پُرتعیش زندگی، شاہی محل کی نعمتوں، محمود کی قُربت اور مدح سرائی نے فردوسی کو خاصا مغرور کردیا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا استغنا بڑھتا جارہا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُن کی طبیعت میں گستاخانہ بے پروائی آگئی۔ ایک طرف حسن میمندی دل میں عداوت رکھتا اورموقعے کی تلاش میں تھا کہ محمود کے سامنے فردوسی کی عزت خاک میں ملادے۔ دوسری طرف فردوسی کو اپنی علمیت و قابلیت پراس قدر گھمنڈ ہوگیا تھا کہ وہ حسن میمندی کو ذرّہ برابر اہمیت نہ دیتے۔
نیز، فردوسی روز و شب ’’شاہنامہ‘‘ میں اس قدر مشغول تھے کہ اُن کے پاس محلّاتی سازشوں سے متعلق سوچنے یا دشمنیاں نبھانے کے لیے وقت بھی نہ تھا۔ وہ تو بس غرور اور بے خبری میں جیے جارہے تھے اور حسن میمندی اس تاک میں تھا کہ گھات لگا کر حملہ کردے، مگر مسئلہ یہ تھا کہ فردوسی کے پاس کوئی ایسی حکومتی ذمّے داری نہیں تھی کہ اُن سے لغزش ہوتی اور اُن کا مواخذہ کیا جاسکتا۔ البتہ کئی بار حسن میمندی اور فردوسی کی تکرار اور بحث ضرور ہوئی، تو فردوسی آپے سے باہر ہوگئے۔
ایک بار تو اُنھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’مَیں تمہارا یا سلطان محمود کا محتاج نہیں ہوں۔ میرے پاس علم اور شعر وشاعری کا ہُنر ہے، مَیں جہاں جائوں گا، اسی طرح عزت سے نوازا جاؤں گا۔‘‘حسن میمندی نے فردوسی کے ان ہی خیالات کو بنیاد بنا کر سلطان کے کان بھرنے شروع کردیے، جب کہ کئی درباری علماء کو بھی اپنے ساتھ ملالیا، جنھوں نے ’’شاہنامہ‘‘ کے بعض اشعار سے ایسے ایسے مطالب نکالے کہ فردوسی کو بھی زچ کرکے رکھ دیا۔ تنگ آکر فردوسی نے حسن میمندی ہی کے خلاف چند اشعار کہہ دیئے، جو اُس تک پہنچ گئے اور انہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اب ایک نیام میں دو تلواروں کا رہنا ناممکن تھا۔
منظّم منصوبہ بندی کے تحت محمود تک فردوسی کے گھمنڈ اور عقائد کی باتیں مسلسل پہنچائی جانے لگیں، مگرمحمود غزنوی نے اُن باتوں کی کچھ پروا نہ کی، کیوں کہ وہ ایک قدردان اور روشن دل حُکم ران تھا، یہاں تک کہ ایک دن اُس نے ان سب باتوں کے جواب میں سرِ دربار برملا کہہ دیا ’’مَیں فردوسی کو اُس کی لیاقت کی وجہ سے چاہتا ہوں۔‘‘ محمود کے اس جواب سے فردوسی کے تمام دشمن اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
اس حوالے سے جارج ہملٹن کے یہ الفاظ بھی نہایت معتبر ہیں کہ،’’محمود غزنوی جیسے ذہین اور قابل حکم ران کے لیے کیسے ممکن تھا کہ وہ مولویوں کی سازشوں کو نہ سمجھ سکتا اور ان کے کہنے پر فاضل شاعر کو دربار سے علیٰحدہ کردیتا۔ گو وہ ایک قہّار فاتح اور جرّی حکم ران تھا، لیکن ان صفات کا اظہاروہ میدانِ جنگ میں پسند کرتا تھا۔ دربار میں علماء اور فاضل شعراء کے لیے وہ منکسر المزاج، شریف طبیعت اور قدردان تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لائق اور قابل لوگوں کا نازبردار تھا۔
اگرچہ مذہب کے ضمن میں سخت مزاج تھا، لیکن اُس کی یہ سخت مزاجی محض ہم پلّہ حُکم رانوں کے مقابل ہوتی تھی، نہ کہ اپنے ملازمین کے لیے۔ وہ اپنے لاثانی فضلاء کا کشادہ دلی سے احترام کرتا اور اسے کسی کے مذہب سے کوئی سروکار نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے یہاں بہت سے نصرانی بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے، جن میں سرِفہرست، مسٹرسی مین تھا، جو ’’آسمانی‘‘ کہلاتا تھا۔
یہ دراصل اطالیہ کا باشندہ اور فیل خانے کا داروغہ تھا اور اُس کی موت پر محمودغزنوی نے بہت افسوس اور رنج کا اظہار کیا تھا۔ تو ایسے قدردان حُکم ران سے کیوں کر ممکن ہوسکتا تھا کہ وہ اُن اعتراضات کی کچھ پروا کرتا، جو محض بدخواہی کی آڑ میں فردوسی پرعائد کیے جاتے تھے۔‘‘ اسی طرح سرجارج ہملٹن کی محمود کے اوصاف و کردار سے متعلق یہ منصفانہ رائے بھی قابلِ قدر ہے کہ’’اگر فردوسی کی بے اعتدالیاں حد سے نہ بڑھتیں اور وہ اپنے غرور کو لگام دے پاتا، تو کبھی بھی محمود کے دربار سے راندۂ درگاہ نہ ہوتا۔‘‘
جب فردوسی کو اس بات کا علم ہوا کہ سلطان نے اُس کے مخالفین کی خُوب خبرلی ہے اور اُنھیں جھڑک دیا ہے، تو وہ اور بھی غیر محتاط ہوگئے اور ایسی حرکتوں اور لغزشوں پہ اُتر آئے، جو محمود غزنوی جیسے غیّور حاکم کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوئیں۔
جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ سلطان محمود نے ایک ہزار اشعار کا صلہ ایک ہزار اشرفی مقرر کیا تھا اور یہ کام حسن میمندی کے ذمّے تھا، لیکن فردوسی نے ٹکڑوں میں لینے کے بجائے ایک ہی بار پورا معاوضہ لینے پر اصرار کیا، کیوں کہ وہ اس زرِ خطیر سے اپنے گائوں میں پُل بنوانا اور ایک سرائے تعمیر کروانا چاہتے تھے۔
چوں کہ اُن کی تن خواہ علیٰحدہ مقرر تھی، لہٰذا اس کے علاوہ اُنھیں کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی اور پھر امراء و رؤساء کی طرف سے تحفے تحائف کے انبار بھی لگے رہتے تھے۔ جیسا کہ کسی نے رستم و اسفندیار کے حوالے سے اُن کا لکھا ہوا منظوم نامہ فخر الدولہ دیلمی کو لے جا کردیا، تو اُس نے لانے والے کو انعام و اکرام سے نوازنے کے علاوہ فردوسی کو بھی ایک ہزار دینار بھیجے۔
فردوسی نے کسی غیرحُکم ران کی طرف سے دیئے گئے انعامی دینار محمود کو مطلع کیے بغیر قبول کرلیے اور بس، یہیں سے فردوسی کی قسمت کا ستارہ گردش میں آگیا کہ فخرالدولہ اور محمود غزنوی کی پہلے ہی سے مخاصمت چلی آرہی تھی۔ دراصل دیلمی ’’معتزلی‘‘ تھا اور محمود اُس سے سخت نفرت کرتا تھا۔
یہ بات بھی افسوس ناک تھی کہ فردوسی، محمود کے دشمنوں کو ’’شاہنامہ‘‘ کے منظوم حصّے بھیجتے اور انعام وصول کرتے تھے اور فردوسی سے محمود کی ناراضی کی سب سے بڑی وجہ یہی بات بنی۔ جب کہ فردوسی کے دشمن تو پہلے ہی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے محمود کو ناراض دیکھ کر موقع غنیمت جانا اور اس بار اپنا وار خالی نہ جانے دیا۔ محمودغزنوی نے بھی فردوسی سے متعلق کہی گئی سب باتوں کا یقین کرلیا۔
سرجارج ہملٹن لکھتا ہے،’’فی شعر ایک اشرفی مقرر کرنا تو ایک معمولی صلہ اور بہانہ تھا، اس کے علاوہ بھی کئی غیرمعمولی عنایات فاضل شاعر پر کیے جانے کا ارادہ پہلے ہی سے کر رکھا تھا۔ سلطان محمود نے اپنی سواری کے کئی عربی گھوڑے اور دو ہاتھی مع ساز و سامان، فردوسی کو دینے کے لیے نام زَد کردیئے تھے، لیکن بدقسمتی فردوسی کے سر پر منڈلا رہی تھی، جس نے فاضل شاعر کو آخرکار ذلیل و خوار کیا۔‘‘
اسی معاملے کے حوالے سے عظیم سمرقندی لکھتے ہیں کہ ’’فردوسی کا اپنی بیش بہا نظم، محمود سے چُھپا کر فخرالدولہ دیلمی کو بطور نذرانہ بھیجنا اور اُس سے صلے کی اُمید کرنا، گویا محمود کی پُرجلال شان اور لاثانی قدردانی پر سخت حملہ تھا، اور ممکن تھا کہ قہّارسلطان کا غضب انگیز طیش، فردوسی کی جان پر ٹوٹ پڑتا اور اسے بالکل پامال کردیتا، مگر اس نے جاہ و عظمت، کوہِ تحمّل اور بُردباری سے ضبط کیا اور اس خیال کو اپنے دل سے مٹادیا، لیکن بعدازاں، یہ خیال ایک واقعے سے پھر تازہ ہوگیا، جس کے بعد نوبت یہاں تک آپہنچی کہ محمود غزنوی حد درجہ بَرافروختہ ہوگیا اور یہ خبر دربار سے نکل کر سارے شہر میں پھیل گئی کہ محمود، فردوسی سے ناراض ہوگیا ہے۔
ایک دن اسی طرح دربار میں فردوسی کی برائیاں ہورہی تھیں کہ اسی اثنا ایک شخص نے کہا، ’’فردوسی کے عقائد کی نسبت اب تک جو رائے زنی کی گئی ہے، وہ صحیح نہیں۔ وہ دہریہ ہے، نہ فلسفی، بلکہ وہ آتش پرست ہے، اُس نے اپنے بزرگوں کا عقیدہ اب تک نہیں چھوڑا۔‘‘ اُس شخص سے ثبوت دریافت کیا گیا، تو اُس نے کہا کہ ’’فردوسی کا قاعدہ ہے، جہاں آتش پرستوں کا ذکر آتا ہے، یہ اُن پر فخریہ انداز میں شعر کہتا ہے، جیسا کہ اُس نے ’’شاہنامہ‘‘ میں کیخسرو کا ذکر بڑی شان سے کیا ہے۔
نیز، ’’شاہنامہ‘‘ میں بہت سی جگہوں پر کسی نہ کسی پہلوان کی زبانی اپنی گزشتہ قوم کی تعریف کرواتا ہے، لیکن جب مسلمان عربوں کا ذکر آتا ہے، جیسا کہ قادسیہ کے میدان میں حضرت سعد بن وقاصؓ نے صف بندی کی اور شاہِ ایران کو نامہ بھیجا، تو اس آتش پرست شہنشاہ کی زبانی مسلمان عربوں بلکہ صحابہؓ کی نسبت (نعوذباللہ) جلے بُھنے اشعار کہتا ہے۔‘‘
پے در پے ایسے واقعات نے محمود پر اچھا اثر مرتّب نہ کیا اور وہ فردوسی سے کبیدہ خاطرہوگیا، مگر مرحبا، اس متحمّل طبیعت اورقدردان سلطان پر، اُس نے پھر بھی اپنے طیش کا کھلّم کُھلا اظہار کیا، نہ ہی اُس کی مروّت نے یہ گوارہ کیا کہ وہ منہ دَر منہ فردوسی سے کچھ کہتا۔‘‘
بہرحال، ان حملوں کےعلاوہ بھی فردوسی کی نظم پرمسلسل نکتہ چینی جاری رہی اور عین دربار میں اُس کی شاعری میں کیڑے نکالے جانے لگے۔ کہیں سے آواز آتی، اُس کی نظم میں مبالغہ آرائی ہے، تو کہیں سے صدا بلند ہوتی کہ نظم میں حشو بہت ہے۔ کوئی محاوروں پر معترض ہوتا، تو کوئی لطافت کی کمی کا ذکر لے بیٹھتا۔
اس پرایک روز سلطان محمود نے کہا کہ ’’فردوسی کی شاعری میں تمام عیب ہی ہیں، یا کچھ ہُنر بھی ہے؟‘‘ سلطان کی برہمی محسوس کی، تو فردوسی کے کچھ چاہنے والوں نے اُن کی خوبیاں گنوانا شروع کردیں اور یوں دربار میں دو گروہ بن گئے۔ حیاتِ فردوسی کے مصنّف، میرزا حیرت دہلوی لکھتے ہیں،’’اس طرح فردوسی نے 35برس کے عرصے میں ساٹھ ہزارابیات پر ’’شاہنامہ‘‘ کا اختتام کردیا۔ ان 35برسوں میں بڑی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی۔ محمود کے دل پر کئی کئی بار فردوسی کی طرف سے نقشِ کدورت جمتے اور مٹتے گئے۔
جب کہ اس عرصے میں دشمنوں نے بھی بہت زور لگایا، لیکن فردوسی کا بال بھی بیکا نہ کرسکے، نہ ہی کبھی محمود نے ان کی چشم نمائی کی۔ وہ اُن کی قدر بخوبی جانتا تھا اور اُسے علم تھا کہ اِن درباری شکایتوں کی نسبت، جو شب و روز کی جاتی ہیں، فردوسی کی لیاقت زیادہ قیمتی ہے۔
گو، محمود کا دل پھر بھی صاف تھا، مگر فردوسی درباریوں کے بہکانے سے کھٹک گئے تھے اور سمجھنے لگے تھے کہ اب اُنھیں 35برس کی محنت کا صلہ نہیں ملے گا۔ کچھ افراد کے دوغلے پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف محمود غزنوی سے فردوسی کی شکایت کرتے، تو دوسری طرف فردوسی سے محمود کی۔
اگرچہ اُن کی یہ شکایات محمودغزنوی کے آگے تو محض بے وقعت ثابت ہوئیں، لیکن فردوسی کے دل پر نقش گہرا ہوتا چلا گیا۔ افسوس کہ جس ذوق و شوق سے اُس نے ’’شاہنامہ‘‘ لکھنا شروع کیا تھا، اُس سے کہیں زیادہ حسرت و ناکامی سے اُسے اُس کے اختتام پر اپنے دل کی افسردگی و شکستگی ظاہر کرنی پڑی اور پھر اپنی اس لاثانی تصنیف کو بہت بجھے دل اور رقّت انگیز اشعار کے ساتھ ختم کردیا۔‘‘
’’شاہنامہ‘‘ مکمل ہونے کے بعد سلطان محمود کی خدمت میں رکھا گیا، تو اُس نے خوشی کا اظہار کیا۔ اہلِ دربار نے مبارک دی اور محمودغزنوی نے وعدے کے مطابق حسن میمندی کوحکم دیا کہ فردوسی کو ساٹھ ہزار اشرفیاں، انعامات اور خلعت دے کر رُخصت کرے۔ تاہم، حسن میمندی نے تامّل کیا اور حیلے بہانوں سے محمود کو اس بات پر راضی کرلیا کہ فی الحال فردوسی کو صرف ساٹھ ہزارطلائی سکّے دیئے جائیں، کیوں کہ اس طرح اُن کے ظرف کو بھی آزمالیا جائے گا اور خزانے پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ اس کام کے لیے ایاز کو مامور کیا گیا۔
ایازجب یہ رقم لے کر فردوسی کے پاس پہنچا، تو وہ حمّام سے نکل رہا تھا۔ پہلے تو وہ اپنا مال اور انعام و اکرام دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ آخر یہ زندگی بھر کی محنت کا صلہ تھا، مگر جیسے ہی اُسے ایاز کی زبانی علم ہوا یہ ساٹھ ہزار اشرفیاں نہیں، بلکہ طلائی سکّے ہیں، تو بہت برہم ہوا۔ قریب ہی ایک شربت بیچنے والا کھڑا تھا۔
ایاز نے بے چینی میں وہاں اُس کے سامنے جلدی جلدی ایک گلاس شربت پیا اور وہ تمام رقم اُس کے سپرد کردی۔ پھر فردوسی نے ایاز کو مخاطب کرکے محمود کو بہت جلی کٹی سنانے اوردل کی بھڑاس نکالنے کے بعد کہا کہ’’سلطان محمود کے پاس جاکر اِسی طرح اُسے بتادو۔‘‘
سو، ایاز نے فردوسی کی تمام باتیں لفظ بہ لفظ سلطان کے گوش گزار کردیں۔ تاہم، رحم دل سلطان غصّے کی بجائے پچھتانے لگا اوراس صورتِ حال کا ذمّے دار، حسن میمندی کو ٹھہرایا۔ حسن میمندی نے اس موقعے کو غنیمت جان کر فردوسی پر کاری ضرب لگائی اور سلطان سے کہا کہ ’’فردوسی نے کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے اور آپ کے انعام و اکرام کی بے قدری کی ہے۔‘‘
میمندی کی یہ بات سلطان محمود کے دل و دماغ میں ایسی بیٹھی کہ اُسے یکے بعد دیگرے فردوسی کی تمام لغزشیں اور بداعمالیاں یاد آنے لگیں اوراُسے یقین ہوگیا کہ فردوسی واقعتاً سخت مغرور، گستاخ اور احسان فراموش ہے۔ بات بگڑتی گئی، حتیٰ کہ سلطان کا غصّہ، قہراور غضب میں بدلنے لگا، بالآخر اُس کے منہ سے نکل گیا کہ ’’اس گستاخ کو ہاتھی کے پائوں تلے روند دیا جائے۔‘‘
فردوسی پر یہ خبر بجلی بن کر گری اور اُس کڑی آزمائش اور قیامت کی گھڑی میں وہی ایاز، جو فردوسی کو اپنا باپ کہتا تھا، اُن کے کام آیا۔ ایاز نے کچھ جواہرات اور نقدی فردوسی کو دی اور شہر سے باہر ایک پوشیدہ جگہ پر ایک عربی گھوڑا کھڑا کردیا۔ شب کو فردوسی بھیس بدل کر شہر سے نکلے اور اس تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوکر وہاں سے چلے گئے۔ جاتے جاتے ایک بند لفافہ ایاز کو دیا اور کہا کہ میرے جانے کے بیس دن بعدیہ لفافہ سلطان محمود کی خدمت میں پیش کردینا۔
غزنی پہنچنے کے بعد فردوسی نے وہاں کی جامع مسجد کی دیوار پر ایسے کچھ اشعار لکھ کر چسپاں کروادیے، جس میں سلطان کی دریا دلی پرگہرا طنز کیا گیا تھا۔ ایاز ایک شائستہ اور مہذّب غلام تھا۔ اُس نے زمانے کے گرم وسرد سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ سچ بولتا، وعدہ پورا کرتا تھا اور یہی خوبیاں محمود کو پسند تھیں۔ اُس نے فردوسی سے کیا ہوا اپنا وعدہ نبھایا اور بیس دن بعد لفافہ محمودغزنوی کی خدمت میں پیش کردیا۔ محمود نے لفافہ کھول کردیکھا، تو ایک کافی طویل ہجو لکھی ہوئی تھی۔
محمود جوں جوں وہ اشعار پڑھتا گیا، اُس کا چہرہ مغموم ہوتا گیا، یہاں تک کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ فردوسی نے اُن اشعار میں محمود سے نہ صرف اپنی ناقدری کا گلہ کیا تھا، بلکہ غصّے میں اُسے فحش گالیاں تک دی تھیں۔ ہجو پڑھنے کے بعد اس نے ایاز سے کہا ’’مجھے ان گالیوں کا اتنا صدمہ نہیں، جتنا فردوسی کی آزردگی کا ہے۔‘‘ اس کے بعد اُس نے فوراً حسن میمندی کو اُس کے عہدے سے فارغ کردیا اور فردوسی کی حق تلفی کی تلافی کے لیے فکرمند ہوگیا۔
اُدھر فردوسی اس خوف سے کہ سلطان اُنھیں گرفتار کروا کر ضرور مروا دے گا، مسلسل سفر میں رہنے لگے، اُن کی کوشش تھی کہ جلد از جلد محمود کی سلطنت سے باہر نکل جائیں۔ سلطان محمود نے ہر طرف فرمان بھیج دیے تھے کہ فردوسی جہاں ہاتھ آئیں گرفتار کرکے لایا جائے۔ فردوسی چھے مہینے تک رُوپوش رہے۔ شاہی جاسوس ہرات تک آئے، لیکن اُن کا سراغ نہ پاسکے۔ وقت گزرتا گیا۔ ایک دن فردوسی کوشدّت سے اپنے وطن کی یاد ستانے لگی، تو وہ اپنے وطن لوٹ گئے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محمود کا غصّہ ختم ہوگیا اور اس بات کا پچھتاوا ہونے لگا کہ فردوسی کی حق تلفی ہوئی ہے، وہ دین دارآدمی تھا، اُس کا آخرت پر ایمانِ کامل تھا، اس کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا کہ روزِ قیامت فردوسی کے حق کی تلافی کیسے کروں گا، لہٰذا جب اُسے معلوم ہوا کہ فردوسی اپنے وطن طوس چلے گئے ہیں، تو اُس نے اپنے وعدے کے مطابق ساٹھ ہزار اشرفیاں مع انعامات اُنھیں روانہ کردیے۔
یہ خبر فردوسی تک پہنچ چکی تھی، مگر قسمت نے یاوری نہیں کی اور جس روز انعام و اکرام کا یہ قافلہ فردوسی کے وطن پہنچا، اُسی روز فردوسی کا جنازہ اٹھ رہا تھا۔ گرچہ فردوسی اپنی زندگی میں ’’شاہنامہ‘‘ کے معاوضے سے محروم رہے، لیکن اُن کا خواب بہرحال شرمندۂ تعبیر ہوا کہ وہ تمام مال اسباب اُن کی بیٹی کو دے دیا گیا، جس نے اپنے باپ کی خواہش کے مطابق پُل بنوایا اور سرائے قائم کرنے کے بعد فردوسی کا ایک شان دار مقبرہ بھی تعمیر کروایا۔ ؎ چہ خوش گفت فردوس پاک زاد.....کہ رحمت برآں تربت پاک باد(سعدی)۔
’’شاہنامہ فردوسی‘‘.....واقعتاً رزمیہ داستان ہے.....؟؟
ایرانی تہذیب و ثقافت میں ’’شاہنامۂ فردوسی‘‘ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً ساٹھ ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے، جس میں عظیم فارس کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ کو شعری اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ اس ادبی شاہ کارمیں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ شاعرانہ انداز میں بیان کی گئی ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب و تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ادب و تہذیب سے تعلق رکھنے والے فردوسی کو یونانی شاعر، ہومر کا ہم پلّہ قرار دیتے ہیں۔
’’شاہنامہ‘‘ میں فارس کے عروج و زوال کی داستان کو اس انداز سے الفاظ کے قالب میں پرویا گیا ہے کہ قاری کی دل چسپی پڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے، پھر اس میں ایرانی داستانوں اور ایرانی سلطنت کی مفصّل تاریخ قلم بند ہے، حالاں کہ قدیم فارس کی تاریخ، تہذیب و تمدّن اور ثقافت کا یوں اشعار میں احاطہ ہرگز کارِ سہل نہ تھا، مگر فردوسی یہ کارِعظیم انجام دے کرایرانی ادب میں امرہوگئے۔ آج اُنھیں ایران کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے اور اُن کی تصنیف ’’شاہنامہ‘‘ بلاشبہ ایک ادبی شاہ کار ہے، جسے پورے دنیا کے اہلِ دانش عظیم رزمیہ گردانتے ہیں اوراُس کا شمار عالمی ادب کے اہم فن پاروں میں ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ فردوسی کے ’’شاہنامہ‘‘ سے پہلے بھی ایران میں اِس طرز پر رزمیے تخلیق ہوچُکے تھے۔ مثال کے طور پر’’شاہنامہ ابومنصوری‘‘، جوکہ ایسے ہی واقعات سے معمور تھا اور فردوسی کو اُسی سے مہمیز ملی تھی کہ اس قسم کی غیرحقیقی روایات زمانۂ قدیم کے لوگوں کے اندازِ فکر اور تخیّل کا پتا دیتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں، فارسی زبان، عظیم تخلیقاتی فن پاروں سے مالامال ہے، لیکن ان سب میں بہرحال’’شاہنامۂ فردوسی‘‘ کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ بظاہر دیکھنے میں تو یہ ایرانی بادشاہوں کی منظوم تاریخ ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ اپنے اندرایک رزمیے کی تمام تر خصوصیات بھی لیے ہوئے ہے۔
یہ ایک ایسی نظم ہے، جسے دنیا کی عظیم رزمیہ نظموں میں شمار کیا جاتا ہے کہ ایک طرف تو اس میں قدیم ایرانی تمدّن و ثقافت اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ موجود ہے، تو دوسری یہ طرف مبالغہ آمیز قصّوں، مافوق الفطرت واقعات، ناقابلِ یقین کہانیوں، بہادری اور شجاعت کے کارناموں اور دل چسپ حکایات پربھی مبنی ہے۔ ناقدین کے مطابق ’’شاہنامہ‘‘ میں اخلاق و تہذیب کے مسائل کچھ اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ اُس زمانے کی تہذیب و تمدّن کا پورا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔
مثلاً بادشاہوں کے دربار کیسے لگتے تھے، عوام کے آداب بجا لانے کے طریقے کیا تھے، زمین داری کے لیے کیا قواعد تھے، لگان کیسے مقرر کیا جاتا تھا، تجارت کون لوگ کرتے تھے، تعلیم کا طریقہ کار کیا تھا، شادی بیاہ کی رسوم کیسی تھیں، امراء اور عوام کے لباس کس قسم کے ہوتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ویسے یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ان تمام حالات و واقعات کا مطالعہ کرنے کے بعد ’’شاہنامہ‘‘ کو محض ایک رزمیہ داستان کہنا مناسب بھی ہے یا نہیں۔
اس حوالے سے مولانا شبلی نعمانی ’’شعرالعجم‘‘ میں لکھتے ہیں،’’کلام کی جہانگیری دیکھو، محمود نے دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں مٹا دیں۔ مُلک کے مُلک غارت کردیئے۔ عالم کو زیر و زبر کردیا، لیکن فردوسی کی زبان سے جو بول نکل گئے، آج تک قائم ہیں اور قیامت تک نہیں مٹ سکتے۔‘‘