• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ایک موضوع، متنوّع اندازِ تحریر

’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھنے کا شوق تو ہمیشہ ہی سے ہے۔ تمام تر صفحات کا ذوق و شوق سے مطالعہ کرتا ہوں اور پھر اپنے سے کم پڑھے لکھے لوگوں سے بحث مباحثہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کے صفحے کی بات کروں، تو منور مرزا کے تجزئیات اتنے مکمل اور معلوماتی ہوتے ہیں کہ محض ایک صفحے سے دنیا بھر کا حال احوال جان لیا جاتا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا سلسلہ بھی بےحد معلوماتی ہے۔ ’’گفتگو‘‘ میں رئوف ظفر نے ایک انتہائی ایمان دار پولیس آفیسر ذوالفقار چیمہ سے بہت ہی عُمدہ، سیرحاصل بات چیت کی۔

ایسی شخصیات کے انٹرویوز شامل کرتی رہا کریں۔ اےکاش! چیمہ صاحب ہماری عدالتوں کا حصّہ ہوتے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے زیادہ تر واقعات سبق آموز ہوتےہیں۔ اور’’پیارا گھر‘‘کی تحریریں ہمیشہ ہی لائقِ مطالعہ اور دل چسپی کا محور و مرکز ٹھہرتی ہیں۔ 

نیز، ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کا رائٹ اَپ بھی اپنی نوعیت کی ایک منفرد ہی تحریر ہوتی ہے۔ یوں کہیے، ہر بار ایک موضوع پر متنوّع انداز کی تحریر بس آپ ہی کا وصف اور خاصّہ ہے۔ فی زمانہ، ایسے لکھنے والے خال خال ہی رہ گئے ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نادیہ سیف کا افسانہ بہت ہی پسند آیا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو گویا جریدے کے ماتھے کا جھومر ہے۔ (آغا زاہد، پاک پارک، مرغزار کالونی، ملتان روڈ، لاہور)

ج: مختلف تحریروں، لکھاریوں سے متعلق آپ کی اپنی باقاعدہ ایک اپروچ اور رائے ہے، تو اپنے سے کم پڑھے لکھے لوگوں سے بحث مباحثہ کرنے کے بجائے، خُود سے زیادہ تعلیم یافتہ یا کم از کم اپنے ہم عصروں سے بات چیت کیا کریں، اِس طرح خود بھی کچھ نیا سیکھیں گے، کچھ فائدہ اُٹھائیں گے، نہ کہ محض بے کار بحث و تمحیص میں وقت برباد کرتے رہیں گے۔

اخلاقی پستی کی شکار دنیا

اس بار رمضان و عید بہت دل گرفتہ سے گزرے۔ دنیا بھر کے مسلمان رونقیں، برکات اور خوشیاں سمیٹتے رہے، جب کہ اہلِ غزہ زخموں سے چُور، غموں سے نڈھال اپنے پیاروں کے لاشے ہی اٹھاتے رہے۔ حالیہ جریدے کی بات کروں، تو ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حسبِ معمول شان دار تحریر پڑھنے کو ملی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں محمد ارسلان فیاض نے بلوچستان اسمبلی کی تاریخ کو بڑے عُمدہ انداز میں قلم بند کیا، تو ڈاکٹر ایم عارف سکندری نے ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے اہم موضوع پر روشنی ڈالی کہ پاکستان جیسے پس ماندہ ممالک کے پاس ان تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوئی موثر منصوبہ بندی نہیں۔

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نئی حکومت کے لیے معیشت کی بحالی جیسے اہم چیلنج پر ٹھوس تجاویز لائے۔ اللہ کرے، اُن کے خیالات کسی طرح حکّامِ بالا تک بھی پہنچ جائیں۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں پروفیسر نوشابہ نے ڈاکٹر جمیل جالبی جیسی نابغۂ روزگار شخصیت پر خصوصی تحریر رقم کی۔ پوری تحریر ہی عقیدت و محبّت کے جذبات سے لب ریز تھی، لیکن آخری سطور تو گویا جذبات و احساسات کی بھرپورترجمانی کررہی تھیں۔’’سینٹر اسپریڈ‘‘ حسبِ معمول آپ کی خُوب صُورت تحریر سے مزیّن تھا۔

’’متفرق‘‘ میں محمد عمیر مینگل نے دنیا کی بلند ترین عمارتوں پر معلومات سے بھرپور تحریر لکھی، لیکن افسوس اسمان کی بلندیوں کو چھوتی دنیا، روز بروز اخلاقی پستی کی شکار ہورہی ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی دونوں تحریریں بھی خُوب تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ایک بہت نئے اور اچھوتے موضوع پر قلم کشائی کی گئی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ حسبِ روایت دل چسپ اور سبق آموز واقعات سے سجا تھا۔ اور ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کے رنگا رنگ پیغامات کا بھی کیا ہی کہنا۔ جب کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہمیشہ کی طرح قارئین کے خُوب صُورت، دل چسپ خطوط سے مرصّع تھا۔ (عائشہ ناصر، دہلی کالونی، کراچی)

ج: تمہاری سب باتیں اپنی جگہ درست، لیکن اگر ہم سب صرف اخلاقی پستی ہی کا رونا روتے رہیں گے، تو بلندی کے لیے ہمّت و جستجو، کوشش و جدوجہد کون کرے گا۔

مشرف کی حکومت نہیں تھی

تازہ سنڈے میگزین کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں حسبِ روایت منور مرزا بہت ہی عُمدہ تحریر ’’بھارتی انتخابات‘‘ کے ساتھ موجود تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُن کی تجزیات کا کوئی مول ہی نہیں۔ ’’بازاری کھانوں‘‘ پر ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری کا مضمون پسند آیا۔ ’’پیاراگھر‘‘ میں مبشرہ خالد نے ’’آنکھیں بولتی ہیں‘‘ لکھا، تو گمان ہوا، جیسے یہ کوئی ’’علمِ نجوم‘‘ کی باتیں ہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ثناء توفیق کا واقعہ پڑھا، اچھا لگا، لیکن تحریر میں لکھا تھا کہ ’’یہ سن 2009 ء کی بات ہے، جب پرویزمشرف کی حکومت تھی۔‘‘ تو میری معلومات کے مطابق تو 2009 ء میں پرویزمشرف کی حکومت نہیں تھی۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر قمرعباس کا مضمون دیکھ کربہت ہی خوشی ہوئی۔ صد شُکر کہ اُن کی واپسی ہوگئی۔ 

یوں تو اِس مرتبہ جریدے کے سارے ہی مضامین بہت عُمدہ تھے، لیکن خاص طور پر ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا، ’’رپورٹ‘‘ میں سیّد خلیل الرحمٰن اور سلیم اللہ صدیقی، جب کہ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں طلعت عمران کا مضامین کا جواب نہ تھا، پڑھ کر معلومات میں بے حد اضافہ ہوا۔ ’’مدرزڈے ایڈیشن‘‘ کے سرِورق کی کیا تعریف کروں، بہت عُمدہ انداز، خُوب صُورت شُوٹ اور پھر آپ کا رائٹ اَپ، بخدا آپ کی تو ہر تحریر ہی مثالی، لاجواب ہوتی ہے اور یہ تو نسبتاً طویل بھی تھی۔ 

بس، ایک شکایت ہے کہ فونٹ باریک ہونے کی وجہ سے پڑھنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں فرحی نعیم کی تحریر’’ماں، ماں ہوتی ہے‘‘ بھی اچھے انداز سے لکھی گئی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے دونوں افسانوں کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں ماؤں کے عالمی یوم پر بہت اچھے پیغامات پڑھنے کو ملے، خاص طور پر ناز جعفری کاپیغام بہت ہی اچھا اور دل سے لکھا معلوم ہوا۔ (رونق افروزبرقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: جی، آپ نے بالکل درست نشان دہی کی۔ نوٹ کیا گیا ہے کہ عموماً اِس قسم کی غلطیاں، قارئین کی طرف سے موصول ہونے والی تحریروں میں زیادہ ہوتی ہیں، پھرمرتّب صاحب بھی بعض اوقات کراس چیک میں ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ فائنل چیکنگ میں ہماری نظر سے بھی چُوک گئی۔ بہرحال، نشان دہی کا بہت شکریہ، آئندہ مزید احتیاط کی کوشش کریں گے۔ اور رہی میٹر کے فونٹ کی بات، تو وہ تولگ بھگ پورے جریدے کا یک ساں ہے، اور کافی عرصے سےیہی فونٹ استعمال ہو رہا ہے، تو اگراب پڑھنے میں مشکل پیش آنے لگی ہے، تو مطلب، چشمے کا نمبر فوری تبدیل کروانے کی ضرورت ہے۔

گداگری کی مذمّت کیوں؟

سنڈے میگزین میں گداگری کی مذمّت افسوس ناک ہے۔ میرے خیال میں تو آپ لوگوں کو گداگری کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، اس صنعت کو فروغ دینا چاہیے۔ جب ہمارے وزیرِ اعظم صاحب نے فرما دیا کہ مانگنا ہماری مجبوری ہے تو عوام النّاس کی کیااوقات۔ اتنے عرصے سے ہمارے حُکم ران آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دَرپر کشکول لے کر حاضریاں ہی تو دے رہے ہیں، وگرنہ کیا یہ مُلک چل پاتا۔ جس مُلک میں اربوں کی کرپشن ہوتی ہو، غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتاچلا جائے عوام کی حالت پرویز خٹک جیسی ہو، وہاں  اگر کچھ لوگ بھکاری بن بھی جائیں، توکیاحرج ہے۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعیدآباد، کراچی)

ج: ویسے تو مُلکی حالات کے سدھار کے لیے بہت کچھ کرنےکی ضرورت ہے، لیکن ترجیحاً کچھ ری ہیبیلی ٹیشن سینٹرز کا قیام اشد ضروری ہے۔ جہاں آپ جیسے سَرپھروں سے لے کر زومبیز تک کی ’’برین اسٹیمولیشن تھراپیز‘‘ ہونی چاہئیں۔

یومِ تکبیر کے لیے تحریر

’’یومِ تکبیر‘‘ کے سلسلے میں ’’پاکستان بطور ایٹمی قوت‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر حاضرِ خدمت ہے، شائع کرکے شکریہ کا موقع ضرور دیجیے گا۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج: آپ کا مضمون27 مئی کو تو وصول پایا، اب آپ خُود بتائیں کہ ہم اِسے اپنے 26 مئی کے ایڈیشن میں کیسے شامل کرتے، جب کہ ہم آپ جیسے قارئین کے سامنے یہ بِین بجا، بجا کے تھک گئے کہ ہمیں مخصوص ایّام کی مناسبت سے لکھے جانے والے مضامین کم از کم مہینہ بھر پہلے بھیجے جائیں۔ اب یہ بھی ایک المیہ ہی ہے کہ آپ کی بیش تر تحریریں محض تاخیر سے وصول پانے کےسبب ناقابلِ اشاعت ٹھہرتی ہیں۔

حُکم رانوں کے منہ پر طمانچا

’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رؤف ظفر پاکستانی گداگروں کےمتعلق بڑی فکرانگیز رپورٹ لائے۔ پڑھ کر شرمندگی و ندامت سے بُرا حال ہوگیا۔ بحیثیت قوم یہ ہم سب کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ پکڑے جانے والے بھکاریوں سےجب کہا گیا کہ اِس طرح ملک کی بہت بدنامی ہوتی ہے، تو انہوں نے ڈھٹائی سے جواب دیا کہ ’’ہم نے پہلے کون سے نیک نامی کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں۔‘‘ اُن کا یہ جواب یقیناً ہمارے حُکم رانوں کے منہ پر بھی ایک طمانچا ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے بھارتی انتخابات پر خیال آرائی کی۔ 

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں یہودی ریاست کے قیام کا قصّہ بیان کیا جارہا ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں طلعت عمران نے معروف گیسٹروانٹرولوجسٹ، پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی سے پُرمغز گفتگو کی۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس، ڈاکٹر ہلال نقوی کے حالاتِ زندگی بتا رہے تھے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں سعدیہ اعظم نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ چُھٹیوں میں بچّوں کے ساتھ زیادہ وقت گزایں۔’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات دل چسپ تھے اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط بھی موجود تھا، بے حد شکریہ۔ اگلے جریدے کے ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا نے تجویز دی کہ پاکستان کو ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردینی چاہیے، کیوں کہ ہمارے مُلکی حالات، اِس شُترِ بےمہار آزادی کے ہرگز متحمّل نہیں۔ 

’’رپورٹ‘‘ میں سید خلیل الرحمٰن نے بتایا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا شکار بلوچستان ہے۔ سلیم اللہ صدیقی بھارت کے عام انتخابات کی ’’رپورٹ‘‘ لے کر آئے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں طلعت عمران غزہ کے دو گھرانوں کی دل خراش داستانیں سُنا رہے تھے، پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں۔ مدرز ڈے کی مناسبت سے آپ کا100 بچّوں کی ماں کا انٹرویو، رائٹ اَپ لاجواب تھا۔ 

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں یہودی ریاست کے قیام کا قصّہ بیان کیا گیا اور ہمیشہ کی طرح معلومات میں بےپناہ اضافے کا سبب بنا۔ ’’متفرق‘‘ میں ارشد حسین نے نرسز کےمسائل عُمدگی سے بیان کیے، تو’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم اور فرحی نعیم بھی مدرز ڈے کے حوالے سے اچھے مضامین لائیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ نے’’ثمر‘‘کے عنوان سے سبق آموز افسانہ پیش کیا، تو عالیہ زاہد بھٹّی بھی ’’نصیبے والی‘‘ کے نام سے زبردست افسانہ لائیں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

                           فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سرِورق پر تین ماڈلز کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے کہ’’ یک نہ شُد، سہہ شُد‘‘۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ’’مشرقِ وسطیٰ، عالمی جنگ کےدہانے پر…‘‘ کے عنوان سے فکر انگیز مضمون لائے۔ اُنہوں نے سو فی صد سچ کہا کہ حماس کو7 اکتوبر کے حملے سے کیا حاصل ہوا، غزہ میں40 ہزار بےگناہ فلسطینیوں کی ہلاکت؟حماس کاخیال تھاکہ عالمِ اسلام، خصوصاً عرب ممالک اُن کی مدد کو آئیں گے، مگر یہاں تو کوئی ٹس سےمس نہیں ہوا۔ عرب تو اسرائیلی فوجی طاقت ہی سے سہمے ہوئے ہیں۔ 

یاد رہے، 1967ء کی جنگ میں اسرائیلی فضائیہ نے محض چند گھنٹوں میں مصر، شام، اُردن کی فضائیہ کو تہس نہس کردیا تھا۔ بیت المقدس، صحرائے سینائی اورگولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا اور پھر کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے بعد صحرائے سینائی اوراُردن کےکچھ علاقے واپس کیےگئے، مگرگولان کی پہاڑیوں پر وہ اب بھی قابض ہے۔روس، جسے صدر ناصر اپنا بڑا اتحادی سمجھتا تھا اور ماسکو اسکوائر میں خروشیف، ریڈ فوج کی سلامی ناصر کے ساتھ لیا کرتا تھا، اِس جنگ میں خاموش تماشائی بنا رہا، جب کہ امریکا، برطانیہ نے اسرائیل کی بھرپور مدد کی اور اس جنگ کے بعد ہی ’’او آئی سی‘‘ قائم ہوئی، جو اب ’’اوہ! آئی سی‘‘ بن کےرہ گئی ہے۔

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ناظر محمود بھی ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ کے عنوان سے فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم کا المیہ بیان کررہے تھے۔ یک طرفہ یا دوطرفہ جنگ بندی ہوبھی جائے، یاد رہے، 7اکتوبر کے حماس کے حملوں سے پہلے بھی حالات اچھے نہیں تھے۔ اسرائیلی جارحیت گاہے بگاہے جاری رہتی ہی تھی، مگر اب یہ چالیس ہزار فلسطینیوں کی ہلاکت، جن میں بچّوں، خواتین کی اکثریت ہے، اِن کا خون ناحق کس کے سر ہے۔ ’’سر چشمۂ ہدایت‘‘ میں بھی ’’ قصّہ یہودی ریاست کے قیام کا‘‘ کے تحت پوری تاریخ بیان کی جارہی ہے۔ 

مطلب، دیگر ذرائع ابلاغ کی نسبت آپ لوگوں کا تاحال فوکس ’’فلسطین‘‘ ہی پر ہے اور یہ صرف ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی کا خاصّہ ہے ایرے خیال میں اِسے ہی ’’جہاد بالقلم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مبشرہ خالد،طالب علم نوجوانوں کو طالب علم ہی نظر آنے کی تلقین کررہی تھیں کہ طلبہ اور اوباش افراد میں فرق ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر محمّد فضل کمیانہ نے پختہ یقین کو کام یابی کی کلید قرار دیا۔ جب کہ ڈائننگ ٹیبل پر قراۃ العین فاروق چکن ٹماٹو، پاستا اور لوبیا کی چاٹ سجائے بیٹھی تھیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے ایک لاینحل معمّے، ’’عورت‘‘ کو موضوعِ گفتگو بنایا۔ ’’گفتگو‘‘ میں رئوف ظفر، سابق آئی جی پولیس، پنجاب ذوالفقار چیمہ سے گفتگو کر رہے تھے۔

حقیقت یہی ہے کہ ہرحُکم راں پولیس کو ذاتی نوکر سمجھ کر استعمال کرتا ہے، تو وہ بھی پھرعوام کی خدمت کیوں کرے گی، اپنا ذاتی مفاد ہی حاصل کرے گی۔’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا واقعہ چشم کُشا تھا۔ واقعی، اللہ تعالیٰ سے یقین کرکے مانگیں، تو وہ کرامت کردیتا ہے اور اب آ پہنچے ہیں، اپنے باغ و بہار صفحے پر، تو بھئی، ایک اچھے ٹیچر کی طرح غلطی کی اصلاح بھی کیا کریں، صرف نشان دہی کافی نہیں ہوتی۔ عائشہ ناصر کی مختصر تحریر خُوب تھی، سچ ہے، ہمارے ضلعے کے لوگ بہت محبّت و خلوص والے ہیں کہ سندھ کی روایتی تہذیب، یہ محبّت کی چھاپ ہی تو ہے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: کس غلطی کی اصلاح و نشان دہی کی بات کر رہے ہیں۔ عموماً ایک خط سے دوسرے خط تک کا فاصلہ اتنا طویل ہوتا ہے کہ پچھلی بات ذہن سے بالکل محو ہوچُکی ہوتی ہے۔ سو پلیز، آئندہ جو بھی بات کریں، ساتھ ریفرنس بھی دیا کریں۔ ویسےعمومی طور پرتو ہم اصلاح ہی پر یقین رکھتے ہیں، محض نشان دہی پر نہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* نام نہاد ’’اصولی موقف‘‘ کے نام پر جو لوگ پاکستان میں بیٹھ کرپاک، بھارت تجارت کو کشمیریوں کےساتھ غدّاری کہتے ہیں اور بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کے فضائل بیان کرتے ہیں۔ میرے اُن حضرات سے کچھ سوالات ہیں۔ اُمید ہے، معقول جوابات ملیں گے۔ اگست 2019ء میں بھارتی حکومت نے بھارتی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، جب کہ اُس سے قبل پاک، بھارت تجارت ہورہی تھی، توکیا ہم تجارت بند کرکے بھارت کو کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرنے پر مجبورکرپائے؟ 

اِس تجارتی بندش سےبھارتی معیشت کوکتنا خسارہ ہوا،نیز، ہماری معیشت پر کتنے مثبت اثرات مرتب ہوئے؟ کتنے اسلامی ممالک نےکشمیر پر ہمارا اصولی موقف درست مانتے ہوئے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کیے؟ منور مرزا صاحب کا کہنا سو فی صد درست ہے کہ پاکستانی قوم، پاک، بھارت تجارت کو سیاست کی نظر سے دیکھتی ہے، جب کہ یہ خالصتاً تجارتی معاملہ ہے۔ عجیب بات ہے، ترکیہ، اسرائیل کےساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات رکھے، تو کوئی نہیں کہتا کہ ترکیہ نے فلسطینیوں کے ساتھ غداری کی۔ مگر پاکستان، بھارت سے تجارت کرے تو کشمیریوں کے ساتھ غدّاری کے فتوے آنے لگتے ہیں۔ اگر بھارت کے ساتھ تجارت واقعی کشمیریوں کے ساتھ ظلم ہے، تو ایران اورسعودی عرب تویہ ’’ظلم‘‘ برسوں سے کر رہے ہیں۔ (محمّد کاشف)

ج: اگر کوئی قاری، محمّد کاشف کے سوالات کے جوابات دینا چاہے ، توہمارے صفحات حاضر ہیں۔

* خدارا!گوشۂ برقی خطوط کو تھوڑی وسعت دےدی جائے۔ اِس ہفتے کا میگزین، کافی معلوماتی، دل چسپ تھا اور نئی، سبق آموز کہانیوں سے، اُردو ادب کو تازگی بخش رہا تھا۔ (خضر حیاۃ البشارت)

ج: اس صفحےکےاجراء کا بنیادی مقصد، روایتی خط و کتابت کے متروک ہوتے سلسلے کا احیاء تھا، نہ کہ دورِ حاضر کی روایات کا فروغ۔ اور یہ جو ای میلز کے لیے ایک گوشہ مختص کیا گیا،وہ بھی محض کچھ آپ جیسےلوگوں کا خیال کرتے ہوئے، وگرنہ صفحے کے آغاز کے وقت ذہن میں ہرگز ایسا کوئی پلان نہیں تھا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk