قوم و ملک کی خاطر ایک ہو جائیں
پی ٹی آئی کے سربراہ ملک و قوم کی بہتری کیلئے سب کو گلے لگا لیں، اگر وزیر اعظم سب کچھ بھول کر پھر مذاکرات کی پیش کش کر رہے ہیں تو ایک اچھا سا مثبت جواب تو دیں اور حکومت بھی انہیں آزاد کرے تاکہ آزادی کے ماحول میں ذاتیات سے بالاتر ہو کر باہمی مثبت ملک گیر امن و آشتی اور ترقی کے لئے سب اپنی قوت، صلاحیت کو خواہ مخواہ کے جھگڑوں میں ضائع کرنے کےبجائے اس نعمت عظمیٰ ملک کو بنائیں سنواریں، ہم جنت نظیر وطن کو کھونے کے رستے پر چل پڑے ہیں اس خطرناک صورتحال میں پورا سیاسی ڈھانچہ گم کردہ راہ نہ بنے، بس ذرا سی دیر ہے خلوص دل سے پاکستان کی خدمت اور اللّٰہ کا شکر ادا کرنے کی پھر دیکھیں یہاں کے سارے مسائل کیسے حل ہوتے ہیں۔ حزب اختلاف کے لیڈر کو بھی اعتماد میں لیں کہ وہ حکومت کا دست و بازو بنیںا ور تنقید برائے تعمیر کی راہ لیں، اگر آپس کے معمولی اختلافات کوو طن کُشی اور ذاتی انا کی پرداخت پر اسی طرح لگائےر کھا تو خاکم بدہن باقی کے آدھے پاکستان کا کیا بنے گا، یہ خوش کن لمحہ ہے کہ وزیر اعظم نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک میز کے گرد بیٹھنے کا عندیہ دیا ہے،یہ ملک ہمیں بہت کچھ دے سکتا ہے اسے یوں ذاتی پرخاش کی نذر کرکے برباد نہ کیا جائے، اگر خان صاحب کی رہائی سے برادران لیڈران متحد ہو کر مل جل کر جادۂ فلاح مسطاح پر چل پڑیں تو اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کو منزل مل جائے گی، آج یہ حال ہے کہ سرچشمہ قوت عوام اپنی ضروریات کی خاطر مجبوراًسڑکوں تک آ پہنچے ہیں کہیں دشمن اس نازک موڑ پر ہمیں دھکا دے کر اوندھے منہ نہ گرا دے، بہت خودپرستی ہو چکی اب وطن پرستی کی طرف بڑھیں، لوگ باگ موجودہ حالات سے تنگ آ چکے ہیں سب ملک کر وزیر اعظم کی کوشش کو کامیاب بنائیں۔
٭٭٭٭
معاشرے کا پہلا بنیادی ادارہ فیملی یونٹ ہے، اگر یہ مرتب اور مطمئن ہے تو اوپر تک دیوار وطن سیدھی ورنہ کھنڈر، گائوں کے ایک دکاندار کے پاس روزانہ ایک نوجوان الٹی سیدھی باتیں کرتا، آخر تنگ آ کر دکاندارنے ایک روز اسے کہا جائو بائو اپنی ماں کے ساتھ اپنی شادی کے متعلق بات کرو، جب شادی ہو جائے گی تو تم خود ہی خوشی خوشی اپنے گھر کی گاڑی چلائو گے اور تمہارے پاس مجھ سے فضول باتیں کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ہوگا۔ ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ آپ فیملی کورٹس میں جا کر طلاق کے کیسز کے انبار دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ لوگ شاید شادی کرتے ہی توڑنے کے لئے ہیں کچھ تو اسباب و وجوہات ہوں گی اس خانہ بربادی کی، ہم جہاں تک سمجھے ہیں وہ لالچ اور دنیا داری ہے جس میں فریقین یا زوجین کشادہ دلی کے بجائے ایک دوسرے کو طعنےدیتے اور تنگدستی کا واویلا ہے ایک بڑی وجہ شک بھی ہے چاہے شوہر کرے یا بیوی، قرآن کریم میں ذکر ہے کہ شک کو اللہ مزید بڑھا دیتا ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے شک وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا، قرآن نے شک کو دل کے اندر ٹیڑھ پن کا مرض قرار دیا ہے اور فرمایا ہے اس مرض میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اسی طرح خواتین مالی اونچ نیچ کو بھی دل پر لے لیتی ہیں اور ان کی نظروں میں خاوند گرتا جاتا ہے، جھگڑوں کوطول دینے اور کسی ایک کے چپ نہ ہونے کے باعث بھی شادی جیسا مضبوط قلعہ مسمار ہو جاتا ہے، عفو و درگزر تو آج ہماری سوسائٹی سے کافی حد تک اٹھتا جاتا ہے، عقلمندعورتیں معاملہ کو رفع دفع کر دیتی ہیں اور میاں بیوی میں سے کوئی ایک بھی جھگڑے کو طول دینے کی کوشش کرتا رہے تو بالآخر خوبصورت رشتہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ تمہارا اور تم ان کے لباس ہو، یعنی شوہر بیوی ایک دوسرے کو اوڑھ لیں اسی طرح ازدواجی زندگی خوشیوں بھرا جیون بن جاتی ہے، طلاق کی بڑھتی شرح معاشرے کے لئے تباہ کن ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭
وہ کسی سے گڑ گڑا کر کچھ نہیں مانگتے
ہم نے غلط جگہوں اور افراد پر خرچ کرکے گدا گری کو فروغ دیا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بڑا اجر ہے جو دینے والے اور پورے ملک کو یکساں ملتا ہے، مستحق افراد کو تلاش کرنا اگرچہ اتنا مشکل نہیں تاہم لوگ تلاش کی کوشش نہیں کرتے اور پھیلے ہاتھوں اور صدائیں دینے والوں کو تھما کر اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ انہوں نے فی سبیل اللہ غیر مستحق لوگوں کو دے کر جنت خرید لی ہے، قرآن حکیم میں بار بار اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر زور دیا گیا ہے اور طریق کار بھی بتا دیا ہے کہ خیرات دینے کا درست طریقہ کیا ہے، ضرورت مندوں سے ہماری سوسائٹی بھری ہوئی ہے جن کے ہاتھ خالی ہیں ، سارے مانگنے والے اللہ کے نام پر بھیک مانگتے ہیں حالانکہ وہ پیشہ ور گدا گر ہوتے ہیں اور یوں بھی مانگتے ہیں جیسے وہ چھیننا چاہتے ہیں، اللہ کی کتاب میں ہے کہ مستحق لوگوں کو تم ان کے ماتھے سے پہچان لو گے کہ وہ پیشہ ور بھکاری نہیں، چیخ کر مانگتے بھی نہیں، ایسے لوگ خاندانوں کی شکل میں ہمارے اردگرد زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ افراد حسن کے بھکاری ہوتے ہیں وہ اکثر باہر کے ملکوں سے آتے ہیں اور یہاں کسی کو فریب دے کر شادی کرلیتے ہیں دو تین ماہ میں جب جی بھر جاتا ہے طلاق دے کر واپس بھیج دیتے ہیں، ہمارے معاشرے میں ان افراد کی بڑی پذیرائی ہوتی ہے، یہ باہر کے ملکوں میں اچھی خاصی دولت کماتے ہیں، مانگنے والے کو نہیں ڈانٹنا چاہیے بشرطیکہ وہ ایک غیر مستحق شخص ہو، حکومت اور عوام کو گدا گری ختم کرنے کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے گدا گر مافیا پیدا ہو چکا ہے اور اب وہ خاصا پھیل چکا ہے، گدا گری کو پروموٹ کرنا قومی دولت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
٭٭٭٭
اندھا فتویٰ
...Oسینیٹر عباس آفریدی :آج دو آدمی سیاست میں غیر متعلق ہوگئے ہیں، ایک عمران خان ، دوسرے نواز شریف۔
یہ فتویٰ آفریدی صاحب نے شاید میدان سیاست سے آنکھ بند کرکے صادر فرمایا ہے۔
...O شہزاد رائے:حکومت نے کتابیں چھاپنے پر فائدہ دینے کی بجائے 10 فیصد ٹیکس لگا دیا۔
اس لئے کہ ملک علم سے لبریز ہوگیا ہے، مزید علم کی ضرورت ہی نہیں، غربت سے بھی ملک بھر گیا ہے اور مزید غریب مینوفیکچر کرنے پر کوئی ٹیکس نہیں، سزا نہیں۔
...Oبجلی مزید مہنگی نہ کی جائے بلکہ قیمت کم کی جائے، بجلی میں بار بار اضافے کرنا صارفین کے زخموں پر بجلی چھڑکنے کے مترادف ہے۔
...Oحکومت آئی ٹی سیکٹر میں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے جا رہی ہے کئی آئی ٹی کمپنیز دیوالیہ ہو چکی ہیں، کوئی توجہ دینے والا اور اس سیکٹر کو بچانے والا نہیں جبکہ آج دنیا کی اولین ترجیحات میں آئی ٹی شامل ہے، موبائل فونز کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا۔
...Oپرائیویٹ سکولوں کو معیاری اور فیسوں کو کم کرنے پر بھی حکومت توجہ دے۔اس وقت ملک بھر میں معیار تدریس اطمینان بخش نہیں، غلط تلفظ سکھانے والے اساتذہ کا بھی نوٹس لیا جائے، محکمہ تعلیم سے پوچھ گچھ کے لئے ٹاسک فورس بنانے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭