سینیٹ کی قائمہ کمیٹی صنعت و پیداوار کو سیکریٹری صنعت و پیداوار نے بتایا ہے کہ مارکیٹ میں پاکستان اسٹیل ملز کا کوئی خریدار نہیں، حکومت نے اسے اسکریپ کرنے اور زمین کو دوسرے مقاصد کےلیے استعمال میں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عون عباس کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز سے متعلقہ متعدد امور بشمول پاکستان اسٹیل ملز کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ جات، گزشتہ 10 برسوں کے دوران حاصل ہونے والی آمدن اور اخراجات اور دیگر مالی امور پر کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز کی موجودہ صورتحال اور اس کے مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی سمیت اس کی نجکاری کرنے اور ملازمین کے مستقبل سے متعلقہ امور کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
چیف فائنانشل آفیسر (سی ایف او) پاکستان اسٹیل ملز محمد عارف شیخ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ادارے کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ جات 860.99 ارب روپے کے ہیں جن میں سے 2.12 ارب کے اثاثہ جات منقولہ اور 858 ارب کے غیر منقولہ اثاثہ جات ہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کی زمین 622 ارب کی ہے جبکہ وہ زمین جو سرمایہ کاری کیلئے رکھی گئی ہے وہ 63 ارب کی ہے فیکٹری بلڈنگ کے اثاثہ جات 43 ارب کے ہیں، نان فیکٹری بلڈنگ 2 ارب کی ہے، 2.2 ارب کی سڑکیں، ریلوے ٹریک اور پل ہیں۔
عارف شیخ نے کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے 2011 میں پاکستان اسٹیل ملز کو جوائن کیا تب یہ مل تقریباً بند ہو چکی تھی صرف 36 فیصد کپیسٹی پر چل رہی تھی۔
2000 سے 2008 تک یہ ملز اوسطاً 80 فیصد کپیسٹی کے ساتھ منافع دے رہی تھی۔ 2009 میں بین الاقوامی مسئلہ آیا جو دنیا کے بڑے بینکوں کی وجہ سے تھا۔ 30 جون2009 کو یہ ملز 36 فیصد کپیٹسی پر آ گئی اور 26 ارب کا نقصان ہوا، جس کی انکوائری نیب اور سپریم کورٹ دونوں نے کروائی۔
قائمہ کمیٹی نے پاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے ہونے والی تمام انکوائری رپورٹس طلب کر لیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2009 میں ادارے نے حکومت سے کمرشل قرض 15 فیصد پر حاصل کیا اور 6.5 ارب کی ایل سی کی ادائیگی کی۔ کم فنڈز کی وجہ سے پیداواری کپیسٹی کم سے کم ہوتی گئی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس ادارے کے 27 ہزار ملازمین تھے جبکہ 2008 میں ملازمین کی تعداد 20 ہزار تھی اس وقت بھی ادارے کی ضرورت کل 7 ہزار ملازمین کی تھی۔
چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ 2010 میں ساڑھے 4 ہزار ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کی حکومت نے ہدایا ت دیں۔
ادارے کی جانب سے فنڈز کی کمی کا کہا گیا تو حکومت کی جانب سے فنڈز کی ادائیگی کی یقین دہانی کروائی گئی۔ ان ملازمین کا بوجھ ادارے پر 12 ارب روپے کا پڑا۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر عون عباس نے کہا کہ اتنا منافع دینے والے ادارے کو مناسب حکمت عملی کے تحت چلانا چاہیے تھے ایک حکم نامے کے ذریعے اتنے ملازمین ریگولر کرنا ادارے کو تباہ کرنے کے مترادف تھا۔
سینیٹر سید مسرور احسن کے سوال کے جواب میں سیکریٹری صنعت و پیداوار نے بتایا کہ حکومت کے حکم کے تحت کی گئی بھرتی غیر قانونی نہیں ہوتی۔
اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ نگراں حکومت نے اس ادارے کی نجکاری کے حوالے سے کچھ ترامیم کی تھیں، مارکیٹ میں ابھی پاکستان اسٹیل ملز کا کوئی خریدار نہیں ہے، حکومت اس کو اسکریپ کرنے اور زمین کو دوسرے مقصد میں استعمال میں لانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور وفاقی کیبنٹ نے بھی اس کی منظوری دی ہے۔ زمین وفاق کی ہے یا سندھ حکومت کی اس کے لیز کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
مالی سال 2022-23 میں ادارے کی آمدن 5.65 ارب روپے تھی جس میں سے2.71 ارب روپے اسکریپ فروخت کر کے حاصل کی گئی جبکہ اخراجات 33.11 ارب روپے رہے، 25 ارب کا مالی سال 2022-23 میں خسارہ رہا۔
انتظامی اخراجات کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ لیبر کاسٹ2.1 ارب روپے کی ہے جو گزشتہ برس 2.9 ارب کی تھی اور اس سے قبل برس 4.9 ارب کی تھی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کی 500 گاڑیاں ہیں جن میں بسیں، کاریں اور سیکیورٹی وینز وغیرہ شامل ہیں جن میں سے 350 ورکنگ حالت میں ہیں اور باقی ناکارہ ہو چکی ہیں۔
ادارے کی 1500 ایکڑ زمین سی پیک میں استعمال ہوگی اور اس ادارے کی کل زمین 18 ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے جس میں سے 8 ہزار ایکڑ پر رہائشی کالونیاں قائم ہیں باقی پر پلانٹ لگے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی کہ سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار پاکستان اسٹیل ملز یونین کے نمائندوں سے ملیں اور معاملات کو بہتر بنائیں۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز سید مسرور احسن، دنیش کمار، حسنہ بانو، سیف اللّٰہ سرور خان نیازی، خلیل طاہر، محمد عبدالقادر اور دوست علی جیسر کے علاوہ سیکرٹری صنعت وپیداوار، سی ایف او پاکستان اسٹیل ملز اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔