• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎ان دنوں ہماری سیاست و صحافت میں ’’آپریشن عزم استحکام‘‘ کا بہت چرچا ہے، ہر دو اطراف سے خوب دلائل دیے جارہے ہیں، حکومت کی طرف سے کہا ‎جا رہا ہے کہ آئے روز ہماری فورسز پر جو مسلح حملے ہورہے ہیں اس دہشت گردی کو روکنے کیلئے یہ آ پریشن ناگزیر ہے، اپیکس کمیٹی اس کی منظوری دے چکی ہے،کابینہ نے بھی اسے منظور کر لیا ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص پی ٹی آئی کی جانب سےکے پی اور بلوچستان کے مخصوص علاقوں میں اس مجوزہ آپریشن کی پر زور مخالفت کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی آپریشن ہو سب سے پہلے اس کی منظوری پارلیمنٹ سے لی جانی چاہیے،کوئی بھی کمیٹی چاہےکتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، پارلیمنٹ سے بڑی نہیں ہوتی، پارلیمان سپریم ہے تو اس ایشو پر یہاں بحث کیوں نہیں کروائی گئی؟ ہم نے بات کرنے کی کوشش کی تو ہمارے مائیک بند کر دئیے گئے جس پر ہمیں پارلیمنٹ سے واک آوٹ کرنا پڑا۔ اپوزیشن کی طرف سے اس نوع کے خدشات بھی سامنے آرہے ہیں کہ آپریشن عزم استحکام کے نام پر کے پی میں خود انہیں نشانہ بنایا جائے گا،یا انکی طاقت کچلنےکیلئے اس نوع کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

پچھلے دنوں لوئر دیر میں پختونوں کا ایک گرینڈ قومی جرگہ منعقد ہوا ہے، جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ ہم ملٹری آپریشن کو مسترد کرتے ہیں کوئی لشکر بنے گا نہ ہم نقل مکانی کرینگے۔ افغان سرحد پر باڑ اور چیک پوسٹوں کے باوجودحملہ آور کیسے دراندازی کرکے بحفاظت چلے جاتے ہیں، دہشت گردی کے نام پر سیکورٹی آپریشن کے نتیجہ میں بے گناہ پختونوں کا مزیدخون نہ بہایا جائے، اگرچہ حکومت کی طرف سے اس نوع کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ کوئی بڑا فوجی آپریشن نہیں ہونے جارہا اور نقل مکانی بھی نہیں کروائی جارہی صرف دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔ ‎وزیر دفاع نے زیادہ کھل کر واضح کیا ہے کہ آپریشن عزم استحکام میں سرحد پار دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ہماری معاشی صورت حال بہتر نہیں ہو سکتی۔ آپریشن عزم استحکام کی پالیسی جلد بازی میں نہیں اپنائی، ہم یہ آپریشن خود کریں گے امریکہ سے مدد بھی نہیں لیں گے البتہ اپوزیشن کو آپریشن کے خدوخال بتائیں گے اس سلسلے میں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے۔‎ وزیر اعظم نے بھی واضح کیا ہے کہ ہم اس سلسلے میں سیاسی قوتوں سے بات کرینگے۔ اس سے پہلے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وہ یہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرے، اس سلسلے میں ہم افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ بامعنی بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان اپنے تجارتی محل وقوع کے اعتبار سے اہم تجارتی گزر گاہ ہے اس میں رکاوٹوں کو ہٹانا ہو گا۔ اگر ہماری حکومت کو اتنا ادراک ہے تو اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ سنٹرل ایشیا کے ممالک جس طرح ہماری بندرگاہوں تک رسائی چاہتے ہیں اسی طرح وہ جنوبی ایشیا میں تجارتی سرگرمیاں بڑھانےکیلئے اپنی درآمدات اور برآمدات بھارت تک بڑھانا بھی چاہتے ہیں پاکستان کو بالآخر رکاوٹ بنے بغیر انہیں یہ سہولت دینا ہو گی اس سے پاکستان اربوں ڈالر کما سکتا ہے بشرطیکہ ہم وقت کے بدلتے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، افغانستان اور بھارت سے اپنے خراب تعلقات کو نارمل بنائیں۔‎ یاد رہے کہ اب تک پاکستان ضرب عضب اور رد الفساد سے لیکر کوئی درجن بھر آپریشن کر چکا ہے، دہشت گردی کے خاتمے کا عزم لیکر اب تک جتنے بھی آپریشن ہوئے ہیں درویش ان کی حمایت میں رطب اللسان رہا ہے مگر اس مرتبہ اپنے طاقتوروں کو اس کا مشورہ ہے کہ وہ خون خرابے کی بجائے بہتر حکمت عملی سے کوئی مذاکراتی حل نکالیں۔ اور ہاں مسئلہ محض پی ٹی آئی کا نہیں ہے، کے پی اور بلوچستان کی پوری سیاسی اور مذہبی قیادت آپ لوگوں کو خون خرابے سے روک رہی ہے۔ بلوچ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک اور محمود خان اچکزئی کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے لیکر عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان تک، جمعیت علمائے اسلام‎ اور جماعت اسلامی تک بالخصوص پختون اور بلوچ قیادت اس حوالے سے یکسو ہے، مولانا فضل الرحمن کی صاف گوئی پر کان دھرے جائیں کہ یہ آپریشن عزم استحکام نہیں عدم استحکام ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن نے اس سے آگے بڑھ کر یہ تک کہہ دیا ہے کہ مجھے تو کچھ عرصہ بعد جنوبی اضلاع میں امارات اسلامی کا قیام نظر آ رہا ہے۔ ‎ہوشمند افراد و اقوام اپنے ماضی کی غلطیوں کو تاہیوں سے سیکھتے ہیں۔ جہاں تک روٹین کے آپریشن کا ایشو ہے اس میں کون رکاوٹ بن سکتا ہے وہ تو دہشت گردی کے خلاف آپ لوگ ہر روز کر رہے ہیں جہاں جہاں آپ کو کوئی ایسا خدشہ بھی محسوس ہوتا ہے آپ اس کا صفایا کرنے کیلئے فوری پہنچتے ہیں لیکن کوئی ایسا بڑا محاذ کھولنا جس سے بے گناہ پختونوں اور بلوچوں کی زندگیاں اجیرن ہو جائیں اس سے فی الحال پرہیز ہی بہتر ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین