پارلیمان نے نئے مالی سال کیلئے تقریباً 19 ہزار ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور کر لیا ہے۔ بجٹ میں نئے مالی سال کیلئے ٹیکس محصولات کا ہدف 13 ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے نئے ٹیکس لگانے کے علاوہ براہ راست ٹیکسوں میں 48 فیصد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں پیٹرولیم لیویز سمیت نان ٹیکس ریونیو میں 64 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ نئے بجٹ میں محصولات بڑھانے کیلئے منظور کئے گئے نئے اقدامات کے نتیجے میں متاثر ہونے والے شعبوں میں ٹیکسٹائل کا شعبہ سرفہرست ہے جس کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں تنخواہ دار طبقہ شامل ہے۔ بجٹ میں بین الاقوامی فضائی سفر کیلئے ٹکٹوں پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی شق بھی منظور کی گئی ہے۔ اس شق کے تحت یکم جولائی سے بین الاقوامی سفر کیلئے اکانومی اور اکانومی پلس ٹکٹ پر ساڑھے بارہ ہزار روپے ٹیکس لاگو ہو گا جبکہ امریکا اور کینیڈا کیلئے بزنس کلاس اور کلب کلاس ٹکٹ پر ٹیکس میں ایک لاکھ روپے تک اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے سفرکیلئے بزنس، فرسٹ اور کلب کلاس پر ڈیڑھ لاکھ روپے ٹیکس لگایا گیا ہے جبکہ یورپ کے فضائی سفر کیلئے بزنس، فرسٹ اور کلب کلاس پر 2 لاکھ 10 ہزار روپے ٹیکس لاگو ہو گا۔ علاوہ ازیں مشرق بعید، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا فضائی سفر کرنے والوں کو بزنس، فرسٹ اور کلب کلاس پر دو لاکھ 10ہزار روپے ٹیکس دینا ہو گا۔حکومت کے ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے پہلے سے ٹیکس دینے والے طبقات پر محصولات کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھا دیا ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو فائنل ٹیکس رجیم سے نکال کر منیمم ٹیکس رجیم میں شامل کرنے، تنخواہ دار طبقےپر ٹیکس کی شرح میں اضافے اور بیرون ملک سفر پر بھاری ٹیکس کے نفاذ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت برآمدات میں اضافے کے ذریعے ملک کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ ان اقدامات سے جہاں ایک طرف ایکسپورٹرز کو ایف بی آر کے عملے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے وہیں ان کیلئے باصلاحیت افراد کو ملازمت پر رکھنے کی لاگت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ بیرون ملک سفر پر اضافی ٹیکسز کا نفاذ بھی اس حوالے سے ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ واضح ہے کہ پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے نجی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ حتمی طور پر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ تاہم ان چیلنجز کے باوجود کوئی بھی ذی فہم شخص حکومت کی اس پالیسی کی تعریف نہیں کرے گے جو اس نے حالیہ بجٹ میں محصولات کا ہدف حاصل کرنے کیلئے اختیار کی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل طبقات پہلے ہی ٹیکس در ٹیکس ادائیگیوں کے باعث مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ عام آدمی کیلئے بھی ہر چیز کی خریداری پر بھاری سیلز ٹیکس کی ادائیگی لازمی ہے۔ ایسے میں افسوسناک امر یہ ہے کہ اب بھی ملک میں بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت دستیاب ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور ٹیکس قوانین میں وضاحت کی کمی ٹیکس دہندگان کیلئے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع کیلئے اس خامی کو ٹیکس میکانزم اور قوانین بہتر بنا کر دور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے حال ہی میں ایف بی آر اور کسٹم کے بعض افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی ہے۔ تاہم ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ حالیہ بجٹ بھی اس پالیسی کا تسلسل نظر آتا ہے جس سے بہتری کی امید پیدا ہونے کی بجائے مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔