بلاشبہ حرمین شریفین کے بہترین انتظامات کرنے اور حجاج کرام و معتمرین کی خدمت و فراہمی سہولیات میں سعودی حکومت کی شاندار تاریخ ہے۔ 1980ء میں،میں نے پہلا حج کیا تھا اس کے بعد بھی حج اور عمرہ کے متعدد مواقع ملے۔میں نے ہر سال انتظامات کو پہلے سے زیادہ بہتر پایا۔یہ بھی اچھی روایت ہے کہ ہر سال حج کے موقع پر ہونے والے تجربات کا تجزیہ کرکے آئندہ سال زیادہ بہتر انتظامات کئے جاتے ہیں۔مثلاً جب میں نے 1980ءمیں پہلا حج کیا تو منیٰ میں پانی صرف مخصوص مقامات پر نصب پبلک پمپس میں آتا تھا اور ایسے تمام مقامات پر پانی بھرنے کیلئے دھکم پیل اور لڑائی جھگڑا ہوتا تھا۔پھر پانی تمام احاطوں کے اندر فراہم کیا جانے لگا۔اسی طرح خیموں کو آگ لگ جاتی تھی پھر خیمے فائر پروف کردیئے گئے۔گرمی کی شدت کا مقابلہ کرنے کیلئے خیموں میں ڈیزرٹ کولر اور ایئر کنڈیشنر مہیا کئے گئے۔جمرات پر بھگدڑ مچ جانے سے اموات کے سانحات ہونے کے بعد جمرات کو وسیع کیا گیا اور آنے جانے کے راستے الگ کئے گئے۔اس سال مکہ مکرمہ اور منی کے پانچ دنوں میں ہونے والی اموات 1300کے قریب ہیں جن میں سب سے زیادہ اموات مصری حاجیوں کی ہیں۔بلاشبہ اس سال شدید ترین گرمی تھی۔درجہ حرارت 50ڈگری سے بھی بڑھ گیا تھا۔چنانچہ کم و بیش تمام حجاج کرام اور منیٰ میں موجود مختلف میڈیا نمائندگان کا ایک ہی تاثر تھا کہ جمرات سے منیٰ واپسی کے راستے اور یوٹرن بند ہونے کی وجہ سے حجاج کرام مرد و خواتین جن میں بڑی تعداد عمر رسیدہ،دل اور شوگرکے مریضوں کی تھی ان کو بہت زیادہ پیدل چلنا پڑا۔شدید گرمی سخت ترین دھوپ،راستے میں کوئی سایہ نہیں۔کوئی فراہمی آب کے پوائنٹس نہیں۔اگر کوئی ضعیف و ناتواں تھک کر کچھ دیر بیٹھ گیاتو اسے بھی پولیس اہل کاران فورا ً اٹھنے اور مسلسل چلنے پر مجبور کرتے رہے۔اسی طرح جگہ جگہ ہیٹ اسٹروک سے لوگ گرتے رہے جن کو فورا ً ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے لئے تیز رفتار ایمبو لینس سروس بھی مہیانہ تھی۔مختلف ممالک کی ایمبو لینسوں کو بھی منیٰ میں داخلہ کی اجازت نہ تھی اسلئے اموات کا سلسلہ کافی بڑھ گیا۔اس سے پہلے 1985ءمیں بھی لو لگنے سے ہونے والی اموات کی تعداد 1000کے لگ بھگ تھی اس سلسلہ میں میری تجاویز حسب ذیل ہیں۔
حاضری حرمین شریفین ہو یا منیٰ سے عرفات،عرفات سے مزدلفہ۔مزدلفہ سے منیٰ،منیٰ سے جمرات اور طواف زیارہ کے لئے مکہ مکرمہ آمد و رفت حاجیوں کو 20سے 25کلو میٹر روزانہ پیدل چلنا پڑا۔اسلئے سعودی حکومت اپنی حج پالیسی میں حاجیوں کے پیدل چلنے کو جس قدر ممکن ہو کم کرے۔منیٰ سے جمرات آمدو رفت کیلئے ٹرام شٹل سروس فراہم کی جائے ۔ راستوں میں سایہ دار شیلٹر فراہم کئے جائیں۔واپسی پر منیٰ میں داخلے کے راستے بند نہ کئے جائیں۔عرفات کی طرح،عرفات سے مزدلفہ واپسی۔مزدلفہ سے منیٰ اور منیٰ سے جمرات و مکہ مکرمہ راستوں میں پانی کی بوتلوں کے کنٹینرز جگہ جگہ موجود رہیں۔عرفات کی طرح مزدلفہ و منیٰ میں بھی پھوا رسسٹم کو وسیع کیا جائے۔مزدلفہ کو زیادہ وسیع اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔یہاں مرد و خواتین کیلئے طہارت گاہیں بہت ہی کم ہیں۔ان طہارت گاہوں کی تعداد کم از کم پانچ گنا کرنے کی ضرورت ہے۔نیز مختلف ممالک کو مختص کی جانے والی جگہوں میں پارکنگ۔آرام و ادائیگی نماز اور واش رومز کی سہولتوں کا از سرنو جائزہ لیا جائے۔
منیٰ میں A.B.C,D کیٹیگریز سے فی حاجی بالترتیب 10ہزار ریال، ساڑھے 7ہزار ریال۔ ساڑھے پانچ ہزار ریال اور تین ہزار لئے جاتے ہیں۔ یہ بھی بہت زیادہ رقم ہے اور اسکا بوجھ ہر صورت حاجی پر پڑتا ہے۔ اس سال سرکاری و پرائیویٹ گروپوں کو یہ شکایت بھی تھی کہ فی حاجی جتنی جگہ دی جانی چاہئے تھی اس سے 25سے 30فیصد کم جگہ دی گئی۔ اسلئے گدے سے گدا جوڑ کر بھی جگہ پوری نہ ہوئی۔ میدان منیٰ کو از سر نو اس طرح منظم کیا جائے کہ حاجیوں کی تعداد کے مطابق جگہ مہیا ہوسکے۔ نیز قیام منی ٰ کے مقاصد کو مدنظر رکھ کر کئی کئی منزلہ ٹاورز تعمیر کئے جائیں۔ مکہ سے جدہ اورمکہ سےمدینہ منورہ ٹرین سروس ایک قابل ستائش سروس ہے۔ اس طرح عرفات منیٰ، مکہ ٹرین سروس بھی بہت بڑی سہولت ہے۔ ان ریلوے لائنوں اور پھر ٹرینوں کی تعداد کو فوری طور پر تین گنا کرنے کی ضرورت ہے۔
حرمین شریفین تک آمدورفت کیلئے ایئرپورٹس کی طرح کے متحرک بیلٹ کا سسٹم جاری کیا جاسکتا ہے۔ اس سے حاجی حضرات کو سخت گرمی میں مسلسل پیدل چلنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ کرونا کے دوران کے بعض احتیاطی فیصلوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ مثلا ً مطاف کو صرف عمرہ والوں کے لئے مختص کرنا۔ ریاض الجنۃ وغیرہ کیلئے نسک ایپ کا استعمال سعودی پولیس، اسکاؤٹس وغیرہ کے ضیوف الرحمن کی خدمت کا جذبہ، گفتگو میں نرمی، مختلف زبانوں کے ترجمہ والی ایپس کی فراہمی اور بہترین خدمات پر دلکش انعامات دینے کے سلسلے کو مزید رواج دیا جائے۔ اتنی زبردست چیکنگ کے باوجود غیرقانونی حجاج کرام کیسے داخل ہوگئے؟۔ اس سلسلہ میں سسٹم کو مزید مستعد کرنے کی ضرورت ہے، معلمین اور مکتب سسٹم بہت بہتر تھا۔ معلمین نسل درنسل حجاج کرام کی خدمت کر رہے تھے وہ خود مالک و منتظم تھے۔ انہیں اپنی ساکھ کی حفاظت کا جنون رہتا تھا۔ اب اس سارے عمل میں بڑی کمپنیاں اور منسٹری شامل ہوگئی ہے۔ جن میں سے کسی کے پاس اونر شپ نہیں۔ ہماری دانست میں پہلے والے معلمین سسٹم کو بحال اور زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ آخری بات۔ سعودی حکومت کے ارباب حل و عقد سے عرض ہے کہ وہ رب کے مہمانوں کی خدمت کرنیکی اپنی شاندار تاریخ کو زیادہ مضبوط کریں۔ پوری تاریخ میں اللّٰہ کریم اور اللّٰہ کے نبی ﷺ نے حج کو خدمت ہی رکھا ہے۔ مشرکین کے بھی عمارۃ المسجد الحرام اور سقایۃ الحاج کا ذکر کیا گیا۔ اگرچہ اس پر اللّٰہ اور رسول اللّٰہ ﷺ پر ایمان لانے کو ترجیح دی۔ ہاشم کا نام بھی حاجیوں کو کھانا کھلانے کی نسبت سے معروف ہوا۔ اللّٰہ کریم نے اس خدمت کا اجر’ رحلۃ الشتا ء والصیف‘ کی صورت میں دیا۔ سعودی حکومت کو بھی اللّٰہ کریم نے اس خدمت کا اجر تیل کی دولت کی شکل میں دیا ہے۔ اگر حاجیوں اور حرمین شریفین کی خدمت کے کلچر کو مزید مضبوط کیا جائیگا تو اللّٰہ کریم اس کا اجر سعودی معیشت کے مزید استحکام کی صورت میں عطا فرمائے گا۔