• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پاپوں میں پلا ہوں ۔ میرے گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ کی فہرست بہت طویل ہے ۔ سمجھتا ہوں، ہر جنم میں ، میں گھناؤنے گناہ کرتارہا ہوں اور ہر جنم میں کئے ہوئے گناہوں کا لکھا یعنی حساب کتاب اگلےجنم میں اپنے ساتھ منتقل کرتا رہاہوں ۔ ورنہ میرے گناہوں کی فہرست اتنی لمبی نہ ہوتی۔ مجھے یوں بھی محسوس ہوتا رہا ہے کہ میں جنم در جنم اپنے گناہوں کی مالا پہن کر جنموں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا ہوں ۔میں اس قدر گیا گزرا بھی نہیں ہوں کہ گناہوں سے توبہ تائب ہونے کا منکر بنوں۔ مگر کیا کروں کہ میں پیدائشی طور پر ارتھمیٹک میں کمزور ہوں ۔ دس گناہوں کی صدق دل سے معافی مانگتاہوں اور اس دوران ایک سو سے زیادہ نئے اور تازہ دم گناہوں کا مرتکب ہوچکا ہوتا ہوں ۔ انسان ہوں، انسان کا بچہ ہوں ۔ گناہوں کے سلسلے کی ابتدا ازل سے ہوئی تھی، اور ابد تک چلتی رہے گی۔ یہ حیات اور ممات کی بات نہیں ہے ۔ یہ جینےاور مرنے کی بات نہیں ہے ۔ یہ Life & Death کی بات نہیں ہے ۔ اس محاورے میں کچھ غلط ہے ۔ بےمعنی ، بے مطلب اور مہمل ہے ۔ Life یعنی زندگی کبھی ختم نہ ہونے والا ، لا متناہی سلسلہ ہے ۔ اور Death اختتام ہے ۔ ان دونوں الفاظ Life & Death یعنی حیات اور ممات کا ناتا، رشتہ، بندھن واجب نہیں لگتا۔ Death یعنی موت کا بندھن، رشتہ جنم یعنی Birthسے ہے ۔ یعنی زندگی Life لامتناہی سلسلہ ہے ،ابدی ہے کبھی ختم نہ ہونے والا ہے ۔ہم مرجاتے ہیں ۔ زندگی دائم رہتی ہے ۔کبھی ختم نہ ہونیوالی ہے لگاتار ہے ۔ زندگی ابد تک چلتی رہتی ہے لہٰذا Death یعنی موت کا مناسب اور موزوں جوڑBirthہے ، ناکہ Lifeیعنی زندگی ۔Birth & Deathجنم اور مرن۔ مجھے مناسب لگتا ہے ۔ اس تمہید کے بعدآپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرے گناہوں کی فہرست کم کیوں نہیں ہوتی۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ میں گناہوں سے معافی کا طلب گار رہتاہوں مگرمیں کیا کروں کہ انسان ہونے کے ناطے میں گناہوں سے باز نہیں رہ سکتا ۔ گناہوں کی فہرست کم ہونے کے بجائے بڑھتی رہتی ہے ۔

اکثر سوچتا ہوں کہ کرکٹ کے حوالے سے آخری گیند پر سات رنز بنا کر میچ جیتنے کاگُر اپناؤں ۔ جی ہاں آخری گیند پر سات رنز بن سکتے ہیں ۔ تقدیر کی کرم فرمائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ بالرآخری گیند نوبال پھینک سکتا ہے ۔اس نوبال پر آپ چوکا لگاسکتے ہیں ۔ بالر اوسان کھو بیٹھتا ہے ۔ آخری گیند وہ وکٹوں اور بیٹسمین سے دور پھینک سکتا ہے ۔گیند اس قدر وائیڈ ہوتی ہے کہ وکٹ کیپر کی پہنچ سے بھی پرے ہوتی ہے اور آپ کی ٹیم کوچاررنز مل جاتے ہیں ۔ اس طرح آخری گیند پر آٹھ رنز بناکر آپ میچ جیت جاتے ہیں یہ قسمت کاکھیل ہے۔میں بھی آخری گیند پر سات رنز بنا کر میچ جیتنے کے امکانوں کا جائزہ لیتارہتاہوں ۔ ایک ہی وقت میں نیکی کا کوئی ایسا کام کرنےکا متمنی ہوں کہ جس سے میرے تمام گناہ معاف ہوجائیں ۔ مشورے لیتا رہتا ہوں ۔ نیکی کے غیر معمولی کاموں کے بارے میں عالموں سے صلاح کرتا رہتا ہوں ۔ ملنے والی تجاویز کا جائزہ لیتارہتا ہوں ۔ اس دوران مجھے حیرت انگیز مشورےملے ۔ ایک کہنہ مشق گناہگار نے کہا۔ ’’روزانہ گھناؤنے واقعات ماحول کو شرمسار کررہے ہیں ۔ وہ لوگ قانون سےبالاتر ہوتے ہیں۔ عدالتوں سے اپیلوں میں جیت جاتے ہیں ۔ تم تیزاب میں گھل جانے والے بچوں کو موت کی وادیوں سے واپس نہیں لاسکتے ۔ تم مگر اتنا تو کرسکتے ہو کہ سو بچوں کے قاتل کو ٹھکانے لگادو‘‘۔ میں سوچ میں پڑگیا۔ کہنہ مشق گناہگار نے کہا ۔ ’’آئے دن حویلیوں میں نوکرانیوں کی بےحرمتی کرنے کے بعد انہیں قتل کردیا جاتا ہے ۔ آج تک کسی سردار، جاگیردار ، زمیندار ، وڈیرے کو کسی نے سزا نہیں دی ہے ۔ یہ دین اور دنیا کا معاملہ ہے تم طاقتور مجرموں کو نیست و نابود کردو۔ تمھارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے ‘‘۔گناہ معاف کروانےکی ایک ترکیب مجھے یہ بھی دی گئی ہے کہ خودکش جیکٹ پہن کر اگر میں کسی مجمع میں دھماکہ کردوں تو فوراً سے پیشتر خود کو حوروں کے جھنڈ میں پاؤں گا اور اپنے دل پسند مزےمزے کے طعام جو مجھےاس نابکار عارضی دنیا میں نہیں ملے تھے، اور میں لذیز کھانوں کے لئے ترستا رہتاتھا۔ دھماکے کے بعد ، آنکھ جھپکنے سے پہلے مل جائیں گے۔ اگر میں خود کش حملے سے اسکول سے آتی ہوئی یا اسکول جاتی ہوئی بچوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی بس کو اڑادوں تو اس کا صلہ کہیں زیادہ دلفریب اور دلکش ہوگا۔ تجاویز میں سن تو لیتا ہوں مگرآنکھیں بند کرکے فوراً اس پر عمل نہیں کرتا ۔ اندر سے تصدیق نہیں ہوتی ۔ سنی سنائی باتوں میں کہیں میں ضائع نہ ہوجاؤں ۔ مجھے سنی سنائی باتوں پر تصدیق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ دھماکوں کی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا ہے کہ خود کش حملہ میں دوسرے کے ساتھ خود کو بھی تہس نہس کرنیوالا حملہ آور مرنے کے بعد لوٹ آیاہو۔ اور اس نے مرنے کے بعد کا آنکھوں دیکھا حال ہمیں سنایا ہو۔ ایک مثال نہیں ملتی ۔ لہٰذا سنی سنائی حوروں کے حسن اور طرح طرح کےطعاموں کے ہوش ربا قصے مجھے بچوں کی کہانیاں لگتے ہیں ۔ بچوں کی کہانیوں پر میں اپنی قیمتی جان نہیں دے سکتا۔ یہ میں اپنی طرف سے دعویٰ نہیں کر رہا۔ ہر جنس اور نسل کے سیاستدان اپنی دلفریب تقریروں میں بتاچکے ہیں کہ پاکستانی قوم کا ہر فرد قیمتی ہے ۔ ستر اسی برسوں سے ہمیں یقین ہوگیا ہوگیا ہے کہ ہم ووٹ دینے والے کتنے قیمتی ہوتے ہیں مجھے ڈر ہے سیاست کا کوئی کائیاں کھلاڑی ہمیں بیچ نہ دے اور دبئی میں جاکر کوٹھی بناکر بیٹھ جائے ۔ گناہ معاف کروانے کیلئے مرنے مارنے کی تجاویز بالائے طاق رکھ کر میں بہت سنجیدگی سے بلاسفیمی کے موردِ الزام کو سرعام سریوں، لاٹھیوں، ڈنڈوں، کلہاڑیوں اور خنجروں سے مارنےکی تجویز پر غور کررہا ہوں ۔ مگرمیں جاننا چاہتا ہوں کہ اس نیک کام کے بعد میرے گناہوں کی مجھے معافی مل جائے گی؟

تازہ ترین