چین کی کمیونسٹ پارٹی کے انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ کے منسٹر اور پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن لیو جیان چائو(Liu Jianchao)کے دورہ پاکستان کے دوران جب ان سے کھانے پر گپ شپ ہورہی تھی تو اس میں چین اور امریکہ کی مخاصمت پر بھی کافی بات ہوئی لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت یا قوم اس حوالے سے پریشان نہیں۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے کمال کی بات یہ کہی کہ ہم وکٹری نہیں بلکہ سکسس Successپر یقین رکھتے ہیں ۔ وکٹری میں آپ اپنے نفع نقصان کو دیکھے بغیر دوسروں کو فتح کرنے کی کوشش کرتے جبکہ سکسس میں دوسرے کو فتح کرنے کا نہیں سوچتے بلکہ اپنی سکسس کیلئے کوشش کرتے ہیں۔اس لئےہم وکٹری نہیں بلکہ سکسس پر یقین رکھنے والی قوم ہیں۔
بعدازاں میں لیوجیان چائو کی بات کے بارے میں سوچ رہا تھا تو واقعی یہ حقیقت سامنے آئی ۔ مثلاً وہ چند گھنٹوں میں تائیوان کو فتح کر سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے کی بجائے وہ سکسس پر اتنی توجہ دئیے بیٹھے ہیں کہ ایک دن تائیوان خود بخود ان کی جھولی میں آگرے گا۔ انہوں نے ہانگ کانگ کے بارے میں بھی فوجی قوت سے کام نہیں لیا اور وقت آنے پر ایسی ارینجمنٹ پر راضی ہوئے جو چین کی بھی کامیابی ہے اور ہانگ کانگ کی بھی۔
دوسری طرف امریکہ وکٹری کے چکر میں افغانستان آیا اور اربوں ڈالر کا نقصان اور دو ڈھائی ہزار لاشیں لے کر واپس چلا گیا ۔ وکٹری کی سوچ کے ساتھ وہ عراق میں گھسا اور اسے تاراج کرکے واپس نکل گیا۔ علیٰ ہذہ القیاس ۔ اس وقت اسرائیل بھی وکٹری کے چکرمیں حماس کو فتح کرنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں معصوم لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔
سکسس کی بجائے وکٹری پر اصرار کی وجہ سے اس وقت ہماری سیاست بھی بے یقینی کا شکار ہے ۔ اپنے اقتدار میں عمران خان وکٹری کی سوچ کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین کو فتح کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے وہ ملک کو کسی میدان میں کامیابی دلاسکے اور نہ خود کو بچا سکے ۔ وکٹری کی یہ سوچ اس وقت موجودہ حکمرانوں کے ذہنوں پر غالب ہے ۔ اپنی کارکردگی اور سکسس کی بجائے ان کی زیادہ توجہ وکٹری یعنی عمران خان کو کارنر کرنے پر ہے ۔ ہماری سیاست حریف پر تنقید اور اسے برے سے برا ثابت کرنے کا دوسرا نام ہے ۔ آپ کسی لیڈر کی غلطی کی نشاندہی کریں تو وہ اپنی خوبیاں بیان کرنے کی بجائے اپنے مخالف کی خامیاں بیان کرنا شروع کردے گا۔جو وکٹری والی سوچ کی علامت ہے ۔
وکٹری کی سوچ منفی سوچ اس لئے بن جاتی ہے کہ اس میں آپ مخالف کو زیر کرتے ہیں جبکہ سکسس ایک مثبت عمل اس لئے بن جاتا ہے کہ آپ اپنی کارکردگی بہتر کرتے ہیں ۔ خود اپنے سامنے رکھے ہوئے گولgoal تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے مخالف سے کوئی جھگڑا نہیں کرتے ۔ اس وقت آپ دیکھیں تو پاکستان میں تینوں بڑی جماعتوں کو الگ الگ صوبے ملے ہوئے ہیں لیکن کے پی کے ترجمان ہر وقت پنجاب حکومت کے بارے میں بولتے نظر آتے ہیں اور پنجاب کی ترجمان کے پی کے بارے میں ۔ یہی معاملہ سندھ کا ہے۔ حالانکہ یہ اچھا موقع ہے کہ چین کی طرح سکسس کے اصول کو اپنا کر کے پی اپنی کارکردگی بہتر بنائے، پنجاب اپنی ، سندھ اپنی اور بلوچستان اپنی ۔وکٹری کی بجائے ان صوبوں کے حکمرانوں نے اگر سکسس کے ذہن سے کام کیا ، تو یہ ملک جنت بن جائے گا۔ہر صوبے کی حکومت سکسس حاصل کرکے ثابت کردے کہ وہ دوسرے سے بہتر ہے۔ یہی معاملہ وفاقی حکومت کا بھی ہے ۔ اس کی توجہ عمران خان کو فتح کرنے یا قابو میں رکھنے پر ہے اور بعض وزرا تک کہہ بیٹھے کہ وہ ان کو اندر رکھنا چاہتےہیں ۔ اس کی بجائے اگر یہ لوگ عمران خان کو فتح کرنے کی بجائے سکسس کی اپروچ کے ساتھ دن رات اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے پر لگا دیں تو عوام کے دل جیت لیں گے۔
غور سے دیکھا جائے تو وکٹری ایک منفی اور سکسس مثبت عمل بن جاتا ہے ۔ وکٹری میں آپ دوسرے پر فتح پاکر آگے نکل جاتے ہیں جبکہ سکسس کی اپروچ میں آپ کسی اور کی انا یا ذات کو نقصان پہنچائے بغیر خود کامیاب ہوتے ہیں ۔ اس وقت غور سے دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ بھی اس مرض کا شکار ہوگیا ہے کہ اس کی توجہ سکسس پر کم اور وکٹری پر زیادہ ہے ۔ ہمیں اپنی کامیابی سے زیادہ دوسرے کی ناکامی کی تمنا ہوتی ہے ۔ حسد کی آگ میں جل کر ہم دن رات دوسروں کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ ہر کسی کو اپنی اپنی قسمت میں لکھا ہوا ہی ملتا ہے ۔ ہم دوسروں کی عزت دیکھ سکتے ہیں ، نہ شہرت اورنہ دولت، اس لئے ہروقت منفی ذہن کے ساتھ اس کے خلاف اس احمقانہ سوچ کے ساتھ بولتے رہتے ہیں کہ اس عمل سے اس کی کامیابی ، ناکامی میں بدل جائے گی حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ہمیں چین جیسے دوست سے سبق لینا چاہئے ۔ اس سے کئی بار امریکہ اور انڈیا نے الجھنے کی کوشش کی لیکن وہ خاموشی کے ساتھ اپنی ترقی پر توجہ دیتارہا ۔ آج وہ امریکہ کے مقابلے کے قابل بن گیا ہے لیکن پھر بھی بڑھکیں مار رہا ہے اور نہ وکٹری کی سوچ کے ساتھ انڈیا یا امریکہ کو فتح کرنا چاہتا ہے ۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے اس نے پوری دنیا میں اپنا جال پھیلا دیا ہے اور وکٹری کی بجائے ہر ملک کے ساتھ وہ مشترکہ خوشحالی (Shared prosperity) کے اصول اور سکسس کی اپروچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔