں نہیں آتا، ابھی اس دستاویز کی قانونی حیثیت بھی دیکھنی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاپتہ افراد کے کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے ڈیٹا خفیہ اداروں کو دینے کی ہدایت کی تھی۔ 

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک کیس کی حد تک تھا یا مستقل؟ کیا اس پالیسی کے میکنزم کے مطابق آپ ڈیٹا لیتے رہے ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ جی اسی طرح ہی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ اسلام آباد پولیس کی رپورٹ نِل ہے کیا آج تک کبھی وارنٹ ہی نہیں لیا گیا؟ 

پولیس کے وکیل طاہر کاظم نے کہا کہ پولیس سرویلنس نہیں کرتی صرف شواہد کے لیے ڈیٹا لیتی ہے، اگر سرویلنس کی جائے تو پھر اس کے لیے وارنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ مقدمہ درج ہونے کے بعد کسی ملزم کے گھر جانے کے لیے وارنٹ کیوں لیا جاتا ہے؟ میرے گھر میں چوری ہو تو گھر کے سی سی ٹی وی کیمرا کی فوٹیج کیسے لی جا سکتی ہے؟ آپ گھر کے لان کی پرائیوٹ فوٹیج کیسے بغیر وارنٹ لے سکتے ہیں؟ وہ فوٹیج لینے کے لیے آپ کو وارنٹ حاصل کرنا پڑے گا، اسلام آباد پولیس کو آج تک یہی سمجھ نہیں آئی کہ وارنٹ کیوں لیا جاتا ہے۔

 وکیل نے کہا کہ نہ ہم سرویلنس کرتے ہیں اور نہ ہی ریکارڈ کرتے ہیں، واقعے کے بعد مواد اور شواہد اکٹھے کرتے ہیں۔

 جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ نے قانون بنایا ہوا ہے تو سب کو کچھ پتہ ہو گا، لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ لوگوں کی پرائیویسی میں کیسے گھس رہے ہیں، یہاں عدالتوں کو نہیں پتہ آپ کیا کر رہے ہیں، یہ نیشنل سیکیورٹی نہیں، آپ یہ نہیں کہہ سکتے قانون بنا ہوا ہے یا نہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی بار بار چیمبر میں سماعت کی استدعا

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیمبر سماعت رکھ لیں آپ کو آگاہ کر دیں گے۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیا میں آپ سے دہشت گردوں سے متعلق پوچھ رہا ہوں؟ صرف قانون کا پوچھا ہے، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں ججز کے چیمبر یا وزیراعظم ہاؤس کی ٹیپنگ ہوسٹائل ایجینسیز کرتی ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔

 جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ نیشنل سیکیورٹی کا معاملہ نہیں، آپ کی چیمبر سماعت کی درخواست مسترد کرتا ہوں، میں نیشنل سیکیورٹی کے سیکریٹ آپ سے نہیں پوچھ رہا، چیمبر سماعت کا مذاق شروع نہیں کریں گے۔

ٹیلی کام کمپنی کے وکیل نے کہا کہ ڈیٹا فراہمی ٹیلی کام آپریٹرز کے لائسنس کے حصول کے لیے پی ٹی اے کی شرط ہے۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ جو ڈیٹا لیا جا رہا ہوتا ہے اُس متعلق آپ کو معلوم ہوتا ہے؟ 

وکیل نے کہا کہ نہیں، ٹیلی کام آپریٹرز کو اس متعلق کچھ پتہ نہیں ہوتا، ٹیلی کام آپریٹرز پی ٹی اے کے کہنے پر یہ سسٹم لگاتے ہیں؟

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ نے پی ٹی اے کی سسٹم لگانے کی ڈائریکشن کی خط و کتابت ریکارڈ پر لانی ہے۔ 

وکیل نے کہا کہ یہ لائسنس کی شرط ہے، پھر بھی کوئی خط و کتابت ہے تو ریکارڈ پر لے آتے ہیں۔ 

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ کام زبانی نہیں ہوتا بڑی تفصیلی ڈائریکشن ہوتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ مجاز ایجنسیز ٹیلی کام کمپنی کے تمام صارفین کا دو فیصد ڈیٹا بیک وقت لے سکتی ہیں۔

’’PTA کے چیئرمین کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کروں گا‘‘

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پورے ملک کے ٹیلی کام آپریٹرز کے صارفین کا دو فیصد ڈیٹا لیا جا رہا ہے؟ آپ خرچ اٹھاتے ہیں، سسٹم لگا کر دیتے ہیں تو آپ کیسے ذمے دار نہیں؟ کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت دینے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے، کوئی میکنزم فراہم نہیں کیا گیا تو جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیر قانونی ہے، ٹیلی کام کمپنیاں بغیر اسکروٹنی شہریوں کا ڈیٹا دے رہی ہیں تو وہ برابر کی ذمے دار ہیں، پی ٹی اے کے چیئرمین اور بورڈ ممبرز کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کروں گا، پی ٹی اے نے عدالت کو کہا انہوں نے فون ٹیپنگ کی کسی کو اجازت ہی نہیں دی، پی ٹی اے کے کہنے پر ہی ٹیلی کام آپریٹرز نے پورا سسٹم لگا کر دیا ہوا ہے۔

قومی خبریں سے مزید