اس وقت پاکستان کو لاحق سنگین خطرات سے نجات دلانے کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ آئینی حوالے سے چھوٹے صوبوں کے بعض تحفظات دور کرتےہوئے وفاقی نظام کو مساوی بنانے کی طرف پیش قدمی کی جائے ۔یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے جتنی ہوسکے جلدی کی جائے۔ یہ بات یادرکھنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان چار صوبوں پنجاب‘ سندھ‘ پختونخوا اور بلوچستان پر مشتمل ہے، یہ صوبے پاکستان کے Pillers ہیں جن پر پاکستان کھڑا ہے‘ اس مرحلے پر یادرہےکہ سندھ اسمبلی پہلی اسمبلی ہے جس نے قرارداد منظور کرکے پاکستان کی بنیاد رکھی‘ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس وقت چاروں صوبوں میں شدید اختلافات ہیں‘ یہ بات پاکستان کے انتہائی مفاد میں ہوگی کہ جتنا جلد ہوسکے ان اختلافات کو دفن کیا جائے‘ اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ اختلافات اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ پاکستان قائم ہونے کے کافی عرصے تک نہ انتخابات کرائے گئے اور نہ آئین بنایا گیا‘ بلکہ کچھ عرصے کے لئے سویلین ڈکٹیٹر شپ قائم کی گئی‘ انتخابات کرانے کے بجائے ایک صوبے کے سویلین کو ملک کا سربراہ بنایا گیا حالانکہ وہ منتخب نہیں تھا‘ اس کے بعد ملٹری ڈکٹیٹر شپ قائم کی گئی‘ اس عرصے کے دوران ایک دو انتخابات کرائے گئے مگر یہ انتخابات ’’ون مین ون ووٹ‘‘ کی بنیاد پر انتخابات کرائے گئے‘ 70ء کی دہائی میں ایک سویلین ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم بنے‘ بعد میں بھٹو حکومت نے نہ صرف ’’ون مین ون ووٹ‘‘ کی بنیاد پر سارے ملک میں انتہائی منصفانہ انتخابات کرائے بلکہ وجود میں آنے والی اسمبلی سے پاکستان کا پہلی بار آئین بنایا گیا جو وفاقی بھی تھا تو جمہوری بھی تھا‘ اس آئین پر خاص طور پر چھوٹے صوبوں سندھ‘ پختونخوا اور بلوچستان کو شدید شکایات تھیں‘ بعد میں پی پی حکومت کے دور میں آئین میںکچھ مزید ترامیم کرکے اسے کسی حد تک مزید وفاقی بنایا گیا‘ اس ترمیم کو 18 ویں آئینی ترمیم کہا جاتا ہے مگر اس ترمیم پر چھوٹے صوبوں اور بڑے صوبے کے درمیان اب سنگین اختلافات ہیں‘ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ ایک صوبے اور کچھ اداروں کے افراد فوری طور پر 18 ویں ترمیم کو آئین سے خارج کرنا چاہتے ہیں جبکہ سندھ‘ پختونخوا اور بلوچستان کسی حالت میں 18 ویں ترمیم کو ٹچ کرنے کی بھی اجازت دینے کو تیار نہیں اگر ایسا کیا گیا تو امکان ہے کہ ملک میں صوبوں کے شدید اختلافات سامنے آئیں۔ 18ویں ترمیم سے پہلے پاکستان کے آئین میںتین چھوٹے صوبوں کے نام درست نہیں لکھے جاتے تھے مثال کے طور پر خیبر پختونخوا کو صوبہ سرحد کہا جاتا تھا۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے اس صوبے کو صحیح نام یعنی ’’خیبرپختونخوا‘‘ کا دیا گیا جس کی کے پی کی منتخب سیاسی قیادت اور عوام نے حمایت کی۔ اسی طرح 18 ویں ترمیم سے پہلے آئین میں سندھ اور بلوچستان کے انگریزی نام کی اسپیلنگ بھی درست نہیں ہوتی تھی‘ مثال کے طور پر سندھ کو انگریزی میں SIND لکھا جاتا تھا‘ 18 ویں ترمیم کے ذریعےاس کے نام کی اصل اسپیلنگ یعنی SINDH بحال کی‘ اسی قسم کا اعتراض بلوچستان کی قیادت کو بھی تھا اسے بھی 18 ویں ترمیم کے ذریعے درست کیا گیا۔ علاوہ ازیں 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کو کسی حد تک درست سطح تک لانے کی کوشش کی گئی مگر اس تبدیلی کو کچھ حلقے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں لہذا وہ اسے نہ فقط تبدیل بلکہ آئین سے ہی خارج کرنے پر بضد ہیں‘ موجودہ صورتحال بتاتی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو صوبوں کے اختلافات انتہائی سنگین ہوسکتے ہیں لہذا سندھ‘ کے پی اور بلوچستان کی سیاسی قیادت اور عوام نہ فقط 18 ویں ترمیم کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں مگر آئین میں کچھ اہم ترامیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ‘ بلوچستان اور کے پی سے کئی سیاسی حلقوں کی طرف سے کئی اہم تجاویز کا ذکر کیا جارہا ہے‘ جس میں اہم تجویز یہ ہے کہ چاروں صوبوں کو انتظامی‘ معاشی اور سیاسی مساوی حقوق دیئے جائیں اور ان میںکوئی خوردبرد نہ کی جائے۔ ایک اورتجویز کے مطابق یہ مطالبہ بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے سارے اداروں میں چاہے وہ سویلین ہوں یا غیر سویلین ہوں ان سب میں چاروں صوبوں کی نیچے سے لیکر اوپر تک مساوی نمائندگی ہو‘ یہ بھی تجویز ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے سویلین اور غیر سویلین ادارے کا سربراہ ایک خاص مدت کیلئے چاروں صوبوں سے لیاجائے‘ ان حلقوں کی طرف سے یہ بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وفاقی کابینہ میں بھی چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی ہونی چاہئے‘ جب بھی کوئی اہم انتظامی‘ معاشی اور سیاسی تبدیلی لانے کا ارادہ ہو تو اس کی منظوری کیلئے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے اور تمام فیصلوں کی منظوری اس کمیٹی سے لی جائے۔