• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کی عزاداری میں ویسے تو کئی نمایاں نام ہیں، مگر رثائی عزا میں مرحوم ناصر جہاں کے بعد دوسری مقبول آواز، اشرف عبّاس کی تھی۔فرق صرف یہ تھا کہ ناصر جہاں نے مجلس کے بعد’’ سلامِ آخر‘‘ کی بنیاد رکھی، جب کہ اشرف عبّاس کی آواز ذاکر کے خطاب سے پہلے سلام پڑھنے کے سبب امر ہوئی۔زندگی کے مسلسل 55سال تک نشتر پارک کی مرکزی مجلس میں ذاکر کے خطاب سے پہلے مختلف شعراء کے کلام پڑھ کر مُلک گیر شہرت حاصل کرنے والے اشرف عباس، پیشے کے لحاظ سے معلّم تھے۔ 

وہ1942ء میں ہندوستان کے صوبے، یوپی کے شہر، میرٹھ میں پیدا ہوئے۔قیامِ پاکستان کے دو سال بعد یہ خاندان ہجرت کر کے کراچی آیا۔والد، منور عبّاس وکالت کے شعبے سے وابستہ ہونے کے ساتھ ادب سے بھی گہری دل چسپی رکھتے تھے اور خود بھی سلام و منقبت کہتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں عزاداریٔ سیّد الشہداءؓ کے فروغ کے لیے متحرّک ہوگئے اور یوں معروف عالمِ دین، علّامہ رشید ترابی سے مراسم پیدا ہوئے۔یہاں تک کہ علّامہ ترابی نے اپنے قانونی معاملات اُنھیں ہی سونپ دیئے اور اپنی ہر مجلس میں اُنھیں اپنے ساتھ لے کے جاتے۔

اشرف عبّاس نے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں والد کا لکھا کلام پڑھنا شروع کردیا تھا۔جہاں جاتے نعت، سلام یا نوحہ سُنانے کی فرمائش کی جاتی۔ تاہم، تب تک کسی بڑے مجمعے میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔وہ1963 ء کے محرّم کی دوسری تاریخ تھی، کراچی کے خالق دینا ہال کے سامنے کی مسجد سے اذانِ عشاء کا انتظار ہو رہا تھا۔ 

اذان کے بعد علّامہ رشید ترابی نے زیبِ منبر ہونا تھا۔اشرف عبّاس نے، جو روز اپنے والد کے ساتھ مجلس میں شرکت کرتے تھے، دھیمی آواز میں اپنے والد سے کہا کہ’’ کیا مَیں سلام پڑھ سکتا ہوں؟‘‘برابر میں بیٹھے علّامہ ترابی نے پوچھا’’صاحب زادے کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘منوّر عباس نے بات ٹالنا چاہی، لیکن اصرار پر پوری بات بتا دی۔اذان ختم ہوئی، تو علّامہ رشید ترابی نے اشرف عبّاس کی طرف دیکھ کر کہا’’ چلو بیٹا! منبر پر جاؤ۔‘‘علّامہ ترابی کو سُننے کے لیے ہزاروں کا مجمع موجود تھا۔

اشرف عبّاس کا منبر پر یہ پہلا سلام تھا، جو اُن کے والد کا لکھا ہوا تھا۔ اس سلام کے بول تھے۔؎’’کبھی فرطِ ادب میں اشک فشانی نہیں جاتی…ہیں لب خاموش، مگر مرثیہ خوانی نہیں جاتی۔‘‘ سلام مکمل کرکے جب منبر سے نیچے اُترے، تو مجمعے کی طرف سے دادِ تحسین کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔

علّامہ رشید ترابی نے خصوصی طور پر حوصلہ افزائی کی اور ساتھ ہی منّور عبّاس کی طرف دیکھ کر کہا’’ وکیل صاحب! کل سے صاحب زادے روزانہ نشتر پارک میں سوز خوانی کے بعد سلام پڑھیں گے۔‘‘یوں کراچی کی مجالس میں ذاکر کے خطاب سے قبل سلام گزاری کی روایت اشرف عباس ہی نے ڈالی۔

جب مشہور ہوئے، تو جگہ جگہ سے سلام پڑھنے کی فرمائشیں آنے لگیں۔اِس پر والد نے نصیحت کی کہ اپنی سواری پر جائیں گے، کسی سے سلام پڑھنے کا ہدیہ وصول نہیں کریں گے۔کسی کے بے حد اصرار پر بھی اگر ہدیہ وصول کیا، تو پڑھنے پر پابندی عاید کر دیں گے اور وہ آخری وقت تک والد کی نصیحت پر عمل پیرا رہے۔

اُنہوں نے اپنے والد منور عبّاس کے علاوہ جوش ملیح آبادی، علّامہ رشید ترابی، علّامہ نسیم امروہوی، آلِ رضا، قمر جلالوی، مولانا محمّد مصطفیٰ جوہر، علّامہ طالب جوہری، سردار نقوی، افتخار عارف، ہلال نقوی اور شاہد نقوی جیسے شعرا کا کلام بھی پڑھا۔جب کہ بہت سا کلام تو ایسا ہے کہ جسے وہ نہ پڑھتے، تو صرف کتابوں ہی تک محدود رہتا اور بہت سا کلام ایسا بھی ہے، جو بہت سے لوگوں نے پڑھا، مگر شہرت کی بلندیاں اشرف عبّاس ہی کے حصّے میں آئیں۔اُنھوں نے مولانا حسن امداد کی ایک نظم کچھ ایسے پڑھی کہ پھر وہ نظم بھی اُن کے ساتھ مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچ گئی۔

اس نظم کے بول تھے۔؎ ’’کربلا ہو چُکی تیار، تقدّم ولدی۔‘‘اور جب ایک مجلس میں اشرف عباس نے بھارت کے مشہور شاعر، پيام اعظمی کی نظم’’ 14صدیاں بیت گئیں، شبّیرؓ کا چرچا باقی ہے‘‘ پڑھی، تو مُلک گیر شہرت کے حامل ٹھہرے۔اِسی طرح اردو کے نام وَر مرثیہ گو، نجمؔ آفندی کی نظم’’اِس چاند کی دس کو سانجھ تلک، شبیرؓ سے دنیا خالی تھی‘‘ کو اشرف عبّاس نے شہرۂ آفاق بنا دیا۔ اُن کی عادت تھی کہ کلام پڑھنے سے پہلے اس کے لکھنے والے کا نام لیتے اور اگر تخلیق کار دنیا سے چلا گیا ہوتا، تو دعائے مغفرت کرتے اور پھر کلام شروع کرتے۔

اُن کی آواز میں کوئی بناوٹ نہیں تھی، بلکہ بہت فطری آواز تھی۔وہ بیرونِ مُلک بھی سلام پڑھنے جاتے تھے۔نیز، نعت خوانی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ قمر جلالوی کی ایک نعت نشتر پارک کے منبر سے کچھ اِس طرح پڑھی کہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی۔اس کے الفاظ تھے۔؎ ’’ مزہ جب ہے کہ اپنی یوں بسر ہو…حرم میں شام، طیبہ میں سحر ہو۔‘‘1984 ء میں نویں محرّم کی سہ پہر اُن کی والدہ اور نصف گھنٹے بعد دختر کا انتقال ہو گیا۔ دوسرے دن، یومِ عاشور تھا۔ دسویں محرم کی مجلس نشتر پارک میں صبح ساڑھے سات بجے شروع ہو جاتی تھی اور وہاں اشرف عبّاس نے سلام پڑھنا تھا اور اُنھوں نے پڑھا۔

اشرف عباس نے گورنمنٹ بوائز کالج سے میٹرک، ایس ایم آرٹس کالج سے انٹر، گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے بی اے اور جامعہ کراچی سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔ پھر حسینی بوائز اسکول، ناظم آباد سے بطور استاد منسلک ہوئے، مگر تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن سے 1965میں بی ایڈ کیا اور اسی سال گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول سے ملازمت کا آغاز ہوا۔

بعدازاں، جامعہ کراچی سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ایم ایڈ بھی کیا۔1982ء میں ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن میں تبادلہ ہوا اور سالانہ مجلّہ نکالنے کی ذمّے داری سونپ دی گئی۔اسکولز میں کھیلوں کی سرگرمیوں کی نگرانی بھی اُن کے سپرد تھی۔1988 ء میں گریڈ 17 میں ترقّی ہوئی اور گورنمنٹ سینیئر ماڈل اسکول، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے ہیڈ ماسٹر مقرّر ہوگئے۔ 

گورنر سندھ نے چار سال کے لیے ایجوکیشن بورڈ کی کمیٹی کا رُکن بھی منتخب کیا۔ 2002 ء میں37 برس کی ملازمت سے سُبک دوش ہوئے تو حبیب پبلک اسکول سے انگریزی کے استاد کے طور پر وابستہ ہوگئے۔ 2005 ء میں حیدری پبلک اسکول کے پہلے استاد، پھر چیف کوآرڈینیٹر اور کچھ عرصے بعد پرنسپل مقرّر ہوئے۔ 1980ء سے 2013ء تک علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، کراچی ریجن میں بی ایڈ کے طلبہ کو انگریزی بھی پڑھاتے رہے۔ اشرف عباس29 فروری2020 ء کو مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے اور کراچی کے وادیٔ حسین قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔