حکومت کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی، ناقص گورننس اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا چیلنج اہم ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے پاکستان کی معاشی ترقی کا سفر ایک ہی دائرے میں گھوم رہا ہے۔ پچھلے سال ہمارا بجٹ خسارہ سرکاری تخمینے کے مطابق ساڑھے چھ ہزار ارب روپے رہا ہے جبکہ رواں مالی سال میں اس کا سرکاری تخمینہ سات ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے بجٹ خسارے کو مجموعی قومی آمدن کے پانچ سے چھ فیصد تک رکھنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن آزاد مالیاتی ذرائع کے مطابق پاکستان کا اصل خسارہ جی ڈی پی کے آٹھ تا دس فیصد سے زیادہ ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس خسارے کو کم کرنے کیلئے حکومت نے اب تک کوئی قابل ذکر اصلاحات یا پیش رفت نہیں کی ہے۔ اسی طرح ناقص گورننس میں اس وقت تک بہتری ممکن نہیں ہے جب تک ہمارے حکمران ذاتی وفاداری اور فرمانبرداری کی بجائے اہلیت اور دیانت کی بنیاد پر صحیح لوگوں کا تقرر نہیں کریں گے۔
اس وقت مالیاتی بحران کی وجہ سے جہاں پاکستان عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کا دست نگر بنا ہوا ہے وہیں توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاںبھی منجمد ہیں۔ علاوہ ازیں بجلی کی ترسیل اور اس حوالے سے ماضی میں کئے گئے معاہدوں کی وجہ سے بھی صارفین کو اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ شعبہ طویل عرصے سے اصلاحات کا متقاضی ہے لیکن ماضی میں ہر حکومت نے سیاسی دبائو اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس معاملے کو زیر التوارکھا جس کی وجہ سے آج صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ گھریلو صارفین سے لے کر صنعتکاروں تک ہر کوئی بجلی اور گیس کے بھاری بلز سے عاجز آ چکا ہے۔
ایک طرف بجلی پیدا کرنے والے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز( آئی پی پیز )سے کئے گئے معاہدوں کے باعث صارفین سے’’کیپسٹی چارجز‘‘کی مد میں ہر سال ڈیڑھ سے دو ہزار ارب روپے اضافی وصول کئے جار ہے ہیں۔ دوسری طرف بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں بجلی کی ترسیل و تقسیم اور ریکوری کی مد میں ہر سال چھ سو ارب روپے سے زائد کا مالی نقصان کر رہی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت نے اس مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور اس مد میں ہونے والا تمامتر نقصان صارفین سے ٹیرف میں اضافے اور اووربلنگ کرکے پورا کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انرجی ٹیرف کا تعین کرتے وقت اس میں صرف بجلی کی اصل قیمت ہی وصول نہیں کی جاتی بلکہ کئی طرح کے اضافی اخراجات بھی اس ٹیرف کا حصہ بنا کر قیمت طے کی جاتی ہے۔ اس طرح جو صارفین بل جمع کرواتے ہیں وہی زیادہ خسارے میں رہتے ہیں کیونکہ انہیں ان صارفین کو بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے جو بجلی استعمال کرنے کے باوجود بجلی کے بل ادا نہیں کرتے ۔ بجلی کے بلوں میں اضافے نے معیشت سمیت ہر شعبہ زندگی میں ترقی کے عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس بحران کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت آئی پی پی معاہدوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے’’کیپسٹی چارجز‘‘ کی ادائیگی فوری بند کرے۔ اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری پر بھی فوری پیشرفت ہونی چاہیے تاکہ ہر سال ہونے والے چھ سو ارب روپے سے زائد کے خسارے کا بوجھ قومی خزانے سے کم کیا جا سکے۔
علاوہ ازیں عام آدمی اور انڈسٹری کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے حکومت بجلی کے نرخوں میں فوری کمی کیلئے بجلی چوری اور لائن لاسز پر قابو پانے کے علاوہ آئی پی پیز کا آڈٹ کر کے کک بیک لینے والوں سے لوٹی گئی قومی دولت واپس لے۔ آئی پی پیز کی طرف سے بجلی بنانے کیلئے لگائی جانے والی مشینری اور پاور جنریشن کا بھی آڈٹ ہونا چاہئے اس کے بغیر کیپسٹی چارجز اور سرکلر ڈیٹ کے گھن چکر کو ختم کرنا مشکل ہے۔ یہ مسئلہ ملک کیلئے جس قدر سنگین ہے حکومت اور اپوزیشن اس مسئلے پر اتنی ہی زیادہ بے اعتنائی کا مظاہرہ کر رہی ہیں جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ ان معاہدوں سے فائدہ اٹھانے والوں میں ہماری سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے کہیں مفادات کے ٹکرائو کی صورتحال حقیقت میں موجود ہے تو اس پر حکومتی اکابر کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ یہ قانون سازی کرے کہ آئی پی پیز کو کیپسٹی چارجز ادا کرنے کی بجائے’’ٹیک اینڈ پے‘‘کے تحت ہی ادائیگیاں کی جائیں گی۔ اس طرح کوئی بھی آئی پی پی حکومت کے خلاف عالمی عدالت میں نہیں جا سکے گا۔ وزیر اعظم نے اگرچہ حال ہی میں انڈسٹری کیلئے تقریباً دس روپے فی یونٹ جبکہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کیلئے50 ارب روپے ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے لیکن اس سے قومی سطح پر بہتری کی کچھ زیادہ امید نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈسٹری کو فراہم کی جانے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت میں گزشتہ چند ماہ کے دوران تقریبا 40 سے 50 روپے فی یونٹ تک کا اضافہ ہو چکا ہے جس سے صنعتی اداروں کی پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ علاوہ ازیں وفاقی بجٹ میںایکسپورٹرز کو فائنل ٹیکس رجیم سے نکال کر دوبارہ ایف بی آر کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان اقدامات کے باعث پہلے سے بے یقینی کا شکار صنعتی حلقوں کی مایوسی میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوا ہے۔ پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے درجنوں صنعتی یونٹ پہلے ہی بند ہو چکے ہیں جبکہ جو صنعتی ادارے ان مشکل معاشی حالات میں بھی کام جاری رکھے ہوئے ہیں اب ان کی بندش کا خطرہ بھی سروں پر منڈلا رہا ہے۔