• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کی کتھا لگ بھگ بیس برس پرانی ہے۔ کئی مرتبہ پہلے بھی شائع ہوچکی ہے۔ بار بار پڑھی جاتی رہی ہے۔ یہ کتھا بار بار اس لیے پڑھی جاتی رہی ہے کہ یہ واقعہ بار بار دہرایا جارہاہے۔ جو واقعہ بار بار دہرایا جائے وہ واقعہ گزرتے ہوئے سمے کے ساتھ بوڑھا نہیں ہوتا۔ اگر آپ یہ کتھا پڑھ چکے ہیں، تو دوسری یا تیسری مرتبہ پڑھ لینے اور سن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ اس طرح ہوتا رہا ہے اور اسی طرح ہوتا رہے گا۔ اگر آپ کو دن میں دس مرتبہ سننا پڑے کہ پاکستان قائد اعظم نے بنایا تھا، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیاپاکستان قائد اعظم نے نہیں بنایا تھا؟ کیا پاکستان کسی ایرے غیرے نتھو خیرے نے بنایا تھا؟ آپ کو دن میں دس مرتبہ، بیس مرتبہ سننا پڑے گا کہ پاکستان قائد اعظم نے بنایاتھا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ کئی مرتبہ پہلے پڑھی ہوئی کتھا آپ پھر سے پڑھ کر دیکھ لیں۔ آپ کو لگے گا کہ آپ آج کی کتھا پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہیں۔ کتھائیں ہوتی ہی اس مقصد کے لیے ہیں کہ جب بھی آپ کوئی کتھا پڑھیں، آپ محسوس کریں کہ یہ کتھا آپ پہلی مرتبہ سن رہے ہیں۔ اس کے درپردہ کوئی فلسفہ پنہاں نہیں  ہے۔

سیدھی سی بات ہے۔ اگر ایک مرتبہ آپ کی سمجھ میں  آجائے، تو پھر آپ کئی جھنجھٹوں سے آزاد ہوجائیں گے۔ آپ سچ اور جھوٹ کی کھینچا تانی سے مکتی حاصل کرلیںگے۔ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کتھا میں جو کچھ سُن رہےہیں  وہی سچ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی سچ نہیں ہے۔ تو پھر پرانی کتھا سنیے جو کہ آپ بار بار سن چکےہیں۔ آپ محسوس کریںگے کہ پُرانی کتھا آپ زندگی میں پہلی مرتبہ سن رہے ہیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ کتھا اگر آپ کو نئی محسوس نہ ہو، تو پھر آپ سے لی ہوئی رقم میں آپ کو سود سمیت واپس کردوں گا۔آج کی کتھا کاپسِ منظر ایک بھونچال کے بعد اجاگر ہونے والے حالات سے ہے۔ آپ بھونچال کا مطلب تو سمجھتے ہیں نا؟ بھونچال کا مطلب ہے زلزلہ۔ چونکہ اس کتھا کا براہِ راست تعلق کسی دوسرے عقیدہ سے ہے، اس لیے لامحالہ کتھا میں آپ کا واسطہ پرایے اور اوپرے یعنی غیرمانوس الفاظ سے پڑے گا۔ بیس برس کے لگ بھگ پُرانی کتھا ہے۔ بالا کوٹ میں آئے ہوئے بھونچال نے ہمالیہ کے چھوٹے بڑے سلسلوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہمالیہ صرف ہمارے ہاں نہیں ہوتا۔ کچھ کچھ ہمالیہ ہمارے ہاں ہے۔ کچھ ہمالیہ چین میں ہے۔ ہمالیہ کا کچھ حصّہ ہندوستان میں ہے۔ اور ہمالیہ کا کچھ حصہ نیپال میں ہے۔ انسان نے دانستہ اور نادانستہ طور پر بندربانٹ کر کے دنیا کو سینکڑوں ممالک میں بانٹ دیاہے۔ کچھ ملک چھوٹے اور کچھ کمزور ہیں۔ کچھ ممالک بڑے اور طاقتور ہیں۔ طاقتور ممالک نے کمزور اور چھوٹے ممالک پر اپنی اجارہ داری قائم کردی ہے۔ مگر قدرت کے اپنے اٹل قوانین ہیں۔ قدرت ممالک کے درمیان سرحدوں کو قبول نہیں کرتی ۔ قدرت کے نظام کو جاری اور ساری رہنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت نہیں پڑتی. پاکستان پر منڈلانے والے بادل اجازت لیکر ہندوستان نہیں جاتے۔ برسات ویزا لیکر کہیں  نہیں  برستی۔ برسات ویزا لیکر فرانس کے بعد بلجیم پر نہیں  برستی۔ پھیلنے والے وبائی امراض پاسپورٹ پر سفر نہیں  کرتے۔ قدرتی آفات کسی مخصوص قوم اور عقیدہ کے لوگوں کو اپنا ہدف نہیں بناتیں۔ انسانی ذات کی تاریخ میں ایک مثال نہیں ملتی جس میں قدرتی آفات نے ایک عقیدہ، ایک ثقافت، ایک بولی، ایک رنگ، ایک نسل کے لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہو۔ بالاکوٹ پر آنے والے زلزلے نے ہندوستان اور پاکستان میں پہاڑوں کو ہلا کر رکھ دیاتھا۔ اسی لمحہ نیپال میں بھونچال نے بہت کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ دنیا بھر کے ممالک نے آفت زدہ علاقوں میں ہر نوعیت کا امدادی سامان پہنچادیا تھا۔ ٹوٹے پھوٹے پہاڑوں کے درمیان ایک جگہ خیموں کی بستی آباد ہوگئی تھی۔ تباہ حال ماحول میں  رنگ برنگے خیموں نے موت اور زندگی کے ڈرامہ میں اُداس رنگینی کو سانس لینے کا سبق بنادیا تھا۔ ایک نیلے رنگ کے فرانسیسی خیمے میں چھ سات بچے مختلف ڈیزائنوں کے کمبل اوڑھے بیٹھے تھے۔ وہ آپس میں بھائی بہن اور رشتہ دار نہیں تھے۔ ہیبت ناک آفت نے ان کو درد کے رشتے میں جوڑدیا تھا۔ ان کے ماں باپ ، بھائی بہن مرگئے تھے۔

وہ حیران تھے کہ ان کے ساتھ اچانک یہ سب کیا ہوگیا تھا۔ کچھ دیر پہلے انہوں نے ایک سیانے سے سیانی باتیں سنی تھیں۔ سیانے سائیں نے ان کو بتایا تھا کہ جب معاشرہ بد اخلاق، بدکردار اور پاپی بن جاتاہے، تب قدرت ان کو سبق سکھانے کی ٹھان لیتی ہے، اور ان پر آفات نازل کرتی ہے۔ ڈر کے مارے بچے دبی دبی آواز میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ ان کے والد کون تھے۔ وہ کیا کرتے تھے؟ ڈاکے ڈالتے تھے؟ لوٹ مار کرتے تھے؟ غلط کاری میں ملوث تھے؟ قتل وغارت گری کرتے تھے؟ اگر وہ بہت برے لوگ تھے تو ان کی سزا ہم بچوں کو کیوں دی جارہی ہے؟دنیابھر کے سیانے اپنے جاسوس ہمارے درمیان چھوڑدیتے ہیں۔ بچوں کی باتیں سیانے سائیں تک پہنچنے میں دیرنہیں لگی ۔ کچھ دیر کے بعد سیانا سائیں بچوں کے پاس پہنچا ۔ بچے سیانے سائیں کو دیکھ کر حیران ہوگئے۔ سیانے سائیں نے بچوں سے کہا۔ ’’کل رات تم لوگ جو باتیں کررہے تھے، وہ تم نہیں تھے۔ تمہارے وجو دمیں بیٹھا ہوا ابلیس تمہیں بہکا رہا تھا۔ ابلیس کی باتیں مت سنا کرو۔‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین