چند دن قبل نجی ٹی وی چینل پر سینئر سیاستدان مشاہد حسین سید کا انٹرویو نشر ہوا، عالمی منظرنامہ اور حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ رواں برس پہلی دفعہ مشرق سے مغرب تک مختلف ممالک میں قومی و صدارتی الیکشن کا انعقاد ہورہا ہے،الیکشن نتائج میں قدرِ مشترک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ویو ہے یعنی کم و بیش ہر ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی حامی یا قریب سمجھی جانے والی سیاسی جماعتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، انہوں نے اس حوالے سے انڈیا، برطانیہ،ایران، مالدیپ سمیت مختلف ممالک کا بطور خاص تذکرہ کیا جہاں پراسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ سیاسی قوتوں کو پاور آف پبلک اوپینئن کی بدولت عوام کے ہاتھوںٹھیک ٹھاک زک پہنچی ۔مذکورہ ٹی وی انٹرویو میں پیش کردہ تجزیہ نے مجھے اپنے ماضی کا ایک کالم یاد دِلا دیا جس میں رواں برس2024ء کومیں نے عالمی انتخابات کا سال قرار دیتے ہوئے ہندو ویدک علم نجوم کی روشنی میں خبردار کیا تھا کہ امسال ہر انسان کو اپنے کرموں کا پھل ملے گا، ماضی میں جس حکمران نے غرور، تکبر اور غلط کیا، کارما کا یہ سال اسے عرش سے فرش پر لا پھینکے گا اور اچھے کام کرنے والوں کے قدموں میں کامیابی نچھاورہوگی۔ رواں برس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھے جانے والے ملک انڈیا کے الیکشن نتائج نے سب کو حیرت زدہ کردیا ہے، سرحدپار تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ نریندرمودی کی زیرقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی لوک سبھا میںبھاری اکثریت سے کامیاب ہوجائے گی اور مودی پارلیمانی اکثریت کے بل بوتے پر من مانی آئینی ترامیم کرنے کے قابل ہوجائیں گے، تاہم میں نے ویدک علم نجوم کی پیش گوئی پہلے ہی کردی تھی کہ مودی کا چارسو نشستیں حاصل کرنے کا خواب چکناچور ہوجائے گا، رواں برس انڈیا میں سرکار کی تبدیلی کا سال نہیں، پردھان منتری مودی ہی بنیں گے لیکن وہ اتحادیوں کے نرغے میں ماضی جیسے رعب و دبدبہ سے محروم ہوجائیںگے۔بھارت کے پڑوس میں واقع خوبصورت سیاحتی جزیرہ نما ملک مالدیپ کے حالیہ انتخابات دو بڑی علاقائی طاقتوں بھارت اور چین کیلئے خصوصی اہمیت کے حامل تھے، میڈیا اطلاعات کے مطابق ووٹنگ سے قبل پارلیمنٹ کا کنٹرول سابق صدر ابراہیم محمد صالح کی بھارت نواز مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس تھا، تاہم الیکشن نتائج کے بعد بھارت مخالف اور چین نواز صدر محمد میعزو کی سیاسی جماعت پیپلز نیشنل کانگریس نے پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی ہے، وہ مالدیپ سے بھارتی اثرورسوخ کو ختم کرنے کے نعرے پر برسراقتدار آئے ہیں، میعزوکی کامیابی کو انڈیا کیلئے ایک علاقائی سفارتی دھچکا قرار دیا جارہا ہے کیونکہ نئے صدرنے درجنوں بھارتی فوجی افسران کو نہ صرف ملک چھوڑنے کا حکم صادر کیاہے بلکہ چین کے ساتھ شراکت داری میں کئی بڑے منصوبوں اور پیش رفت کا بھی اعلان کیاہے۔ہمارے پڑوسی ملک ایران میں صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں المناک شہادت کے بعد کی صورتحال جس طرح کنٹرول کی گئی، وہ ایک قابلِ تعریف عمل ہے، تاہم ایران کے قبل از وقت صدارتی انتخابات میں اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں اور وہ قدامت پسند صدارتی امیدوارسعید جلیلی کو شکست دے کرایران کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں، مغربی میڈیا کے مطابق ایران کے نئے صدرامریکہ سمیت مغرب سے تعلقات میں بہتر ی کے خواہاں ہیں اور جوہری مذاکرات کو بحال کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایران کے خلاف عالمی پابندیوں کا خاتمہ کیا جا سکے،نئے ایرانی صدر کی جانب سے ماضی میں خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس کو ’غیر اخلاقی‘ قرار دینے کے باعث ایران کے سماج میں تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا جارہا ہے۔ برطانیہ میں حالیہ منعقدہ انتخابات میں عوام نے اسٹیبلشمنٹ کی حامی کنزرویٹو پارٹی کو چودہ سال بعد اقتدار سے باہر کردیا ہے اور لیبر پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے، برطانوی انتخابات میں پانچ آزاد امیدوار صرف فلسطین کی آزادی کے نعرے پر کامیاب ہوگئے ہیں،برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جہاں ایک طرف 2010ء کے بعد پہلی بار لیبر پارٹی کا وزیر اعظم منتخب ہوا ہے وہیں کنزرویٹو پارٹی کو مستقبل کی سمت کاتعین نئے سرے سے کرنا پڑے گا، قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ بھارتی نژاد رشی سونک کا سیاسی کیریئر ختم ہوچکا ہے۔ رواں برس مختلف ممالک میں منعقدہ الیکشن میں عوام کے ہاتھوں اسٹیبلشمنٹ حامی سیاسی جماعتوں کی عکاسی سینگال جیسے افریقی ملک میں بھی ہوتی ہے جہاں ایک قیدی ملک کا نیا صدر بننے میں کامیاب ہوگیا ہے، میڈیا اطلاعات کے مطابق سینگال کے نو منتخب صدر باسیر کو الیکشن سے دس دن قبل جیل سے رہا کیا گیا تھا، اسی طرح یورپی پارلیمنٹ کے حالیہ الیکشن نتائج نے اعتدال پسند اور سخت گیر دائیں بازو کے گروپوں کو شدید منقسم کردیا ہے، بالخصوص فرانس کے صدر اور انکی اعتدال پسند جماعت کیلئے حالیہ انتخابات ایک بھیانک خواب ثابت ہوئے ہیں، یورپی امور پر دسترس رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ باہمی مفاہمت کے بغیر نئی یورپی پارلیمنٹ کو چلاناماضی کی نسبت بہت مشکل چیلنج ثابت ہو گا۔اسرائیل کے غزہ پر بہیمانہ حملوں اور نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی نے خود صہیونی ریاست کے اندر اینٹی اسٹیبلشمنٹ لہر کو پروان چڑھایا ہے اور جس طرح سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں، اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل میں کسی وقت بھی حکومت گِر سکتی ہے، دوسری طرف واحدسپرپاور امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کی بے جا حمایت میں جو رویہ اختیار کیا، اس سے نہ صرف امریکہ کی عالمی سطح پرپوزیشن کو نقصان پہنچا بلکہ رواں برس امریکہ کے صدارتی الیکشن میں بائیڈن کی چھٹی ہوجانے کا بھی امکان ہے، اگر بائیڈن دوسری مرتبہ صدر بننے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو یہ امریکہ کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کی بدترین شکست شمارکی جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ رواں برس کارما تھیوری بھرپور انداز میں متحرک ہے اور ہر وہ سیاسی قیادت جو طاقت کے نشے میں ماضی میں بدترین غلطیاں کرتی رہی ہے، آج اپنے کرموں کا پھل پانے کیلئے ستاروں کی چال کے سامنے بے بس ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)