چند ہفتے پہلے جو چیز محض ایک دھندلا سا تصور دکھائی دیتی تھی ، اب بتدریج ٹھوس شکل اختیار کرتی جارہی ہے ۔ باد نو بہار جو عدلیہ کے گلشن سے چلنا شروع ہوئی اب تمام قومی منظر نامے میں امید کے گلوں میں رنگ بھر رہی ہے ۔ مایوسی کی دبیز فضا چھٹ رہی ہے ، نت نئے امکانات کی روشنی ارغوانی افق سے پھوٹنا شروع ہوگئی ہے۔
گزشتہ دو روز سے میںنے سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیواسٹریمنگ میں جو کچھ دیکھا ہے ، اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ جبر کے دور میں بھی انسانی سوچ غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کی امنگ سے محروم نہیں ہوتی۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ذہنی غلامی کے حصار سے باہر نکل کر پانی کے ایسے تالاب میں چل رہے ہیں جہاں توانائی کی لہریں بہہ رہی ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ روشن مستقبل اب بہت دور نہیں رہ گیا ۔اور یہ کہ تبدیلی ریاست کے اس انتہائی اہم ستون کی طرف سے آرہی ہے جسے انصاف کی فراہمی کا مقدس فریضہ سونپا گیا ہے ، جس سے امکانات کی بہت سے راہیں کھلتی ہیں۔
ابھی حالیہ دنوں تک ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔ ریاستی اداروں کے خونیں پنجے وحشیانہ طاقت آزمارہے تھے ۔ کوئی جائے مفر دکھائی نہیں دیتی تھی، گویا ہم غیر معینہ مدت کیلئےاذیت کے اسیر ہوچکے ۔ یہ احساس بذات خود مایوس کن تھا۔ لیکن نگاہیں بے تابی کے عالم میں ان جھروکوں کی تلاش میں تھیں جہاںسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی چھن چھن کر اتر آتی ہے ۔ذہن بیم و رجا کی بدلتی ساعتوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔
بہت سے بے خبر ہوں گے ، لیکن تہہ میں ایک طوفان پل رہا تھا ، سب کچھ تہہ وبالا کرنےکیلئے بے تاب، اور پھر سوچ پر اشتعال کی دھمک واضح ہوتی جارہی تھی۔ اور یہ بلاوجہ نہیں تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا بہت سہل طریقے سے،بلاکدو کاوش ہوتا چلا گیا ۔ اس سے انسانی ذہن کی ان صلاحیتوں کی عکاسی ہوتی ہے جوپے در پے مشکلات پر قابو پاکر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرلیتی ہیں۔ اس کا پہلا اشارہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے غیر معمولی خط کی صورت ملا جنھوں نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ملنے والی دھمکیوں اور ڈالے جانے والے دبائو کے تجربے کو تحریری شکل میں بیان کردیا ۔ جیسا کہ منگل کو سماعت کے دوران ایک فاضل جج صاحب نے کہا کہ ’’بس،بہت ہوچکا۔‘‘یہ چنگاری سوئے منزل راستے کو فروزاں کرنے کیلئے کافی تھی ۔ وہ راستہ جس پر مقاصد کی بے خوف سعی کے قدموں کے نشان ثبت ہیں ، اور جس راستے کا انھوں نے انتخاب کیا ہے ، یہ وہی جو اس ملک کے بانی، قائد محترم نے چنا تھا۔
اس کے بعد رکنے کا یاپیچھے مڑ کر دیکھنے کا کوئی موقع نہیں ۔ یکے بعد دیگرے قانون سے وابستگی رکھنے والے اپنے مقصد کی درستی کی بنیاد پر آواز بلند کررہے ہیں ۔ ایک خط نے اس شعبے کا تمام ماحول تبدیل کردیا۔ آج وہ چھ جج دیگر کیلئے مشعل راہ بن چکے ہیں ۔ سوموار اور منگل کو سپریم کورٹ میں ہونے والی کارروائی میں یہ ڈرامائی تبدیلی اتنی واضح تھی کہ ماضی کے نقیبوںکیلئے اپنا بیانیہ پیش کرنا مشکل ہوگیا ۔ انھیں تشویش یہ لاحق ہے کہ اب انکے پیشہ ور بندوبست کو کوئی تسلیم نہیں کرنے جارہا۔ دلیر اور حوصلہ مند اپنا راستہ بنا رہے ہیں جب کہ ان کے حریف بے اصولی کی راہ اپنا رہے ہیں ۔
لیکن یہ تبدیلی تلخی بھی پیدا کررہی ہے، ڈر ہے کہ قوم کے حوصلے پست کرنے کیلئے جبر ایک بار پھر اپنے پنجے کھولے گا۔ جس دوران خدشہ موجود ہے ، اس ابھرنے والی لہر کے واپس ہونے کا اب کوئی امکان نہیں ۔ اب ایک نئے راستے پر قدم رکھ لیا گیا ہے، سفر شروع ہوچکاہے ، اب اس سمت حرکت کو روکا جانا ممکن نہیں چاہے راستے میں کتنے ہی چیلنج کیوں نہ ہوں۔ لیکن رجعت پسند قوتوںکی ڈالی جانے والی رکاوٹیں پریشان کن ہیں ۔ اپنے تصرف میں موجود وحشیایہ قوت کو استعمال کرتے ہوئے وہ ان کی سکت توڑنے کی کوشش کررہے ہیں جو آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے تبدیلی برپا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔اس کیلئے نوآبادیاتی دور کے وحشیانہ اقدام ایم پی او تھری کا استعمال ہے جو غیر ملکی حکمرانوں نے مقامی افراد کو ’’شر انگیز‘‘ قرار دے کر دبانے کیلئے وضع کیا تھا ۔ اب بیرونی آقا ئوں کی جگہ مقامی ٹھگوں نے لے لی ہے ، لیکن ہتھکنڈے وہی ہیں جس میںدانائی اور معقولیت کی طاقت کو بندوق سے دبادیا جاتا ہے ۔ یہاں سے رخصت ہونے والے غیرملکی حکمران مالک اور غلام کا تعلق پیچھے چھوڑ گئے جس نے وقت گزرنے کے ساتھ مزید خرابی پید اکرتے ہوئے حکمران اشرافیہ کی دولت کی طمع بڑھا دی ہے۔
جب اختتام قریب آرہا ہے ، جنگ مزید شدت اختیار کرتی جائے گی ۔ ایک طرف اسٹیٹس کو کی طاقتیںمورچہ بند ہوکر وحشیانہ طریقے سے اپنے بچائو کی جنگ لڑرہی ہیں ، دوسری طرف تبدیلی کی نمائندہ قوتیں ہیں جو ماضی کی تاریکی کا پردہ چاک کرکے پر امید مستقبل کی جھلک دکھارہی ہیں ۔ تبدیلی کی قوتوںکے حق میں ووٹ ڈال کر عوام اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں ، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کیلئے اور ان کی آنے والی نسلوںکیلئے کیا بہتر ہے ۔ لیکن شکست خوردہ قوتیں پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں تھیں ۔ انھوں نے انتخابات چرانے کا فیصلہ کرلیا ۔ یہ انھوں نے بندوق بردار روایتی قوت کے ساتھ مل کرکیا ۔ نصب شب انتخابات چرا لیے گئے ، جس کسی نے بھی ناانصافی پر زبان کھولی ، غائب کردیا گیا۔ صر ف اس وقت منظر عام پر آیا جب ایک پریس کانفرنس میں لکھا ہوا پیغام پڑھنے پر راضی ہوگیا۔
لیکن وحشیانہ قوت کچھ بھی تبدیل نہیں کرپائی ہے ۔ اگر کوئی تبدیلی آئی تو یہ ہے کہ لوگوں کو تبدیلی کا شعور اور ان کاعزم پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے ۔ وہ شدت سے اُس وقت کا انتظار کررہے ہیں جب اپنے چنے ہوئے راستے پر گامزن ہوں گے۔ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود میرے دوستو، وہ دن دور نہیں ہے ۔ آزادی ہمیں بلا رہی ہے اور امید بھرے دل روشن مستقبل پر نظریں جما چکے ہیں۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں)