پچھلے ہفتے اچانک ایک صاحب سے واشنگٹن کے مضافات میں ملاقات ہوئی اور جو باتیں ہوئیں کافی پریشان کن بھی تھیں اور چونکانے والی بھی۔ یہ صاحب پاکستان سے تشریف لائے ہیں اور ایک امریکی یونیورسٹی کے لئے چند مہینوں تک تحقیق وغیرہ کریں گے اور کچھ تحقیقاتی تجزیئے وغیرہ لکھ کر اپنے ادارے میں واپس چلے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی نوکری انہیں کئی ایسی جگہوں پر بھی لے گئی جہاں شاید کم لوگ ہی جا سکتے ہوں۔ اس حوالے سے ان کو آج کل کی دہشت گردی اور دہشت گردوں کی کچھ اور جان کاری بھی حاصل ہوئی۔ بات گھوم پھر کر پاکستان میں دہشت گردی کی صورتحال اور حکومتی مذاکراتی پالیسی پر ہی مرکوز ہوئی۔ میں نے کچھ دن پہلے ایک اخباری تجزیہ لکھا تھا اس کا عنوان تھا، طالبان اس کو ضرور پڑھیں اور عمل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ تجزیہ کافی پڑھا گیا اور مجھے بے شمار جوابات اور پیغامات آئے۔ خود تحریک انصاف کے عمران خان نے ٹویٹر پر اپنے لاکھوں فالو کرنے والوں کو لکھا کہ وہ یہ ضرور پڑھیں پھر جیو کے کیپٹل ٹاک میں حامد میر کے ساتھ انٹرویو میں عمران خان نے دوبارہ اس کا کافی دیر ذکر کیا اور اپنی دلیل کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی کہ طالبان سے بات چیت ضرور ہونی چاہئے تاکہ کم از کم یہ تو معلوم ہو سکے کہ ہماری ریاست کو کس کے ساتھ لڑنا ہے اور کس کے ساتھ کوئی قابل عمل امن کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔ میرے تجزیئے میں اس بات پر زور تھا کہ امریکی جب افغانستان سے چلے جائیں گے تو وہاں حکومت پر قبضے کی جنگ تو ہو گی اور یہ لڑائی جو، خونریز خانہ جنگی کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے، پاکستان اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کہاں کھڑی ہو گی اور اس طرح پاکستانی طالبان کس کی طرف ہوں گے؟ میرا یہ کہنا ہے کہ ہم لاکھ کوشش کریں کہ کسی فریق کے نہ حامی ہوں نہ مخالف مگر ایسا ممکن نہیں ہے اور ہمیں اپنے قومی مفاد میں یا دوسرے ملکوں کو اس جنگ سے دور رکھنے کے لئے اس کچھڑی کا حصّہ بننا پڑے گا یا ہمیں مجبوراً دھکا دے دیا جائے گا… تو ایسی صورت میں ہم کس طرف کھڑے ہوں گے؟ میرے خیال میں افغان طالبان ہی ہماری پہلی آپشن ہوں گے کیونکہ شمالی اتحاد کو تو ہم کابل میں لا کر بٹھا نہیں سکتے۔ اگر ہمارا آپشن افغانی طالبان ہی ہیں اور ہم نے یہ کوشش بھی کر دیکھی ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا جائے اور اس کے لئے قطر میں طالبان کا آفس بھی کھلوایا گیا تو پھر پاکستانی طالبان ہمارے حریف نہیں بلکہ حلیف ہونے چاہئیں اور یہ بات طالبان کیلئے سمجھنا زیادہ ضروری ہے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ افغان طالبان کے پاور میں آنے سے پاکستانی طالبان کو بھی تقویت ملے گی تو کیا یہ ممکن ہو گا کہ افغان طالبان کابل کیلئے شمالی اتحاد، بھارت اور دوسرے لوگوں کے خلاف لڑیں اور ان کے اتحادی پاکستانی طالبان پاکستانی فوج کے خلاف لڑ رہے ہوں اور پاکستانی فوج افغان طالبان کی مدد کر رہی ہو… تو یہ کھچڑی صرف اپنے ہاتھ، پائوں پر کلہاڑی مارنے کے سوا کوئی مثبت نتیجہ نہیں دے گی۔
اس ساری کہانی کو سنانے کی وجہ یہ تھی کہ جن پروفیسر صاحب سے میری ملاقات ہوئی ان کے خیالات بھی بہت حد تک ملتے جلتے ہی تھے مگر کچھ نکات پر وہ پر زور طور پر ڈٹے ہوئے تھے مگر مسئلے کا حل ان کے پاس بھی نہیں تھا۔ مثلاً ان کا کہنا تھا کہ صدر کرزئی اب تاریخ کا حصّہ ہو چکے ہیں اور جو افغان فوج کھڑی کی گئی ہے وہ امریکیوں کے جاتے ہی آدھی سے زیادہ تو طالبان سے آ ملے گی یا تحلیل ہو جائے گی۔ ایک خوفناک خلا پیدا ہو گا اور اس میں ہر ایک گھسنے کی کوشش کرے گا۔ پھر جو جنگ ہو گی وہ انتہائی خونریز ہو گی۔ کافی پاکستانی طالبان افغانستان میں لڑنے پر مجبور ہوں گے اور اس طرح ان کی پاکستان کے اندر لڑائی اور مزاحمت کی قوّت بہت متاثر ہو گی۔ ان کا یہ بھی یقین تھا کہ پاکستانی طالبان ایک سیاسی اور نظریاتی مقصد یعنی Objective لے کر نہیں بنے اور کیوں کہ انہوں نے القاعدہ کا نظریہ اپنایا وہ اب ان کے کام کا نہیں رہا اور نہ ہی وہ اس نظریئے کو حاصل کرنے کیلئے دل و جان سے کوشاں ہیں، سو ان کے خیال میں طالبان کو ختم کرنا کوئی مشکل نہیں، ہاں اس کے لئے افغانستان کی مدد اور حمایت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اگر پاکستان میں ان کے خلاف آپریشن کیا گیا تو وہ افغانستان میں پناہ لے لیں گے اور پاکستان اپنے مقصد میں ناکام اگر نہیں ہوا تو آپریشن ادھورا ضرور رہ جائے گا اس لئے ان پروفیسر صاحب کے مطابق پاکستانی فوج کیلئے دو اہم نکات ہیں جن کے بغیر وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن سے گریز کر رہی ہے اور وہ دو نکات ہیں کہ افغان پاکستان سرحد کو یا اس کے کچھ حصّوں کو افغانستان کی طرف سے سیل کیا جائے تاکہ یہاں سے بھاگ کر لوگ وہاں پناہ نہ لیں اور دوسرا نکتہ یہ کہ پاکستانی قوم کو تیار کیا جائے کہ جب طالبان شہروں میں جوابی حملے کریں تو جو نقصان ہو گا لوگ اس کے لئے تیار رہیں کیونکہ پروفیسر صاحب فوجی سوچ کو بھی کافی قریب سے دیکھ اور سمجھ چکے ہیں اس لئے ان کی باتوں سے یہ اندازہ ہوا کہ فوج چاہے گی کہ حکومت نے جو مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ کسی طرح کامیاب ہو اور طالبان اپنی توپوں اور بندوقوں کا رخ بجائے پاکستان کے افغانستان میں آنے والے طوفانوں کی طرف موڑ دیں مگر جب میں نے کئی دفعہ ان سے پوچھا کہ پاکستانی فوج طالبان اور خاص کر افغان طالبان کو کیا آفر کر سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ امن اور اچھے دوستوں اور برادر ملکوں کی طرح رہیں تو پروفیسر صاحب یہاں آ کر کچھ الجھن کا شکار نظر آئے مگر اس چومکھی لڑائی میں سب سے کمزور اور ہر طرف سے مارے جانے والے صرف پاکستانی طالبان ہی نظر آتے ہیں لہٰذا اس وقت جو ان کے پاس ایک بات چیت اور ایک امن معاہدے کا آپشن ہے وہی بچت کا واحد راستہ نظر آتا ہے ورنہ یہ کہ پاکستانی فوج ان کو اپنے علاقے سے تو مار کر بھگا دے گی اور وہ افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے اور وہاں کی خانہ جنگی میں کام آئیں گے۔ اب اگر افغان طالبان کو پاکستانی مدد درکار ہوئی تو پھر انہیں پاکستانی طالبان پر بھی دبائو ڈالنا پڑے گا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی اور خون خرابہ نہ کریں۔ پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ فوج کے لئے شمالی وزیرستان کو طالبان سے صاف کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور تمام فوجی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں جن میں امریکی فوجی بھی شامل ہیں مگر امریکی کہتے ہیں کہ ان کے لئے پاک افغان سرحد کو بند کرنا ممکن نہیں رہا ہے مگر یہ کام افغان طالبان کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستانی طالبان نے ان کی بات نہیں مانی یعنی دوسرے الفاظ میں فوج کی سوچ یہ ہے کہ افغان طالبان کواب پاکستانی طالبان کی اتنی ضرورت نہیں رہی جتنی ان کو پاکستانی فوج کی ہو سکتی ہے خاص کر افغانستان میں الیکشن کے بعد کی صورتحال اور ہونے والی خانہ جنگی کے حوالے سے۔
اب یہ ساری باتیں کرنے کے بعد ہم سب ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہ گئے کہ یہ معاملات اتنے گمبھیر اور الجھے ہوئے ہیں کہ کوئی سیدھا سادا سمجھ میں آنے والا راستہ نہیں ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ سب کا یہ خیال تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف بے مقصد جنگ کر کے اپنی طاقت اور جنگی وسائل ضائع نہ کئے جائیں بلکہ انتظار کیا جائے کہ خطّے میں ہونے والی بڑی لڑائی میں صحیح حلیفوں اور اصلی دشمنوں کی شکل واضح ہو جائے اور پھر اپنے مقاصد کا تعین کر کے دوستوں کے ساتھ مل کر جو بھی ایکشن کرنا ہو وہ کیا جائے… تو اس صورتحال میں سب سے زیادہ سوچ بچار طالبان کو کرنی ہے اور وہ بھی پاکستانی طالبان کو کہ نقصان صرف ان کا ہی ہو گا۔