(گزشتہ سے پیوستہ)
قارئین کرام و منتظمین ریاست! یہ تو اب مکمل واضح حقیقت ہے کہ اپریل2022ء میں آئین کی پتلی گلی (ہارس ٹریڈنگ سے تبدیلی حکومت کی گنجائش) کے باوجود ملک میں مہنگائی کم تو کیا ہوتی، 16ماہی اتحادی حکومت کے چند ماہ میں ہی اڑھائی گنا تک بڑھ گئی۔ عوام کو اس سیاسی کارِبد کا جواز مہنگائی کا خاتمہ ہی بتایا جا رہا تھا جو عالمی وبا کے دوران جملہ نوعیت کے ملکی و عالمی معاشی مسائل پیدا ہونے سے بے قابو ہو رہی تھی۔ لیکن جمبو سائز شہباز حکومت قائم ہونے پر اسکی رفتار دوران ہلاکت خیز وبا کے مقابل سے اتنی تیزی سے بڑھی کہ آلودہ سیاست سے عوام الناس کروڑہا کی تعداد میں غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیئے گئے، ایسے کہ اتنے بڑے بحران میں بھی سادگی اور کم خرچی سے متضاد انتظامی اخراجات اور کرپشن دونوں میں اضافہ ہو گیا۔ گویا اتحادی جماعتی بھیدی شاہد خاقان نے مفت آٹے کی تقسیم میں 20ارب روپے کی چوری کا الزام لگایا جسکی تردید ہوئی نہ کوئی پکڑ، حکومت پر کوئی موثر چیک نہیں رہا۔ یوں اپوزیشن سے محروم پارلیمان میں شتر بے مہار ہو گئی اور اپنے خلاف سنجیدہ مقدمات کو ختم کرنے میں ٹیلر میڈقانون سازی کیلئے مکمل آزاد، پھر نئے فوائد و مراعات اور کرپشن بھرے اقدامات کی قانون سازی کیلئے مکمل دیدہ دلیری سے عوام مخالف کیا نہیں کیا گیا۔ ردعمل میں انتہائی خاموشی سے مہنگائی کے مارے عوام ہارس ٹریڈنگ کے زور سے معزول عمران خان کیلئے ایک بڑا ووٹ بینک بنا رہے تھے اور خان نے جلسوں پر جلسوں میں غیر روایتی سیاسی ابلاغ سے اسٹیٹس کو پر خطرہ مول لیکر بڑی ضربین لگانا شروع کر دیں۔ اس پر اسکا ووٹ بینک بڑھنے کیساتھ ساتھ اتحادی پھر نگران حکومت پر عوام کا عدم اعتماد اور اس کیخلاف غم و غصے کا گراف تیزی سے بڑھا جس میں اس (نظام بد) نے اپنے پیروں پر کلہاڑا چلانے کا سلسلہ شروع کر دیا خلاف آئین فسطائی حربوں سے عوام کو ڈرانے خان کو دبانے اور برائلر حکومت کو طاقت کے ٹیکے لگا کر کھڑا رکھنے کے بہتر سے جتن کئے لیکن فرد جرم کی زد میں آئے ملزمان کو حکمران بنانے کا تجربہ نظام بد (اسٹیٹس کو) کیخلاف بڑے خسارے کا سبب بنا کہ یہ عوام کو کسی طور ہضم نہ ہوا۔8 فروری کو عوامی رائے عامہ سے ہوئے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں انتخاب کرانے کا پرخطر (رسکی) تجربہ اسٹیٹس کو کیلئے بہت ’’خوفناک‘‘ نکلا جب عوام الناس کی بھاری اکثریت نے پی ڈی ایم کے الیکشن کیلئے اتحاد سے الگ ہو گئے ایک ایک انتخابی امیدوار کو چن چن کر مسترد کیا اور تحریک انصاف کے عجیب وغریب انتخابی نشانات کے جھرمٹ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں اپنے ووٹ کی عزت سے نواز دیا۔ گویا عمران کو سیاسی عمل سے کاٹنے اور عوام اور تحریک انصاف کو بیک وقت اور یکساں خوفزدہ کرکے اتنا کام نکالنے کا تجربہ اسٹیٹس کو (نظام بد) پر الٹا پڑ گیا۔ مان لیا جائے کہ نگران حکومتوں الیکشن کمیشن اور عدالتی سیٹ اپ کے ایک اچھے خاصے دھڑے کیخلاف آئین و حلف مخالف عمران اور تحریک انصاف کیخلاف حکومتی اقدامات سے پھیلائے خوف اور عمران کو سیاسی عمل سے باہر نکالنے کے تجربات حتمی طور پر بری طرح ناکام ہو گئے۔ پوسٹ فروری صورتحال نے ایک نئے اسٹیٹس کو کو جنم دیا مائنڈ سیٹ روایتی سیاسی قوت کا مینڈیٹ چرانے کی صلاحیت اس سے مرضی کی حکومت بنانے پھر اسے اسکی کم ترین پوزیشن میں بھی قائم رکھنے اور اصل مینڈیٹ اور مینڈیٹڈ لیڈر اور جماعت کو دبائے رکھنے کی صلاحیت بھی عوام دشمن نظام بد نے ثابت کرکے دکھا دی۔ جبکہ بدترین مہنگائی سے بدحال، ادھ موئے عوام اور بھاری اکثریت کے جیل پڑے سڑے لیڈر نے اپنے عزم کو قائم اور بڑے سیاسی خساروں سے خود کو محفوظ و بدستور مقبول رہنے (بلکہ اس میں اضافے) کی پوزیشن مکمل ثابت کر دی۔ اسکے مقابل بظاہر جم گئی فارم 47کی سخت متنازع اور نحیف حکومت قائم تو رہ سکتی ہے طویل بھی لیکن اب یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ یہ حکومت ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لانے کی ہرگز پوزیشن میں نہیں۔ جتنے تبصرے، تجزیے، حل کی مخلصانہ تلاش، حربے، ہتھکنڈے چالیں اور بند کمروں کے فیصلے ہو رہے ہیں اس میں حقیقی قوت، قوت اخوت عوام کی خاموشی، عزم و صبر سے بنائی گئی جگہ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جبکہ ریاست کا سارا دم خم اسکے عوام سے ہی ہے۔ حکومتی سیٹ اپ اور مینڈیٹڈ اسیر عمران کے علاوہ بھی اب ایک قوت ملک میں موجود ہے وہ جن کے ووٹ کو نہیں مانا گیانہیں مانا جا رہا ہے انتہا درجے کی حماقت سے ہر دو جانب ایک خوف پیدا ہو گیا ہے۔ خدارا اس سے نکلیں وگرنہ ملک میں مچی تباہی، اپنے آخری مرحلے میں نہ آ جائے، ابھی وقت ہے لیکن مدت کے اعتبار سے شاید بہت مختصر۔ یقین کیجئے بحران ختم کرنے کا تمام انتظام اور حالات اب بھی موجود ہیں لیکن اس خاموش اور دبائی گئی حقیقت کو ہم ماننے کیلئے تیار نہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی سمیت سیاسی جماعتیں اس پوزیشن میں اب رہی ہی نہیں کہ وہ ملک کو موجود اضطراب و ابتری سے نکال سکیں۔ چونکہ سول سوسائٹی ہی وہ قوت ہے جو ووٹ سے لیس ہے لیکن اسے بے نتیجہ غیر مقبول تجربات سے کام چلانے کیلئے خوف سے دبا دیا گیا۔ جو حکومتی (اسٹیٹس کو ) کے خوف کا بھی مظہر ہے ۔آج کی پاکستانی سوسائٹی کی زمانے کے مطابق سیاسی بیداری، اس کا 8فروری کا فیصلہ اور اسکا کمیونیکیشن ٹیکنالوجی سے لیس ہونا اس کی بڑی سیاسی و دنیاوی طاقت ہے اسکو ماننے جاننے سے ہی بحران سے نکلنے کی کیپسٹی پیدا ہو گی۔ چونکہ تحریک انصاف اور موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے اختلاف اندرون ملک (INTRA CONFLICT) کی شکل میں موجود ہیں اس لئے صرف مین ڈیٹڈ تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ دوسرے جملہ فریقین جس میں دوسری پارلیمانی پارٹیاں اور ریاستی ادارے بھی شامل ہیں کی طرف جھکائو رکھنے والے سیاسی دانشور اور انکے کسی طور نمائندگان پر مشتمل ایک نیشنل ڈیکلریشن فار پولیٹکل اینڈ اکنامک سٹیبلٹی (NDPES)تیار کریں جو ہر دوطرف کے خوف اور انا کو ختم کرنیکی بنیاد پر آئین کی روشنی میں معطل سیاسی و آئینی عمل کا ایک ڈیکلریشن اور جنگی بنیاد پر اکنامک ریوائیول کے ایک محفوظ راستے پر سیاسی جماعتوں کے اتفاق کیلئے اپنے تئیں متفقہ ڈیکلریشن تیار کریں۔ 8فروری کے عوامی فیصلے کی بحالی اور عملدرآمد کی ایسی صورت نکالیں کہ امکانی اپوزیشن نہ کسی انتقام کا نشانہ ہی نہ بنے بلکہ اس کی پوزیشن بھی مستحکم اور محفوظ رہے۔ بیرون ملک پاکستان کا جتنا اور جیسا بھی سرمایہ باہر چلا گیا اسے بغیر کسی کو خوفزدہ کئے واپس دیس میں لاکر پر کشش سرمایہ کاری کا ترغیبات اور مکمل اعتبار پر مشتمل منصوبہ سامنے لایا جائے۔کوئی تھنک ٹینک کوئی غیر سرکاری ادارہ اور سبز پاکستانیوں کی مختلف شیڈز کے ماہرین اس کارخیر و عظیم کیلئے آگے آئیں، کوئی منظم پلیٹ فارم فوری قائم کیا جائے۔ رات دن کی برین اسٹارمنگ کی جائے سب سے بڑھ کر سپریم کورٹ کے اسمبلیوں میں خالی رہ جانیوالی نشستوں کے 8/5سے آئے فیصلے کو سیاسی رنگ اور فتح و شکست سے منسوب کئے بغیر اسکا بھرپور اور مثبت انداز میں فائدہ اٹھایا جائے کہ اس فیصلے نے حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو کئی اعتبار سے فیس سیونگ کا اہتمام کر دیا ہے۔ اب اصل اور فوری قومی ضرورت سول سوسائٹی کی جانب سے بھرپور فالو اپ کے اہل اور متفقہ حل کی تیاری ہے جس پر INTRA CONFLICT کے فریقین کا بھی اتفاق و اتحاد کر دیا جائے۔