خبر آئی ہے کہ انگلینڈ میں ’’جنکی‘‘ بچے پیدا ہو رہے، محکمہ صحت کے ذمہ داراصحاب اور ارباب اختیار کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے مختلف شہروں میں ایسے نومولود بچوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہو رہا ہے جو یوم پیدائش سے ہی منشیات کے عادی بتائے جاتے ہیں کیونکہ انہیں منشیات کی عادی مائوں نے جنم دیا ہے۔ لندن میں اس سال 50 بچوں کے بارے میں یہ رپورٹ آئی ہے کہ وہ پیدائشی منشیات کے عادی ہیں جبکہ گزشتہ سال ایسے انیس بچوں نے جنم لیا تھا۔ منشیات کا استعمال ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ عالمی طاقتیں ڈرگ لارڈز اور ڈرگ مافیا کے سامنے بے بس ہو چکی ہیں ان ڈرگ لارڈز کی اسٹرٹیجک پالیسی یہ ہے کہ دو طرفہ حملہ کیا جائے۔ ایک ہدف حکومتوں کو الجھائے رکھنا اور ان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور دوسرا ہدف نوجوان نسل کی رگوں میں یہ زہر اتارنا۔ لاطینی امریکہ کے ممالک اور بالخصوص کولمبیا میں منشیات کا کاروبار بہت وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔ کوکا کی تیس فیصد پیداوار یہاں ہوتی ہے اور امریکہ میں استعمال ہونے والی کوکین کا 80 فیصد کولمبیا سے اسمگل ہوتا ہے۔ میڈرن نامی شہر رسوائے زمانہ منشیات فرش گروہ کارٹل گروپ کا ہیڈ کوارٹر اور جنت ہے۔ ان ڈرگ لارڈز کے پاس نجی فوج جدید ترین اسلحہ، طیارے، بحری جہاز اور ہیلی کاپٹر تک موجود ہیں۔ انہوں نے حقیقتاً کولمبیا میں ایک متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے۔ اس گروہ کے بین الاقوامی رابطے اعلیٰ سطح پر قائم ہیں۔ یہ تمام دنیا میں حکومتیں چلانے والے سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں، وزیروں ، سفیروں اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسروں کو خرید چکے ہیں۔ یہ ڈرگ مافیا اتنی مضبوط اور طاقتور ہے کہ اسکے خلاف کئی فوجی کارروائیاں تک ناکام ہو چکی ہیں۔ یہ مافیا یورپ کو منشیات کی فراہمی کیلئے اسپین، ہالینڈ اور انگلینڈ کے راستے استعمال کرتے ہیں۔ اب ایک نیا راستہ دریافت کیا گیا ہے یعنی بذریعہ مشرقی یورپ بالخصوص روس۔ آج حالات اس نہج پر جا پہنچے ہیں کہ اس وقت منشیات کی تجارت کئی لحاظ سے بین الاقوامی تیل کی تجارت پر حاوی ہو چکی ہے۔ اس سے زیادہ وسیع پیمانے پر صرف اسلحے کی تجارت ہے۔ جاپان جیسے ملک میں 1980تک منشیات کا اتاپتا نہیں تھا۔ 1986میں ضبط ہونے والی ہیروئن کی مقدار جاپان میں صرف 129 گرام تھی لیکن صرف تین سال بعد یعنی 1989ء میں یہ مقدار 470 گرام تک جا پہنچی اور سال گزشتہ تک یہی مقدار بڑھ کر پورے جاپان میں پھیلتے ہوئے 2 ٹن تک آ پہنچی۔ اس وقت صرف مشرقی جرمنی (سابقہ) میں دو ہزار سے زائد منشیات کے بڑے ڈیلر منظر عام پر آچکے ہیں۔ پاکستان بھی اس سنگین مسئلے کی لپیٹ میں بری طرح آیا ہوا ہے حالانکہ پاکستان میں اس وقت قریباً 25ایجنسیاں ڈرگ مافیا کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ مملکت خدا داد میں منشیات کا مسئلہ اتنا گھمبیر اور خطرناک بن چکا تھا کہ اس کی روک تھام کے لئے ایک مکمل نئ وزارت کا قیام عمل میں لایا گیا اس کے علاوہ نارکوٹکس کنٹرول بورڈ بھی قائم کیا گیا۔ ان تمام اقدامات کے باوجود منشیات کے کاروبار، پیداوار اور اسکے استعمال میں روز بروز بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2000ء میں متاثرہ افراد کی تعداد 20 لاکھ سے تجویز کر چکی تھی جس میں دس لاکھ افراد صرف ہیروئن پینے کے عادی تھے۔ آج پاک سرزمین پر 19لاکھ صرف عورتوں کی تعداد ہے جو ہیروئن پینے کی عادی ہیں۔ 1978ء میں پاکستان کی پولیس بھی ہیروئن کے نام سے واقف نہ تھی ۔پھر نہایت سرعت اور حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اس عفریت نے ملک عزیز کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ منشیات کے استعمال میں تیزی کے اس رجحان کی تحقیقات کیلئے 1982ء میں پاکستان نارکوٹکس کنٹرول بورڈ کی طرف سے پہلا قومی سطح پر سروے کیاگیا جس نے یہ انکشاف کیا کہ 1980ء میں ہیروئن کے عادی افراد صرف 5 ہزار کے لگ بھگ تھے جو 1985ء میں ( ضیا الحق امیر المومنین کا’ سنہری‘دور) 4لاکھ سے پینسٹھ ہزار اوپر تھی۔ 1986ء میں یہ تعداد چھ لاکھ ساٹھ ہزار،1988ء میں یہ تعداد بڑھ کر دس لاکھ 76 ہزار چھ سو 35ہوگئی اور آج یہ تعداد 50 لاکھ افراد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ دوسرے متاثرہ ملکوں کی طرح مملکت خدا داد میں بھی منشیات کے استعمال کی وجہ ذہنی تنائو، بے روزگاری، مایوسی، تنہائی، معاشرتی انصافیاں ہیں۔ ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کی شہری علاقوں کی بیالیس فیصد آبادی نفسیاتی وجوہات کی بنا پر منشیات کا استعمال کرتی ہے جبکہ پاکستانی عورتوں میں منشیات اپنانے کی تحریک پیدا کرنے والے عوامل معاشی کم اور نفسیاتی زیادہ ہوتے ہیں۔ میں اپنی بات ایک ماہر نفسیات کے قول پر ختم کرتا ہوں وہ کہتا ہے:
’’ہمیں یہ بات کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ انسان کو منشیات کے استعمال کی طرف لے جانے میں سب سے زیادہ اہم کردار حالات کا ہوتا ہے۔ ڈپریشن، انتشار، تاریک مستقبل اور اسی نوعیت کے دیگر حالات انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتے ہیں اور وہ حقیقت سے فرار کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ان حالات میں ستر فیصد افراد منشیات کا خیر مقدم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں‘‘۔ ایسا کیوں ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں، آپ بھی سوچئے!۔