• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے لیے افسانہ؟

آپ کو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے کے لیے ایک افسانہ ارسال کیا تھا، لیکن لگ بھگ ایک سال سے منتظر ہوں اور اُس کا کہیں کچھ اتا پتا نہیں۔ آج ایک اور افسانہ بذریعہ کوریئر سروس بھیج رہا ہوں۔ خدارا! اِس کی کوئی رسید عنایت فرما دیجیے گا۔ مَیں سنڈے میگزین کا باقاعدہ، مستقل قاری ہوں اور تمام سلسلوں کا بصد شوق مطالعہ کرتا ہوں۔ (ارشد ہجیرہ، آزاد کشمیر)

ج: ہمارے سلسلے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں سچّے، سبق آموز واقعات شائع کیے جاتے ہیں، نہ کہ افسانے، کہانیاں اور جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، آپ کا ’’نام ناقابلِ اشاعت تحریروں کی فہرست‘‘ میں شامل ہوچُکا ہے۔ اگر آپ جریدے کے مستقل قاری ہیں، تو آپ کو ہماری مرتب کردہ فہرست پر بھی لازماً نگاہ ڈالنی چاہیے۔

چھانٹ چھانٹ کر جواب

پیاری بیٹی! اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی خصوصی رحمتوں کا نزول جاری و ساری رکھے۔ شالا بخت بلند ہووی، اللہ پاک زندگی وِچ برکتاں، وُسعتاں، رحمتاں، رِفعتاں، عروج و بلندیاں عطا فرماوے۔ 2عدد خطوط پوسٹ کیے تھے کہ نظرِ کرم ڈالوگی، مگر3 ماہ گزر گئے، کچھ اتا پتا نہیں۔ اُمید ہے، اس شدید منہگائی کے دَور میں بھی عیداچھی ہی گزری ہوگی۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں’’قصّہ یہودیوں کی اسلام دشمنی کا‘‘ پڑھا۔ 

آج ہم کو وہ راز معلوم ہورہے ہیں، جو آنکھ سے اوجھل تھے، مگرقرآنِ پاک میں واضح طور پر تحریر ہے کہ ’’یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں۔‘‘ محمّد ارسلان فیاض کی زبانی ’’بلوچستان اسمبلی کی دل چسپ و منفردتاریخ‘‘ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ یہ جملہ لبوں پر مسکراہٹ لے آیا کہ ’’بلوچستان اسمبلی میں پریس روم کے علاوہ ایک کینٹین بھی ہے۔‘‘ ڈاکٹر ایم عارف سکندری کہہ رہے تھے کہ موسمیاتی تبدیلیاں انسان کے لیے ناسور سے کم نہیں۔ منور مرزا ہمیشہ کی طرح بہت معتبر تحریر لائے۔ 

وہ بہت سنجیدگی سے’’بہت کچھ‘‘کہہ جاتے ہیں۔ پروفیسر نوشابہ کو سلام پیش کرتی ہوں، ڈاکٹرجمیل جالبی پر کیا شان دار، پُروقار تحریر لکھی، پڑھ کرجی خوش ہوگیا۔ ایسی نایاب تحاریر کم کم ہی سامنے آتی ہیں۔ ؎ چندن کی پوشاک بنالیں، چاند ہمارا اپناہے…عید کےپہناوے ہوں اورتمہاری تحریر، تو چار نہیں، آٹھ چاند لگتےہیں۔ مگرماڈلزاتنی بے باک کیوں کہ نظر بھر دیکھو تو شرم آئے۔ محمّد عمیرجمیل بھی عُمدہ تحریر لائے۔ ایک عظیم استادکی خصوصیات، زین الملوک بتارہے تھے، تو مبشرہ خالد جرات مندانہ فیصلے کرنے کے طریقے۔ 

اور آب آتی ہوں، اُس شان دار تحریر کی طرف، جو روبینہ یوسف کے قلم کے نافے سے کستوری کی طرح سن ڈے میگزین کے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کو مہکا رہی تھی۔ ویسے مجھے تو یہ ایک سچّی کہانی لگی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بھی پُر اثر تھے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں عید پیغامات پڑھ کر مزہ آگیا اور اب بات ہو جائے آپ کے صفحے کی، آج عشرت جہاں ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی حق دار ٹھہریں اور چاچا چھکن بھی آئے اور چھائے۔ 

بھئی، تم بھی ناں کیا چھانٹ چھانٹ کرجواب دیتی ہو، واللہ! جی گارڈن گارڈن ہوجاتا ہے اور ہاں،یہ جوشری مُرلی چند گوپی چندجی گھوکلیہ، شکارپور سے ’’سنڈے میگزین‘‘ کو چار پانچ سطروں کے خط پوسٹ کرتے ہیں، یہ تو گویا چُھپےرستم ہیں کہ اِن کی تو بڑی بڑی تحریریں ’’خبرنامہ ہمدرد‘‘ میں شائع ہوتی ہیں۔ نمونے کے طور پر ایک تحریر ارسال کر رہی ہوں۔ (شبینہ گل انصاری، کراچی)

ج: آپ کے اِس خط کے سوا ہمیں آپ کا کوئی خط موصول نہیں ہوا، کیوں کہ علاوہ چند ایک، انتہائی ناقابلِ اشاعت خطوط کے، باری آنے پر سب ہی خط شایع کر دیئے جاتے ہیں۔ رہی شری مُرلی چند گوپی چندجی کی بات، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ وہ ہمیں محض چند سطروں کے خطوط لکھتے ہیں۔ ہاں، یہ الگ بات ہے کہ اُن کی ہرالف لیلوی داستان میں سے ہم وہ چند سطریں ہی نکال پاتے ہیں، جوآپ لوگ ملاحظہ کرتے ہیں۔

وقت رُک جاتا ہے…؟؟

اس مرتبہ ہم بھی دو شماروں پر تبصرے کا تجربہ کر دیکھتے ہیں۔ پہلے کے سرِورق پر، ماڈل کے حُسن کے نہ جانے کتنے چہرے اور نام دیکھتےآگے بڑھ گئے۔’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا تنازعات کے باوجود پاک، بھارت تجارتی تعلقات آگے بڑھانے کا مشورہ دےرہے تھے، حالاں کہ مودی نے اپنے ہرجلسے میں پاکستانی اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف خُوب زہر اُگلا۔ ویسے دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا حُکم ران ہو، جو اپنے مُلک کی اقلیت کےخلاف اس طرح کُھلّم کُھلا ہرزہ سرائی کرتا ہو۔ پاکستان کے خلاف بھی، وہ گھر میں گُھس کرمارنے کی بات کرتا ہے۔

اب ایسی نفرت وعداوت میں بھلا خاک تجارت ہوگی؟ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں محمّد کاشف حماس کی پسپائی کے اسباب بیان کررہے تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں یہودیوں کی اسلام دشمنی کو قرآن و احادیث کے حوالہ جات سے ثابت کیا گیا۔ ’’رپورٹ‘‘میں شبانہ ایاز ترکیہ کے بلدیاتی انتخابات میں طیّب اردون کی حیران کُن شکست کے اسباب بتا رہی تھیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ عورت و مرد سے متعلق شان داراقوالِ زریں لائیں، جن سے کم ازکم ہم تو صد فی صد متّفق ہیں، پھرجون ایلیا کی غزل، گویا سونے پرسہاگا تھی۔

’’متفرق‘‘ میں مدثراعجاز نے برطانوی دورِ حکومت میں مسلمانوں کی تعلیمی تحریکوں کے ہمہ گیر اثرات کا بہترین تحقیقی تجزیہ کیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سلمیٰ اعوان کا افسانہ ’’انسان خسارے میں ہے‘‘ بےحد خُوب صُورتی سےلکھا گیا ایک فکر انگیز، نصیحت آموز افسانہ تھا۔ خنساء سعید کا ’’امن ایوارڈ‘‘ بھی ایک گہرا طنز، زوردار طمانچا معلوم ہوا۔ ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ ہمیشہ کی طرح لاجواب، نئی کتابوں پر اختر سعیدی کا تبصرہ بہترین اور طلعت عمران کے پیاروں کے نام مرتّب کردہ پیغامات عُمدہ تھے۔ اور اب بات، باغ وبہارصفحےکی اعزازی چٹھی کی۔ بےشک، ڈاکٹر تبسّم سلیم ہی اِس کی حق دارتھیں۔ اور واللہ، کیا انکساری و اعلیٰ ظرفی ہے کہ ’’مسند والی چٹّھی تو ہمیں بھی لکھنی نہیں آتی۔‘‘ اگلےشمارےکی ماڈل کو چَھنتی ہوئی ستاروں کی کرن سےدیکھتے آگے بڑھے۔ 

’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رؤف ظفر گداگری کے قبیح دھندے سے متعلق رُوح فرسا رپورٹ لائے۔ سچ تو یہ ہے کہ حُکم رانوں کی کرپشن قوم میں گداگر ہی پیدا کرتی ہے۔ جب لوگوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی ہی میسّر نہ ہوں تو پھر وہ عزتِ نفس بالائے طاق رکھ کے ہاتھ پھیلانے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا بھارتی انتخابی مہم کی رُوداد سُنا رہے تھےکہ بی جے پی الیکشن جیتنے کےلیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ہمیں توخود بھی خُوب تجربہ ہے۔

وہ کیا ہے، جسے پیا چاہے، وہی سہاگن۔ یوں بھی بھارت میں ہندو توا کا تعصب سرچڑھ کے بول رہا ہے، سیکولر بھارت تو کہیں دفن ہوگیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹرصاحبہ فیشن سےمتعلق مغربی دانش وَروں کے ڈھیروں ڈھیراقوال لائیں۔ پڑھ کے یوں لگا، جیسے سب نے ارد گرد بیٹھ کے رائٹ اَپ لکھوایا ہو۔ 

بھئی، آپ اتنے مطالعے و مشاہدے کے لیے وقت کیسے نکال لیتی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں، وقت رُک سا جاتا ہے، جب تک آپ کا ذوقِ مطالعہ پورا نہ ہو، آگے ہی نہیں بڑھتا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں طلعت عمران کی پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی سے بات چیت بہت ہی معلوماتی تھی۔ عوام اورحکّام کو اُن کی تجاویز پر بہت سنجیدگی سےعمل کرنا چاہیے۔ 

’’پیارا گھر‘‘ میں سعدیہ اعظم تعطیلات میں بچّوں کی تربیت کے گُر سکھا رہی تھیں، تو مبشرہ آنکھوں کی رنگت سےشخصیات کا تعارف کرواتی نظر آئی ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کےواقعات متاثرکُن تھے۔ اور ہمارے باغ وبہار صفحے پر چٹھی کا اعزاز جاوید اقبال کےحصّےمیں آیا۔ واضح رہے، یہ طوالت دو جرائد پر تبصرے کے سبب ہوگئی ہے، وگرنہ ہم تبحُکمِ سرکار، مختصر نویسی کےعادی ہو چُکے ہیں۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج:  مختصر نویسی کے عادی، اور آپ…؟؟ اب اِس سے بڑا مذاق اور کیا ہوگا۔ یہ خط تو 50 فی صد ایڈٹ ہوا ہوگا، لیکن ماضی میں آپ کے خطوط 80 فی صد ایڈیٹنگ کے ساتھ بھی شایع کیے گئے ہیں۔ اور بھئی، وقت بھی کبھی کسی کے لیے رُکا ہے۔ بس، جو اُسے مُٹھی میں لینا جانتے ہیں، دبوچ رکھتے ہیں۔

چھوٹی چھوٹی فہرستیں

تازہ میگزین میں منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ سلسلے کے لیے خارجہ پالیسی اور معیشت پر بہترین مضمون لکھا۔ ہمیشہ کی طرح پڑھ کر معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔ عبدالباسط علوی کی بھارتی انتخابات پر تحریر بھی معلوماتی تھی۔ ’’رپورٹ‘‘ میں یہ پڑھ کر افسوس ہوا کہ بھارتی حکومت نے بیمار مسلمان مسافر کے لیے سعودی جہاز اتارنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اِس مرتبہ پھر’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کو سرِورق کے ساتھ شائع کر دیا گیا ہے۔

اب دیکھیں،  کون کون اِس بات پراعتراض کرتا ہے۔ مجھے بہرحال کوئی شکایت نہیں کہ مَیں آپ لوگوں کی مجبوریاں بہت اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں اِس بار دو مائیں اور دو بیٹے موجود تھے، دیکھ کر ہی دل خوش ہوگیا۔ ناقابلِ اشاعت کی چھوٹی سی فہرست بھی شائع کی گئی۔ اِسی طرح چھوٹی چھوٹی فہرستیں وقتاً فوقتاً شائع کرتی رہا کریں تاکہ لوگ طویل انتظار کی زحمت سے بچ جائیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہدبھٹی کا ’’ماواں، ٹھنڈیاں چھاواں‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا افسانہ شان دارتھا۔ اور’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلے کا بھی جواب نہیں، ہمیشہ ہی پسند آتا ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی کراچی)

ج: ہماری اپنی بھی اسٹاف کے لیے یہی ہدایت ہے کہ ہر پندرہ روز میں فہرست اَپ ڈیٹ کرنے کی کوشش کی جائے، مگر افراد کی قلّت اور زیادہ ورک لوڈ کے سبب کام حسبِ منشا ہو نہیں پاتا، نتیجتاً فہرست کی اشاعت تاخیر کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے۔

ایک نظم…

’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے ایک نظم بعنوان ’’معتکف حضرات کی خدمت میں‘‘ بھیج رہا ہوں۔ مناسب سمجھیں، تو شائع کر کے ممنون فرمائیں۔ (م۔ ف خیال کنجاہی، کمال آباد، راول پنڈی)

ج : آپ کا کلام تو وقتاً فوقتاً شائع ہوتا ہی رہتا ہے، لیکن موضوع کی اعتبار سے یہ نظم کچھ پرانی ہوچُکی ہے۔ سو، اشاعت مشکل ہوگی۔

           فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارے پر تبصرے کے ساتھ حاضر ہوں۔ ذرا گھریلو سا تاثر دیتا ہوا ٹائٹل بہت اچھا لگا۔ اگلے ہی صفحے پر’’حالات و واقعات‘‘ میں ’’مشرقِ وسطیٰ، عالمی جنگ کے دہانے پر…‘‘ پڑھنے کو ملا، جو زیادہ تر ایران کے اسرائیل پر حملے سے متعلق تھا۔ ایک بلاوجہ کا حملہ، جس کا مقصد شاید غزہ میں جاری جارحیت و سفّاکیت سےتوجّہ ہٹانا تھا۔

اُس سےآگے بڑھے تو’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود ’’ہے جرمِ ضیعفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ کی عملی تفسیر بیان کرتے نظر آئے۔ اللہ پاک معصوم فلسطینیوں کو اسرائیل کے ظلم و ستم سے جلدازجلد آزادی عطا فرمائے۔ بیت المقدس مسلمانوں کا تھا اور مسلمانوں ہی کا رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ بعض اوقات تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے، ہم بہت پُرجوش ہو جاتے ہیں کہ کبھی مسلمان ایک دنیا پرحکومت کرتے تھے، خصوصاً سلطنتِ عثمانیہ کا ذکر ہمیں خاصا جذباتی کر دیتا ہے۔ 

تو بھئی، بات یہ ہےکہ اُس دَور کے مسلمان تو اپنے حصّے کا کام کرکے چلے گئے، یہ آج کا مسلمان کیا کررہا ہے، سوائے دشنام طرازی کے۔ یہودیوں کی سازش، عیسائیوں، ہندوؤں کی سازش۔ جب ہم ہی متحد نہیں، تو کیا یہودی، عیسائی اور کیا ہندو۔ جب اپنا ہی کھونٹا مضبوط نہ ہو، تو دوسروں کو کیا الزام دینا۔ دُعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ ہماری نسلوں میں ایسےغیّور مسلمان پیدا کردے، جو واقعتاً اسلام کی عظمتِ رفتہ بحال کرسکیں۔ اگلے صفحے پر ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ جگمگا رہا تھا۔ 

کیا ہی خُوب صُورت اسلوبِ بیاں ہے اور یہودیوں کی مستقل مزاجی تو دیکھیں کہ بار بار شکست کے باوجود ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کاخواب شرمندۂ تعبیر کرنے کی بھرپور منصوبہ بندی کررہے ہیں اور کسی حد تک کام یاب بھی ہیں، لیکن ان شاء اللہ یہ اپنی چال میں آپ گرفتار ہوں گے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کی تحریر بہت شان دار تھی بلکہ ہر ہفتے ہی ایک سے بڑھ کر ایک تحریر پڑھنےکو ملتی ہے اور اب آتے ہیں، اِس ہفتے کےسب سے بہترین صفحاتِ ’’گفتگو‘‘ کی جانب، ذوالفقار احمد چیمہ کا سیر حاصل انٹرویو بہت ہی نڈر، دبنگ انداز میں لیا اور دیا گیا۔ 

واقعی لگ رہا تھا کہ بڑی محنت سے کوئی انٹرویو تیار کیا گیا ہے اور انٹرویو بھی، ایک فرض شناس، دیانت دار پولیس افسر کا۔ پولیس مقابلے کےجو دو واقعات انہوں نے سُنائے، پڑھ کے رُوح جھنجھنا اٹھی۔ ویسےآپ کےیہاں علمی و ادبی شخصیات کے انٹرویوز بھی بہت اچھے انداز سے لیے جاتے ہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’شوہروں کو بھٹکتے دیر نہیں لگتی‘‘ کا اینڈ کچھ ڈرامائی سا لگا کہ شوہر صاحب بڑی جلدی راہِ راست پر آگئے، وگرنہ توعورتیں قبر میں اُتر جاتی ہیں، شوہر نہیں سدھرتے۔

گھر میں ایک خاندانی لیبل، بچّوں کی ماں کا اعزاز رکھنے والی بیوی، اور باہر بھانت بھانت کی عورتوں سے دوستیاں۔ اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ خیر، مجھے واقعہ تو سچا لگا، لیکن اختتام حقیقت سے دُور تھا۔ ہاں، نادیہ سیف کی تحریر ’’رشتے ناتے‘‘ پڑھ کربہت خُوب صُورت سا احساس ہوا۔ بےشک، یادیں انسان کا حسین سرمایہ ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی غمی، اُداسی کی کیفیات میں یہ اچھے دنوں کی یادیں ہی انسان کو پھر سے کھڑا کر دیتی ہیں۔ 

اور اب بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، جس میں سب سے زیادہ لُطف آپ کے کھٹے میٹھے جوابات دیتےہیں۔ پتانہیں، ہمارے وہ اتنے اچھے اچھے لکھنے والے کہاں چلے گئے۔ اسماء خان دمڑ اور شائستہ اظہر کے خطوط کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ایک گزارش ہے، ذوالفقار چیمہ جیسی محبِ وطن، فرض شناس شخصیات کے انٹرویوز زیادہ سے زیادہ کیا کریں اور اِن لوگوں سے اِن کی زندگیوں کے اچھے، بُرے ادوار، پہلے دُکھ، پہلی خوشی، کام یابی، ناکامی سے متعلق بھی ضرورپوچھا کریں۔ (زلیخا جاوید اصغر)

ج: غالباً آپ کی ’’سنڈے میگزین‘‘ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں یہ پہلی حاضری ہے۔ اچھے اچھے لکھنے والوں کے چلے جانے کا دُکھ اپنی جگہ، لیکن اِس خرابی میں جو تعمیر کی اِک صُورت مضمر ہے، وہ یہ ہے کہ اِس طرح کچھ نئے لوگوں کو بھی اُبھر کر سامنے آنے کا موقع مل رہا ہے، جیسے کہ آپ کی مثال سامنے ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں،’’پرانا جائے گا تو نیا آئے گا ناں‘‘۔

گوشہ برقی خطوط

* منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ میں ایران کے اسرائیل پر جوابی حملے کےمختلف پہلوئوں کی ایک جامع تصویر پیش کی، کاوش بہت اچھی لگی، البتہ کہیں یہ تذکرہ نہیں کیا گیا کہ رپورٹ کردہ ننانوے فی صد ایرانی راکٹ اور میزائل گرانے میں صرف یورپی ممالک، امریکا اور اسرائیل ہی کا نہیں، بلکہ خُود اسلامی ممالک کا تعاون بھی شامل رہا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی صرف ایک تحریر پڑھی کہ وہی پڑھنے کے قابل تھی۔ 

مبشرہ خالد کی تحریر پڑھ کر تو (معذرت کے ساتھ) دوبارہ تسلی کرنی پڑی کہ یہ جنگ کا سنڈے میگزین ہی ہے، کیوں کہ مَیں تو بس پوری تحریر میں ربط ہی ڈھونڈتی رہی، ایک بات کا اگلی سےکوئی تعلق، واسطہ ہی نہ تھا۔ شروع میں لگا کہ نظامِ تعلیم کے زوال پر لکھنا چاہ رہی ہیں، پھر توپوں کا رُخ پرائیویٹ اسکولز اوراُن کی فیسز کی طرف ہوگیا، جب کہ باقی ماندہ مضمون پڑھا، تو پتا چلا کہ اُن کا اصل مسئلہ توطلبہ کے ملبوسات، جوتے ہیں۔ افسوس بھی ہوا کہ آخرہم کب تک اپنے نظامِ تعلیم کی اَن گنت خامیاں، کوتاہیاں نظر انداز کر کے صرف طلبہ کے ظاہری حلیے سے obsessed رہیں گے؟ 

مَیں نے اپنے دورِ طالب علمی سے اگر کوئی بات سیکھی، تو وہ یہ کہ سیکھنے کی کوئی مقررہ جگہ نہیں ہوتی۔ جو طالب علم ہمہ وقت سیکھنے پر آمادہ رہتا ہے، وہی عملی زندگی میں کام یاب ٹھہرتا ہے، جب کہ مضمون نگار کے خیال میں اگر طلبہ کُھلے گریبان رکھنا اور چپلیں پہننا چھوڑدیں گے، توسب اچھا ہوجائے گا۔ وہ یک دم افلاطون، آئن اسٹائن بن جائیں گے۔ ارے بھئی، نوجوانوں کو سانس لینے دیں، ویسےآپ، یہ تمغۂ امتیاز لینے، رول ماڈل کے طور پر پیش کیےجانے والے نام نہاد سیلیبریٹیز کی ڈریسنگ کے بارے میں کیا کہیں گی؟تو خدارا، طلبہ پراتنا دباؤ مت ڈالیں کہ وہ تعلیم ہی سےخار کھانے لگیں۔ (مشرقی لڑکی، الرحمان گارڈن، لاہور)

ج:سب سے پہلے تو تم اپنا یہ قلمی نام تبدیل کر کے’’مغربی لڑکی‘‘یا کم ازکم’’مغرب پسند لڑکی‘‘ رکھ لو۔ دوسری بات، جو تحریر پڑھنے کےلائق ہی نہیں تھی، اور بقول تمھارے تم نے پڑھی بھی نہیں، تو اُس پریہ ریسرچ پیپر کیسے لکھ لیا۔ تمھاری اطلاع کے لیے، جریدے کے دو سے تین صفحات ایسے ہیں، جو نوآموز لکھاریوں ہی کی تحریروں سےمرتّب ہوتے ہیں، تواُن نگارشات کا معیار بہت بلند ہو بھی نہیں سکتا۔ کیوں کہ اگر ہم اُنھیں پورا ری رائٹ ہی کر دیں گے، تو تخلیق کار کی تو تخلیق کی تحریک ہی ختم ہوجائے گی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk